Sunday, October 26, 2014

نماز کے طبی فوائد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دور حاضر کا انسان بے عمل زندگی گزار ر ہا ہے۔ پیدل چلنے کے بجائے ہر جگہ سواری میں سفر کرتا ہے۔ کھڑا رہنے کے بجائے بیٹھا رہتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں میں خود حصہ لینے کے بجائے محض تماشائی بننا ہی کافی سمجھتا ہے۔
سائنسی ترقی کی بنا پر جلد ہی خود کار قوتیں انسان کا بہت سا کام کرنے لگیں گی جس سے انسان اور زیادہ بے عملی کا شکار ہو جائے گا۔ زمانہ قدیم کی کئی تہذیبیں جسمانی اور ذہنی انحطاط کی بنا پر تباہ ہوئیں۔ کیونکہ وہ بے عملی کا شکار ہو گئی تھیں۔ آج کا انسان پہلے سے کہیں زیادہ بے عملی کا شکار ہے۔
جس کی بنا پر جسمانی کمزوری، اعصابی تناؤ، ذہنی دباؤ مختلف قسم کی بیماریوں میں اضافہ اور دل کی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
فالج ۔ ذیابطیس ۔ معدہ کا ناسور۔ گردے کی بیماریاں۔ تپ دق اور دمہ کے امراض پٹھوں اور جوڑوں کے درد۔ فشار خون۔ ایڈز ۔ ذہنی اور اعصابی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
دور جدید کا انسان گردو پیش کے حالات سے نفرت پریشانی اور خوف میں مبتلا ہے۔ جس سے اس کی ذہنی۔ جسمانی۔ اعصابی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور انسانی ذہن تخریبی اور پریشان کن تفکرات اور دیگر دنیاوی مسائل کا شکار ہے۔
بیشتر ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ جب تک جدید بودوباش میں ذہنی دباؤ نا آسودگی اور تناؤ کم نہیں ہوتا زندگی دو بھر رہے گی۔ لہذا ضروری ہے کہ متوازن اور موزوں منصوبہ بندی کے تحت ذہنی اور جسمانی تندرستی کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔
کام کرنے اور پیدل چلنے سے جسم کے چھوٹے اور بڑے عضلات میں حرکت اور ان سے متعلقہ رد عمل کی بنا پر جسم انسانی میں طاقت۔ قوت برداشت۔ مہارت۔ اور تیزگامی کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
حرکت کے قوانین جسمانی اعضاء کے افعال اور ان کے رد عمل کے اثرات اور حرکات کا ماہرانہ عمل انسانوں کو معیاری قامت۔ حسین اعضاء اور جسم کے تیز تر افعال عطا کرتا ہے۔
بیماریوں سے بچاتا۔ ذہنی ۔ جسمانی اور اعصابی نظام میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے جس سے جسمانی و ذہنی سکون اور نیند کا عمل ترقی پاتا ہے اور خوشی و فرحت حاصل ہوتی ہے۔
اب یہ حقیقت سب جان چکے ہیں کہ جسم اور ذہن کی درست نشوونما سے صحت مند، طاقتور، خوبصورت، حاضر دماغ اور ذمہ دار انسان وجود میں آتے ہیں جب کہ انسانی نشوونما چار سمت میں ہوتی ہے۔
١۔ مناسب جسمانی ترقی سے عضلات اور اعصاب میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور نامیاتی نظام ترقی کرتے ہیں۔
٢۔ نظام دوران خون، نظام تنفس، نظام انہضام، نظام اخراج فضلات انتہائی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
٣۔ مسلسل ایک جیسی حرکات سے جسم موزوں اور اعصاب و عضلات میں ربط بڑھتا ہے اور اس حرکاتی ترقی سے جسم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔
٤۔ جسم اور ذہن کی متوازن نشوو نما سے شخصیت کا ارتقاء ہوتا ہے بہتر میل جول، قیادت ، جرات، خود اعتمادی، تحفظ، خدمت، منصفانہ برتاؤ اور راست بازی جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ اختراع، خوش تدبیری، رہنمائی اور حاضر دماغی پیدا ہوتی ہے،
عمدہ قامت، خوبصورت جسم، چست حرکات، سریع رد عمل اور ذہنی سکون کا دارومدار بہت حد تک مضبوط اور لچک دار جسم پر ہوتا ہے۔ اگر عضلات اور پٹھے کمزور ہوں تو جسم متوازن اور سڈول ہونے کے بجائے بے ڈول اور بے ہنگم ہو جاتا ہے۔
عضلات پٹھے اور ہڈیاں پورے ارتقاء کو نہیں پہنچتے جس سے حسن رعنائی اور مضبوطی جو کہ مکمل ارتقاء کا خاصہ ہیں حاصل نہیں ہوتے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی صحت کے انحطاط کو روکا جائے۔ تاکہ ایک صحت مند خوبصورت، مضبوط اور مطمئن انسانی جسم اور ذہن تشکیل پا سکے جو کہ اکیسویں صدی کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے ۔
مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبیؐ رحمت کے ذریعہ ایک بہت ہی عظیم تحفہ نماز کی شکل میں بھیجا جو کہ تمام اعلیٰ معیار کی عضلاتی، اعصابی ، ذہنی اور روحانی کسرتوں حرکات اور عملیات پر مشتمل ہے ۔ جو کہ انسان کی جسمانی، ذہنی اور روحانی ارتقاء اور نشوونما کے لئے موزوں اور نہایت ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اس اکثیر اعظم کی برکات و فوائد اور چاشنی سے یکسر نا بلد ہیں۔ ۔ کیونکہ ہم واجبات نماز میں چوری کرتے ہیں جس کی بنا پر برکات و فوائد کے بجائے جسمانی ذہنی اور روحانی نقصانات اٹھاتے ہیں۔ نماز کو پوری توجہ اور ادائیگی کے نبوی طریقہ سے اپنا کر ہم مندرجہ ذیل خصوصیات اور فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
بالخصوص دفتروں میں کام کرنے والے نوجوان ادیھڑ عمر مرد اور عورتیں جو گھنٹوں کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں نماز کی درست ادائیگی کے ذریعے حملہ قلب، ذیابطیس، تپ دق، جوڑوں کے درد، معدے کے ناسور، ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ جسمانی کھنچاؤ، فکر، پریشانی، حتیٰ کے ایڈز اور خود کشی (مرکزی اعصابی نظام کے عارضے) جیسے امراض سے نجات حاصل کر کے مکمل سکون قلب اور اطمینان سے مذین صحت مند اور خوشگوار زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
نماز کے فوائد اور برکات
١۔ نماز کی کسرتیں جسم کے بالائی اور نچلے حصوں میں توانائی بڑھاتی ہیں۔ اور عضلات اور پٹھوں کو مضبوط و توانا کرتی ہیں۔
٢۔ جسمانی حرکات میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں اور جسم میں جازبیت اور لچک پیدا کرتی ہیں۔
٣۔ فطری صلاحیتیں اجاگر کرتی ہیں۔
٤۔ بغیر ورزشی آلات کے متوازن طور پر جسم کی ارتقاء کا عمل جاری رکھتی ہیں جس سے جسم میں حسن و توانائی کا اضافہ ہوتا ہے۔
٥۔ نماز زہنی دباؤ، اعصابی تناؤ، فکر اور پریشانی کو دور کرتی ہے۔ طمانیت خود اعتمادی اور تسکین قلب بہم پہنچاتی ہے۔
٦۔ اپنے آپ پر قابو پانے کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔
٧۔ اگر صلاحیت کم اور جسم کمزور ہو تو نماز سے بتدریج اس کمی کو دورکیا جا سکتا ہے۔
٨۔ قوت، سکت، برداشت، پھرتی اور توانائی بڑھاتی ہے۔ اور جسم میں نیا ولولہ پیدا کرتی ہے۔
٩۔ شرمیلا پن زیادہ ہو تو مسجد میں نماز سے خود اعتمادی حاصل ہوجاتی ہے۔
١٠۔ نماز انسان کو چوکس رکھنے اور توازن کو برقرار رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
١١۔ ہڈیوں کو نماز کا عمل لچکدار اور مضبوط رکھتا ہے۔ نماز حادثات کی شکل میں بہت سی چوٹوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
١٢۔ نماز کا ماہرانہ عمل جسم کے دفاعی نظام کو بتدریج ترقی دیتا ہے اور کئی خطرناک بیماریوں اور ایڈز سے بچاتا ہے ۔ جس پر تمام صحت کا دارومدار ہے۔
١٣۔ نماز دوران خون کو بار بار کے سجدہ اور رکوع سے تیز کرتی ہے۔ خون کا دباؤ بڑھاتی ہے اور پھر کم کرتی ہے ۔ جس سے خون کی رگیں ، شریانیں اور وریدیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔
١٤۔ دوران خون میں یکسانیت پیدا کرتی ہے جس سے دماغی ہیمرج، فالج، لقوہ جیسی مہلک بیماریوں سے نمازی محفوظ رہتا ہے۔
١٥۔ گھٹنوں کے بل جھکنے ، سیدھے بیٹھنے، سیدھے کھڑے ہونے اور کمر کو پوری طرح جھکانے اور سجدے کی حالت میں بازوؤں کو کہنی پر سے موڑنے اور باہر کی طرف پھیلانے سے ٹانگوں، بازؤں، ہاتھ پاؤں ، گردن ، کمر اور پیٹ کی نہ صرف ورزش ہوتی ہے بلکہ اعضاء رئیسہ یعنی دل، جگر ، پھیپھڑوں، معدہ ، انتڑیوں کی بھی ورزش ہوتی ہے اور ان کی کارکردگی کو بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ دوران خون زیادہ ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی آمد بڑھ جاتی ہے جو کہ صحت کے لئے انتہائی اہم ہے ۔
