بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
آيۃ الکرسی
اللَّهُ
لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ
وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا
الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ
أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ
إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا
يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ(البقرۃ ۲۵۵)
اللہ
تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہے (جس کو کبھی موت نہیں
آسکتی) (ساری کائنات کو) سنبھالنے والاہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ
نیند، اس کی ملکیت میں زمین وآسمان کی تمام چیزیں ہیں، کون شخص ہے جو اُس
کی اجازت کے بغیر اُس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے ان (کائنات) کے
تمام حاضر وغائب حالات کو ، وہ (کائنات) اُس کی منشا کے بغیرکسی چیز کے علم
کا احاطہ نہیں کرسکتے، اُس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا
ہے، اللہ تعالیٰ کو ان (زمین وآسمان) کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی، وہ بہت
بلند اور بہت بڑا ہے۔
یہ سورۂ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵
ہے جو بڑی عظمت والی آیت ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور بعض اہم
صفات کا ذکر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا بھی ذکر آیا ہے جس کی
وجہ سے اس آیت کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت میں بہت سی
حدیثیں کتب احادیث میں وارد ہیں لیکن اختصار کے مدنظر یہاں صرف چند اہم
فضیلتیں ذکر کررہا ہوں جن کے صحیح ہونے پر جمہور علماء امت متفق ہیں۔
سب سے زیادہ عظمت والی آیت:
حضرت
ابی بن کعبؓ سے رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتاب اللہ میں سب سے
زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب میں فرمایا: اللہ
اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی سوال
کیا۔ بار بار سوال کرنے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا: آیت الکرسی۔ حضور
اکرم ﷺ نے حضرت ابی بن کعبؓ کے سینے پر ہاتھ مارکر فرمایا: ابو المنذر!
اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔ (مسلم، باب فضل سورۃ الکهف وآيۃ الکرسی،ح۸۱۰) مسند
احمد میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اُس اللہ کی قسم جس
کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اِس (آیت الکرسی) کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے
اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی
ہوگی۔ (مسند احمد ۵/۱۴۱۔۱۴۲)
حضرت ابو ذر غفاریؓ کے سوال پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت‘ آیت الکرسی اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُالخ .ہے۔ (مسند احمد ۵/۱۷۸، نسائی ح ۵۵۰۹)
دخول جنت کا سبب:
حضرت
ابو امامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص
ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے‘ اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں
روکے گی سوائے موت کے۔ (ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور امام نسائی نے عمل
الیوم واللیلہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے، اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے)
شیاطین وجنات سے حفاظت:
حضرت
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رمضان میں وصول کی گئی زکاۃ کے مال پر پہرا
دے رہا تھا، ایک آنے والا آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے
لگا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس کو ایسا کرنے سے بار بار منع فرمایا۔ اس آنے
والے نے کہا کہ مجھے یہ کرنے دو، میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اگر تو
رات کو بستر میں جاکر ان کو پڑھ لے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر
حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا اور وہ آیت
الکرسی ہے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے
فرمایاکہ اس نے سچ کہا مگر وہ خود جھوٹا ہے اور وہ شیطان ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوکالة، باب اذا وکل رجلا فترک الوکيل شيئا،،، ح ۲۳۱۱، ۳۲۷۵، ۵۰۱۰)
حضرت
ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ کھجوریں تھیں جو روزانہ گھٹ رہی
تھیں، ایک رات میں نے پہرا دیا۔ میں نے دیکھاکہ ایک جانور مثل جوان لڑکے کے
آیا،میں نے اس کو سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اس سے
پوچھا کہ تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں۔ میں نے کہا کہ ذرا اپنا
ہاتھ دو۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھادیا ۔ میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا
ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے بال بھی تھے۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے
ہو؟ اس نے کہا کہ تم صدقہ کو پسند کرتے ہو اور میں تمہارے مال کو لینے آیا
ہوں تاکہ تم صدقہ نہ کرسکو۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے شر سے بچنے کی کوئی
تدبیر ہے؟ اس نے کہا: آیت الکرسی ، جو شخص شام کو پڑھ لے وہ صبح تک اور جو