١٦۔ ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ، جسمانی کھنچاؤ اور مضحمل طبیعت کو مکمل طور پر بحال کرتی ہے۔ نہایت اعلیٰ قسم کی دافع درد ہے انجائنا کے درد کو مکمل دور کر دیتی ہے۔
١٧۔ دل کی بیماریوں سے مکمل طور پر محفوظ رکھتی ہے۔ اور جسمانی قوت اور زندگی کو بڑھاتی ہے۔ اگر خون کی نالیاں سکڑ گئی ہوں یا ان میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہو تو متوازن نالیاں بنانے میں زبردست مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
١٨۔ اگر نماز درست طریقہ پر ادا کی جائے تو عارضہ قلب اور حملہ قلب سے مکمل طور پر بچاتی ہے۔ دل کے پٹھوں اور بافتوں کو وقتی ضرورتوں کے مطابق خون کی فراہمی کے عمل کو تقویت پہنچاتی ہے۔ کورونری رگوں کو سکڑنے سے روکتی ہے۔ رکاوٹوں کو دور کرتی ہے۔
١٩۔ دل کے بڑھنے کو روکتی ہے اور اگر دل بڑھ گیا ہو تو اسے اصل حالت میں لانے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے، کیلسٹرول، چربی اور شکر کو ایندھن کے طور پر جلا دیتی ہے۔ کھانے کے بعد نماز کا عمل فالتو چربی اور شکر کو ختم کر دیتا ہے اور موٹاپے کو روکتا ہے۔ اعلیٰ قسم کی مصفا خون ہے۔
٢٠۔ نماز کی صحیح حرکات وقت کی پابندی کے ساتھ سکون قلب، طمانیت، جسمانی قوت، راحت، خود اعتمادی، ہم آہنگی، سبک رفتاری، توانائی ، سریع رد عمل اور جرأٔت پیدا کرتی ہے۔جسم اور چہرے کو خوبصورت بناتی ہے۔ اور انسانی شخصیت کو پر وقار بناتی ہے ۔
٢١۔ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش کے عمل میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ نماز کا عمل انہیں سیزیرین برتھ سے بچاتا ہے ۔ چھاتی اور رحم کے کینسر سے نماز کا عمل محفوظ رکھتا ہے۔خواتین نوافل کی کثرت سے اپنے جسم کو مزید خوبصورت اور توانا بنا سکتی ہیں۔ نماز دافع امراض بھی ہے ۔ خواتین کی بیماریوں کا علاج اس میں موجود ہے ۔لہذا احادیث کے مطابق نماز کی ادائیگی بیماریوں کے خلاف مکمل مدافعت پیدا کرتی ہے۔ اور صحت مند اور توانا جسم کی ضمانت ہے ۔
٢٢۔ تنفس اور دوران خون کے نظام کو جوش اور تیزی سے ہمکنار کرتی ہے اور ذیق نفس کو روکتی ہے۔ جس سے پھیپھڑوں اور دل کی حرکات میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جس سے سانس کا عمل بہتر ہوتا ہے۔ اور مکمل تسکین حاصل ہوتی ہے۔
فارغ اوقات میں نوافل کی ادائیگی مزید قوت توانائی حسن اور رعنائی سکون و طمانیت کا باعث بنتی ہے۔ جس سے انسان میں اس کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔
نماز مسجد میں ادا کرنے کے لئے پیدل چلنے کے عمل سے ٹانگوں اور بازؤں کے عضلات میں حرکت اور ان کے رد عمل کی بنا پر تیزگامی اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور دل کے کام کرنے کی استعداد بڑھتی ہے۔
نماز میں قرات اورسانس روک کر آیات کی ادائیگی سے تنفس کے عمل میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ اور ذیق نفس کی بیماری سے نجات ملتی ہے۔ پھیپھڑوں میں ہوا روکنے سے سوراخ اور نالیاں صاف رہتی ہیں۔ اور نمازی دمہ، تپ دق اور پھیپھڑوں کے کینسر جیسے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
اگر رکوع اور سجدہ درست ادا کیا جائے تو ریڑھ کی ہڈیوں کے جوڑوں اور گردن کی ہڈیوں کی خرابیاں اور دماغی امراض سے مکمل نجات ملتی ہے۔
نماز میں اگر تسبیحات پوری ١٠ یا ١٣ ادا کی جائیں تو فشار خون میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دماغی امراض سے نجات ملتی ہے ۔ قوت یاداشت تیز ہوتی ہے اور پرسکون اور گہری نیند آتی ہے۔ گردے، معدہ، دل ، پھیپھڑوں اور جگر کے عمل کی اصلاح ہوتی ہے۔ پٹھے ہڈیاں جوڑ مضبوط ہوتے ہیں۔ اور پورا جسم اپنی قدرتی ارتقائی منازل طے کرتا ہے۔ جس سے جسم کی ساخت بہتر اور بناوٹ عمدہ ہو جاتی ہے اور شخصیت میں حسن اور رعنائی تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
نماز میں بعض پٹھوں کو کسنے یعنی دباؤ میں رکھنے اور پھر ڈھیلا کرنے کے مسلسل عمل سے پٹھے اور جوڑ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ اور دوران خون میں وقتی تیزی اور پھر میانہ روی آتی ہے جس سے جسم میں قوت مدافعت بڑھتی ہے۔ اور اچانک حادثہ، دھماکہ، ڈرنے، خوف زدہ ہو جانے کی صورت میں دل قابو میں رہتا ہے۔ اور حملہ قلب سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
مزید یہ کہ تمباکو نوشی، بسیار خوری، غیر معیاری خوراک، گھی، مکھن، گوشت ، چرب دار اور نشاستہ والی اشیا کا بے جا استعمال ، بے وقت سونا، کم سونا، نیند کا پورا نہ ہونا اور لمبے عرصے تک کاہلی کی زندگی گزارنا، بے عملی اور ہاتھوں سے کام کاج نہ کرنا۔ پیدل چلنے سے اجتناب ، جھوٹ ، دھوکا، فریب، ظلم، جنسی بے راہ روی، زنا، رشوت ستانی، ناکامی، مالی نقصانات وغیرہ کے رد عمل کی بنا پر غصہ، متشدد رویہ، پریشانی، ناخوشگواری، نا امیدی، بے عزتی، چھوٹا پن، شدید تنہائی کا احساس، مایوسی، افسوس، گناہ کا احساس، کشیدگی، گراوٹ کا احساس، ندامت، تھکاوٹ کااحساس، اعصابی تناؤ، جذباتی کھنچاؤ اور طبیعت کا مضمحل ہونا لازمی اور قدرتی عمل ہے۔ جس کے رد عمل کی بناء پر نظام تنفس، نظام انہضام، نظام دوران خون اور نظام اخراج فضلات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ جس کا اثر انسان کے جسمانی، اعصابی اور روحانی عضلات پر پڑتا ہے۔ جس سے انسانی اعضائے رئیسہ بلخصوص دل ، دماغ، پھیپھڑے ، جگر ، معدہ اور اعصابی نظام کی کارکردگی میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ جس سے انسانی جسم اور شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔
نماز کا ماہرانہ عمل اور معیاری حرکات اس ٹوٹ پھوٹ کو روکتے ہیں۔ اور نہ صرف نقصانات کا ازالہ کرتے ہیں بلکہ اسے دوبارہ اپنے قدرتی راستہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔ نوافل کی کثرت اسے مزید قوت بخشتی ہے۔ اور ایک مکمل طور پر صحت مند، حسین ، خوش مزاج اور مطمئن انسان وجود میں آتا ہے۔ جو آج کی دنیا کی انتہائی ضرورت ہے۔
یہ تمام خصائص اور برکات صرف اس صورت میں حاصل ہوتی ہیں اگر نماز پوری توجہ اور احادیث نبویۖ میں بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ادا کی جائے ورنہ طریقہ نبویۖ سے انحراف کی صورت میں ٦٠ سالہ نماز کی ادائیگی بھی شفا، برکات و فوائد کے حصول کے بجائے جسمانی، ذہنی اور روحانی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ جس سے ایک کمزور، بے ہنگم، ناہموار، حسن اور جاز بیت سے عاری جسمانی اور ذہنی طور پر پسماندہ منتشر اور مضمحل انسان وجود میں آتا ہے۔جیسا کہ آج مسلمانوں کا حال ہے۔یاد رکھیئے روایتی نماز وقت کا ضیاع ہے ۔ اور تباہی اور بربادی کے سوا نمازی کو کچھ نہیں ملتا ۔ اور یہ تکذیب دین کے زمرے میں آتی ہے ۔ اللہ ہمیں ایسی نماز سے بچائے ۔
نماز سے انتہائی فوائد اور برکات حاصل کر کے ہم ایک خوشگوار صحت مند، طویل ، معیاری اور اعلیٰ زندگی گزارنے کے اہل بن سکتے ہیں۔
آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ آپ یہ اعلیٰ معیار کیوں کر حاصل کر سکتے ہیں۔ ان تمام نبوی طریقوں سے استفادہ کرنے کے لئے احادیث نبوی کے مطابق نماز کی ادائیگی کا عمل سیکھئے اور نماز کی برکات ثمرات اور فوائد حاصل کیجئے۔جان لیں ، روایتی نماز سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔صحیح نماز میں اللہ تعالی نے شفا رکھی ہے۔ جس سے آپ ابھی تلک محروم ہیں۔نماز دل کی تمام بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے ۔ ذیابطیس (شوگر)، فشار خون ( ہائپر ٹنشن )، اور ذہنی بیماریوں سے مکمل طور پر صحت یاب کرتی ہے ۔
اسلئے اس مؤثر ترین ہتھیار کا استعمال سیکھنے کے لئے بیت المعمور کے ممبر بنیئے۔ایک اعلیٰ معیار کی بیماریوں سے پاک زندگی گزارئیے ۔
عارضہ قلب اور حملہ قلب سے بچنے کا طریقہ سیکھنے کے لئے تربیتی پروگرام کے لئے مندرجہ ذیل پتہ پر رابطہ کیجئے ۔ کوئی فیس نہیں تربیت بلا معاوضہ ہے ۔باقاعدہ استاد کا انتظام ہے جو آپ کو صحیح نماز سکھانے کے لئے ہما وقت موجود رہتے ہیں۔