صبح کو پڑھ لے وہ شام تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے
نبی اکرم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خبیث نے یہ
بات بالکل سچی کہی ہے۔ (نسائی، طبرانی۔۔ الترغیب والترہیب ۶۶۲)
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا بھی احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ غرض آیت الکرسی کے ذریعہ جنات وشیاطین سے حفاظت کے متعدد واقعات صحابہ کے درمیان پیش آئے۔ (تفسیر ابن کثیر)
حضرت
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ
المؤمن کو حٰمٓسے الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا‘
وہ شام تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح
تک حفاظت ہوگی۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی سورہ البقرہ وآیہ
الکرسی ج ۲۸۷۹)
آیت الکرسی اسم اعظم پر مشتمل:
حضرت
اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اِن دونوں
آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ایک تو آیت الکرسی اور دوسری آیت الم اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ(مسند احمد۶/۴۶۱، ابوداؤد، کتاب الوتر، باب الدعاء ح ۱۴۹۶، ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی ایجاب الدعاء بتقدیم الحمد ح ۳۴۷۸، ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب اسم اللہ الاعظم ج ۳۸۵۵)
حضرت
ابوامامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسم
اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا
ہے، وہ تین سورتوں میں ہے سورۂ البقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہ۔ (ابن
ماجہ، کتاب الدعا،، باب اسم اللہ الاعظم ح ۳۸۵۵)
وضاحت: سورۂ البقرہ میں آیت نمبر ۲۵۵، سورۂ آل عمران میں آیت نمبر ۲ اور سورۂ طہ میں آیت نمبر ۱۱۱ہے۔
آیت الکرسی چوتھائی قرآن:
حضور اکرم ﷺ نے آیت الکرسی کو چوتھائی قرآن کہا ہے۔ (مسند احمد ۳/۲۲۱، ترمذی کتاب فضائل القرآن،باب ما جاء فی اذا زلزلت، ح ۲۸۹۵)
مفہوم آيت الکرسی: اس توحید کی اہم آیت میں ۱۰ جملے ہیں:
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ:
یہی وہ پیغام ہے جس کی دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف
اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا اور
وہی اس پوری دنیا کے نظام کو تنہے تنہا چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک
نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی
مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اس نے انسانوں کی
ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل بھیجے۔ آخر میں تمام نبیوں کے سردار
حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت للعالمین
بناکر بھیجا۔
اَلْحَیُّ الْقَيُّوْمُ: لفظ حَیُّ کے معنی ہیں زندہ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور وہ موت سے بالا تر ہے۔ کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ اِلَّا وَجَْهه،،، کُلُّ مَنْ عَلَيهافَانٍ، وَيَبْقٰی وَجه رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاکْرَامِ اللہ
تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ قَیُّوْمُ مبالغہ کا
صیغہ ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کے قیام
وبقا کا واسطہ اور ذریعہ ہو۔
نوٹ:
قیوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی،
کیونکہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقا میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی
دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں۔ اس لئے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز
نہیں ہے۔ لہذا عبدالقیوم نامی شخص کو صرف قیوم کہہ کر پکارنا غلط ہے۔
لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ:
سِنَۃٌکے معنی اونگھ اور نَوْمٌ کے معنی نیند کے ہیں۔ ان دونوں کی نفی سے
نیند کی ابتدا اور انتہا دونوں کی نفی ہوگئی یعنی اللہ تعالیٰ غفلت کے تمام
اثرات سے کمال درجہ پاک ہے۔
لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ: تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مملوک ہیں، وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف کرے۔
مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ:
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا مالک ہے ، کوئی اس سے
بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں ہے تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں بازپرس
کرنے کابھی حق دار نہیں ہے ، وہ جو حکم جاری فرمائے اس میں کسی کو چون
وچرا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تبارک
وتعالیٰ سے کسی کی سفارش یا شفاعت کرے، سو اس کو بھی واضح کردیا کہ اللہ
تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے نیک ومقبول بندے بھی کسی کے لئے
شفاعت نہیں کرسکتے ہیں۔
رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت
کروں گا،یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی کا نام مقام محمود ہے،
جس کا ذکر سورۂ الاسراء ۷۹ میں آیا ہے عَسَی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً ۔
نبی اکرم ﷺ کی عام امتیوں کی شفاعت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو
بھی تین شرطیں پائی جانے پر دوسروں کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی۔