Wednesday, October 15, 2014

خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی

آپ کا نام عثمان کنیت ابوعبداللہ، ابو عمر ، لقب ذو النورین، والد کا نا م عفان اورو الدہ کا نام ارویٰ ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب پا نچویں پشت میں عبد مناف پر رسول کریم ﷺسے مل جا تا ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نا نی صاحبہ بیضا ام الحکیم حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کی سگی بہن اور آپﷺ کی پھو پھی تھیں۔اس لئے وہ ماں کی طرف سے آپﷺ کے قریشی رشتے دار ہیں ۔حضرت عثمان نے مکہ میں توحید کی صدا سنی تو یہ آواز تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان کے لئے نا مانوس تھی تا ہم وہ اپنی فطری عفت،پارسائی، دیا نتداری اور راست بازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کے لئے با لکل تیار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ایمان لا ئے تو انہوں نے دین متین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اپنے حلقہ احباب میں تلقین وہدا یت کا کام شروع کر دیا۔ ایام جاہلیت میں ان کا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ربط وضبط رہتا تھا اور اکثر مخلصانہ صحبت رہتی تھی ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے توآپ نے اسلام کے متعلق گفتگو شروع کر دی۔ حضرت ابوبکر صدیق کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ با رگاہ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کر نے پر آمادہ ہو گئے ابھی دو نوں بزرگ جا نے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ خود سرور کا ئناتﷺ تشریف لے آئے اور حضرت عثمان غنی کو دیکھ کر فر ما یا عثمان خدا کی جنت قبول کر میں تیری اور تمام خلق کی ہدا یت کے لئے معبوث ہوا ہوں ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ و صاف جملوں میں خدا جا نے کیا تاثیر تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہا دت پڑھنے لگا اور دست مبار ک میں ہاتھ دیکر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں آپﷺ کی دو بیٹیاں حضرت ر قیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں اس وجہ سے آپ کو ذو النورین کہا جا تا ہے مکہ میں اسلام کی روز افزوں تر قی سے مشرکین قریش کے غضب کی آگ روز بروز زیا دہ مشتعل ہو تی جا تی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی وجا ہت اور خاندانی عزت کے باجود جفاکا روں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ، ان کو خودا ن کے چچا نے باندھ کر مارا اور اعزہ واقارب نے طعنے دینے شروع کر دیئے رفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اور جفا کاری یہاں تک بڑی کہ وہ خود ان کی برداشت سے باہر ہو گئی اور با لا آخر رسول کریم ﷺکے حکم پر آپ اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لیکر ملک حبشہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ چنا نچہ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق وصداقت اور ایمان کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلا وطن ہوگیا ۔حضور پاکﷺ نے فرمایا حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی زوجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی۔
ہجرت کے بعد آپ کو ان کا حال کچھ معلوم نہ ہو سکا اس لئے آپﷺ پریشان تھے کہ ایک عورت نے خبر دی کہ اس نے ان دونوں کو حبشہ میں دیکھا تھا۔ حضرت عثمان غنی حبشہ چند سال رہے اس کے بعد جب بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کے قبولِ اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان بھی آگئے یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے اس بنا پر بعض صحابہ پھر ملک حبشہ کی طرف لوٹ گئے مگر حضرت عثمان پھر واپس نہ گئے۔ اس اثناء میں مدینہ منورہ کی ہجرت کا سا مان پیدا ہو گیا اور رسول اللہﷺ نے اپنے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم فر ما یا تو حضرت عثمان بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے گئے جہاں آپ حضرت اوس بن ثابت کے مہمان ہوئے اور آپﷺ نے ان میں اور حضرت اوس بن ثابت میں بھائی چارہ قائم کر دیا۔ اس مواخات سے دو نوں خاندانوں میں جس قدر محبت اور یگا نگت پیدا ہو گئی تھی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مدینہ منورہ آنے کے بعد مہاجرین کو پانی کی سخت تکلیف تھی تمام شہر میں صرف بئیر رومہ ایک کنواں تھا جس کا پانی پینے کے لائق تھا مگر اس کا مالک ایک یہودی تھا اور اس نے اسے ذریعہ معاش بنا رکھا تھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مصیبت کو دور کر نے کے لیئے اس کنویں کو خرید کر اللہ تعالی کی راہ میں وقف کر دیا لیکن یہودی صرف نصف حق پر فروخت کر نے پر راضی ہوا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارہ ہزار درہم میں نصف کنواں خرید لیا اور شرط یہ قرار پائی کہ ایک دن حضرت عثمان کی باری ہو گی اور دوسرے دن اس یہودی کے لئے کنواں مخصوص ہو گا جس روز حضرت عثمان کی باری ہوتی تھی اس روز مسلمان اس قدر پانی بھر لیتے تھے کہ وہ پانی دو دن کے لئے کافی ہو تا تھا یہودی نے دیکھا کہ اسے اب کچھ نفع نہیں ہو سکتا تو وہ بقیہ نصف حصہ بھی فروخت کر نے پر راضی ہو گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آٹھ ہزار درہم میں بقیہ حقوق خرید کر اسے مکمل وقف کر دیا اس طرح اسلام میں حضرت عثمان کے فیض کرم کا یہ پہلا منظر تھا جس نے تو حید کے تشنہ لبوں کو سیراب کر دیا۔
  •  حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرض وفات میں خلافت کے لیئے چھ آدمیوں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد بن وقاص، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نا م پیش کیا گیا کہ ان میں سے کسی کو منتخب کر لیا جا ئے اور تا کید کی گئی کہ تین دن کے اندر انتخا ب کا فیصلہ کیا جا ئے حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تجہیز وتکفین کے بعد انتخاب کا فیصلہ پیش ہوا اور دودن تک اس پر بحث ہو تی رہی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا آخر تیسرے دن حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ وصیت کے مطابق خلافت چھ آدمیوں پر دائر ہے لیکن اس کو تین شخصوں تک محدودکر دینا چاہئے اور جو اپنے خیال میں جس کو مستحق سمجھتا ہو اس کا نام لے حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اپنے حق سے باز آتا ہوں اس لئے اب یہ معا ملہ صرف دو آدمیوں پر منحصر ہے اور ان دو نوں میں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سنت شیخین کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جا ئے گی اس کے بعد علیحدہ علیحدہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ دو نوں اس کا فیصلہ میرے ہاتھ میں دیدیں۔ ان دونوں حضرات کی رضا مندی لینے کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور باقی تمام صحابہ کرام مسجد میں جمع ہوئے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مختصر لیکن موٴثر تقریر کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کے لئے ہاتھ بڑھا دیا چنا نچہ تمام حاضرین بیعت کے لئے لپک پڑے اور یوں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ سوم قرار پائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں تاریخی کارنامے سرانجام دیئے آپ کا سب سے اہم کارنامہ امت کو قرآن مجید کی ایک متفقہ قرآن پر جمع کر نا تھا چنانچہ آپ بجا طور پر ناشر قرآن کریم کہلائے آپ کے دور کی فتوحات اسلام مخالفین کو برداشت نہ ہو سکیں چنانچہ آپ کے خلاف بڑی گہری سازشیں کی گئیں آپ کے گھر کا دانہ پانی بند کیا گیا۔ یہ ظلم چالس روز تک روا رکھا گیا جس وقت آپ پر حملہ کیا گیا آپ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے وہ قرآن مجید آج بھی استنبول میں آپ کے خون کا گواہ بن کے محفوظ ہے۔ حضرت عثمان کی زندگی مسلمانوں کو یہ درس دیتی ہے کہ قر آن مجید کو کسی حال میں نہیں چھوڑنا اور دین اسلام کے لئے مال و دولت قربان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے اور صلح جوئی کو فروغ دینا چاہیے۔ شہا دت کے وقت آپ روزے سے تھے۔ شہادت سے ایک روز پہلے خواب میں آقا ئے دوجہاںﷺ کی زیارت ہو ئی آپﷺ نے افطاری اپنے ساتھ کر نے کافر ما یا چنانچہ اسی روز شہا دت کا تاج اپنے سر سجا کر اللہ کو پیارے ہو گئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اشاعت اسلام کے لئے خدمات تاریخ اسلام کا لازمی حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر خلفائے راشدین و صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

Saturday, October 11, 2014

ابليس کي مجلس شوري

يہ عناصر کا پرانا کھيل، يہ دنيائے دوں
ساکنان عرش اعظم کي تمناؤں کا خوں!
اس کي بربادي پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں
ميں نے دکھلايا فرنگي کو ملوکيت کا خواب
ميں نے توڑا مسجد و دير و کليسا کا فسوں
ميں نے ناداروں کو سکھلايا سبق تقدير کا
ميں نے منعم کو ديا سرمايہ داري کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کي آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں ميں ہو ابليس کا سوز دروں
جس کي شاخيں ہوں ہماري آبياري سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!


پہلا مشير
اس ميں کيا شک ہے کہ محکم ہے يہ ابليسي نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامي ميں عوام
ہے ازل سے ان غريبوں کے مقدر ميں سجود
ان کي فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قيام
آرزو اول تو پيدا ہو نہيں سکتي کہيں
ہو کہيں پيدا تو مر جاتي ہے يا رہتي ہے خام
يہ ہماري سعي پيہم کي کرامت ہے کہ آج
صوفي و ملا ملوکيت کے بندے ہيں تمام
طبع مشرق کے ليے موزوں يہي افيون تھي
ورنہ 'قوالي' سے کچھ کم تر نہيں 'علم کلام'!
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقي تو کيا
کند ہو کر رہ گئي مومن کي تيغ بے نيام
کس کي نوميدي پہ حجت ہے يہ فرمان جديد؟
'ہے جہاد اس دور ميں مرد مسلماں پر حرام!

دوسرا مشير
خير ہے سلطاني جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہيں ہے با خبر!

پہلا مشير
ہوں، مگر ميري جہاں بيني بتاتي ہے مجھے
جو ملوکيت کا اک پردہ ہو، کيا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہي کو پہنايا ہے جمہوري لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہرياري کي حقيقت اور ہے
يہ وجود مير و سلطاں پر نہيں ہے منحصر
مجلس ملت ہو يا پرويز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غير کي کھيتي پہ ہو جس کي نظر
تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوري نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!