۱) جسکے لئے شفاعت کی جارہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَهُمْ مِّنْ خَشْيَته مُشْفِقُوْنَ (سورۂ الانبیاء ۲۸) وہ کسی کی بھی شفاعت نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو اور وہ اسکی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔
۲) شفاعت کرنے والے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَن يَّاْذَنَ اللّهُ لِمَن يَّشَاءُ وَيَرْضَی(سورۂ النجم ۲۶)
۳) اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے والے کو شفاعت کی اجازت دے۔ سورہ النجم کی آیت میں اَن يَّاْذَنَ اللّه اور آیت الکرسی میں اِلَّا بِاِذْنه سے یہ شرط واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح سورۂ یونس آیت ۳ میں ہے : مَا مِنْ شَفِيْعٍ الَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنه اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ:
اللہ تعالیٰ لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات وواقعات سے واقف ہے۔ آگے
اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا
ہونے کے بعد کے تمام حالات وواقعات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اور یہ
مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے
ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات وحالات ہوں تو معنی یہ ہوں
گے انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض چیزوں پر نہیں، کچھ چیزیں اس
کے سامنے کھلی ہوئی ہیں اور کچھ چھپی ہوئی ، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کے
سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں، اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے ۔
وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ:
انسان اور تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں
کرسکتے، مگر اللہ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصہ علم عطا کرنا چاہیں صرف
اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں بتلادیا گیا کہ تمام کائنات کے
ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی صفت ہے، انسان یا
کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔
وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ:
یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ جس کی وسعت کے اندرساتوں آسمان اور زمین
سمائے ہوئے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نشست وبرخاست اور حیزومکان سے بالا تر
ہے، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے، اس کی کیفیت
وحقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے اتنا معلوم
ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین
سے بدرجہا بڑے ہیں۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے بروایت حضرت ابو ذر غفاریؓ نقل کیا
ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپ ﷺ
نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں
اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں
انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ڈال دیا جائے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ عرش کے
سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہے کہ جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ
(چھلّہ) ۔
کرسی
سے مراد حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے علم منقول ہے، بعض حضرات سے دونوں پاؤں
رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کا اندازہ بجز
باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔ ابو مالکؒ فرماتے ہیں کہ کرسی عرش کے نیچے
ہے۔ سدیؒ کہتے ہیں کہ آسمان وزمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر
پھیلادئے جائیں تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ
(چھلّہ) کسی چٹیل میدان میں۔ ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں
آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں۔ (تفسیر بن کثیر) بعض
مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ کا اقتدار آسمانوں اور
زمین کے تمام اطراف واکناف پر حاوی ہے، کوئی گوشہ اور کونہ بھی اس کے دائرہ
اقتدار سے الگ نہیں ہے۔
وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا:اللہ
تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات یعنی آسمان وزمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں
معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت
آسان ہیں۔ ےَءُودکے معنی ہیں کسی چیز کا ایسا بھاری اور گراں ہونا کہ اس
کا سنبھالنا مشکل ہوجائے۔
وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ:
گزشتہ نو جملوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان کئے
گئے، ان کو سمجھنے کے بعد ہر عقل مند شخص یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت
وعظمت اور بلندی وبرتری کا مستحق وہی پاک ذات ہے۔
ان
دس جملوں میں اللہ جل شانہ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون وضاحت
اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے
والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو شرک کی
تمام شکلوں سے محفوظ فرمائے، آمین، ثم آمین۔