تيسرا مشير
روح سلطاني رہے باقي تو پھر کيا اضطراب
ہے مگر کيا اس يہودي کي شرارت کا جواب؟
وہ کليم بے تجلي، وہ مسيح بے صليب
نيست پيغمبر و ليکن در بغل دارد کتاب
کيا بتاؤں کيا ہے کافر کي نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کي قوموں کے ليے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کيا ہوگا طبيعت کا فساد
توڑ دي بندوں نے آقاؤں کے خيموں کي طناب!

چوتھا مشير
توڑ اس کا رومہ الکبرے کے ايوانوں ميں ديکھ
آل سيزر کو دکھايا ہم نے پھر سيزر کا خواب
کون بحر روم کي موجوں سے ہے لپٹا ہوا
'گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،

تيسرا مشير
ميں تو اس کي عاقبت بيني کا کچھ قائل نہيں
جس نے افرنگي سياست کو کيا يوں بے حجاب

پانچواں مشير (ابليس کو مخاطب کرکے
اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!
تو نے جب چاہا، کيا ہر پردگي کو آشکار
آب و گل تيري حرارت سے جہان سوز و ساز
ابلہ جنت تري تعليم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہيں
سادہ دل بندوں ميں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقديس و تسبيح و طواف
تيري غيرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار
گرچہ ہيں تيرے مريد افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کي فراست پر نہيں ہے اعتبار
وہ يہودي فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتي ہو رہا ہے ہمسر شاہين و چرغ
کتني سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئي آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو ناداني سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
فتنہء فردا کي ہيبت کا يہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہيں کوہسار و مرغزار و جوئبار
ميرے آقا! وہ جہاں زير و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تيري سيادت پر مدار


ابليس ( اپنے مشيروں سے

ہے مرے دست تصرف ميں جہان رنگ و بو
کيا زميں، کيا مہر و مہ، کيا آسمان تو بتو
ديکھ ليں گے اپني آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
ميں نے جب گرما ديا اقوام يورپ کا لہو
کيا امامان سياست، کيا کليسا کے شيوخ
سب کو ديوانہ بنا سکتي ہے ميري ايک ہو
کارگاہ شيشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر ديکھے تو اس تہذيب کے جام و سبو!
دست فطرت نے کيا ہے جن گريبانوں کو چاک
مزدکي منطق کي سوزن سے نہيں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہيں مجھ کو اشتراکي کوچہ گرد
يہ پريشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئي تو اس امت سے ہے
جس کي خاکستر ميں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم ميں اب تک نظر آتے ہيں وہ
کرتے ہيں اشک سحر گاہي سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ايام ہے
مزدکيت فتنہ فردا نہيں، اسلام ہے!

جانتا ہوں ميں يہ امت حامل قرآں نہيں
ہے وہي سرمايہ داري بندہ مومن کا ديں
جانتا ہوں ميں کہ مشرق کي اندھيري رات ميں
بے يد بيضا ہے پيران حرم کي آستيں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے ليکن يہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پيغمبر کہيں
الحذر! آئين پيغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفريں
موت کا پيغام ہر نوع غلامي کے ليے
نے کوئي فغفور و خاقاں، نے فقير رہ نشيں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگي سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اميں
اس سے بڑھ کر اور کيا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کي نہيں، اللہ کي ہے يہ زميں!
چشم عالم سے رہے پوشيدہ يہ آئيں تو خوب
يہ غنيمت ہے کہ خود مومن ہے محروم يقيں
ہے يہي بہتر الہيات ميں الجھا رہے
يہ کتاب اللہ کي تاويلات ميں الجھا رہے

توڑ ڈاليں جس کي تکبيريں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا انديش کي تاريک رات
ابن مريم مر گيا يا زندہ جاويد ہے
ہيں صفات ذات حق، حق سے جدا يا عين ذات؟
آنے والے سے مسيح ناصري مقصود ہے
يا مجدد، جس ميں ہوں فرزند مريم کے صفات؟
ہيں کلام اللہ کے الفاظ حادث يا قديم
امت مرحوم کي ہے کس عقيدے ميں نجات؟
کيا مسلماں کے ليے کافي نہيں اس دور ميں
يہ الہيات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بيگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگي ميں اس کے سب مہرے ہوں مات
خير اسي ميں ہے، قيامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کي خاطر يہ جہان بے ثبات
ہے وہي شعر و تصوف اس کے حق ميں خوب تر
جو چھپا دے اس کي آنکھوں سے تماشائے حيات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کي بيداري سے ميں
ہے حقيقت جس کے ديں کي احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہي ميں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہي ميں اسے

Sunday, September 28, 2014

حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے؟

حدیث اور سنت میں فرق
لغوی معنی میں فرق
حدیث اور سنت،دونوں الفاظ عربی زبان میں اپنے لغوی معنی ہی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حدیث کے معنی بات،قول،اور کلام کے ہیں اور یہ لغت میں جدید یعنی نئی چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے،جبکہ سنت کے معنی پٹے ہوئے راستے،عام طریقے اور جاری وساری عمل کے ہیں۔
اصطلاحی معنی میں فرق
اصطلاح میں حدیث،جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر وتصویب کی روایت کو کہا جاتاہے،جبکہ لفظِ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے اُن مستقل بالذات احکام وہدایات کے لیے مستعمل ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی ہے۔ سنت کا لفظ قرآن مجید کے ساتھ دینِ اسلام کے دوسرے مستقل ماخذ (Source) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
استعمالاتِ زبان کے اعتبار سے فرق
حدیث اور سنت عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ لوگ اگر چہ بعض اوقات اِن دونوں لفظوں کو مترادف کے طور پر بھی استعمال کرلیتے ہیں،لیکن اِس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہیے کہ اِن دونوں کی حقیقت بھی ایک ہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عربیت کی رو سے ہر جگہ حدیث اور سنت کو مترادف کے طور پر استعمال کیا بھی نہیں جاسکتا۔ مندرجہ ذیل چند مثالوں سے قارئین اِس مقدمے کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں :
ا۔ 'النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ' کے بجائے ہم اگر کہیں: 'النِّکَاح مِنْ حَدِيْثِیْ' تو بالبداہت واضح ہے کہ استعمالاتِ زبان کے اعتبار سے اِس جملہ کو غلط قرار دینے میں کسی شخص کو تردد نہیں ہوسکتا۔ اِس مثال سے واضح ہے کہ حدیث اور سنت دو مختلف چیزیں ہیں۔ چنانچہ اِن الفاظ کو مترادف کے طور پر استعمال کرنا درست نہیں ہے۔
ب۔ اگر کہا جائے کہ ملاقات کے موقع پر'السَّلاَمُ عَلَيْکُمْ' کہنا اور اُس کا جواب دینا "سنت" ہے،تو ظاہر ہے کہ یہ بیان ہر پہلو سے درست ہے۔ لیکن ہم اگر کہیں کہ ایسا کرنا "حدیث" ہے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ زبان کی رو سے یہاں "حدیث" کے لفظ کا استعمال قطعاً درست نہیں ہے۔ یہ مثال بھی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر رہی ہے کہ حدیث اور سنت دو متفرق چیزیں ہیں۔
ج۔ اگر کوئی شخص کہے کہ لڑکوں کا ختنہ کرنا "حدیث" ہے تو اُس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ یہ "حدیث" نہیں،بلکہ "سنت" ہے۔ اِسے حدیث کے لفظ سے تعبیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اِس مثال سے بھی ہر شخص حدیث اور سنت کے فرق کو با آسانی سمجھ سکتا ہے۔
د۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ نماز کے قیام میں سورۂ فاتحہ کی قرأت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "حدیث" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اِس جملے کو بھی ہر لحاظ سے غلط ہی قرار دیا جائے گا۔ صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ آپ نے اِسے "سنت" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہ مثال بھی واضح کررہی ہے کہ حدیث کا مصداق اور ہے اورسنت کا کچھ اور۔
دینی حیثیت میں فرق
سنت کی حیثیت قرآن کے علاوہ اللہ تعالٰی کے آسمانی دین اور اُس کی مستقل بالذات شریعت کی ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک مستقل دینی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ حدیث میں دین کی حیثیت سے جو کچھ روایت ہوا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے قرآن وسنت کے مستقل بالذات احکام کی شرح و وضاحت اور اُن پر آپ کے عمل کے نمونے کا بیان ہے۔
ماخذ و مصدر کے اعتبار سے فرق
سنت کا ماخذ و مصدر محمد رسول اللہ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ سنت کو دین میں اُس کی حیثیت کے پیش نظر آپ نے بذاتِ خود پورے اہتمام،پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ متعین شکل میں اللہ کے دین کی حیثیت سے اپنے ماننے والوں میں باقاعدہ طور پر جاری فرمایاہے۔ آپ اِسی کے مکلّف تھے۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس کے بر عکس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی حفاظت،تبلیغ و اشاعت اورتدوین و کتابت کے لیے خود کبھی کوئی اہتمام نہیں فرمایا۔ حدیث کی روایت کا آغاز آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہوا ہے۔ اِس کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ صحابہؓ میں سے جس نے چاہا اپنے ذوق کے مطابق جو کچھ اُس کے علم وضبط میں تھا،اپنے حفظ و اتقان ہی کی بنیا د پر فطری جذبہ ابلاغ کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس روایت کو اُس کے طلبہ میں منتقل کیا اور ضرورت کے مواقع پر بیان فرمایا۔
ذریعۂ انتقال اور ثبوت کے لحاظ سے فرق
سنت کا ذریعۂ انتقال،جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے،اُمت کا اجماع اور تواتر عملی ہے۔ چنانچہ اِس کا ثبوت بھی قرآن ہی کی طرح بالکل قطعی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کا استناد علمِ یقین کے درجے میں ثابت ہے۔ لہذا اِس کے بارے کسی بحث اور اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ یہی و جہ ہے کہ سنت کے حوالے سے صحیح،حسن،ضعیف اور موضوع کی بحث بھی سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اخبارِ آحاد (یعنی چند لوگوں کی روایت) کے طریقے پر نقل ہوئی ہے۔ اور اخبارِ آحاد سے کسی چیز کا روایت ہونا جس طرح اُس کے ثبوت کو قطعیت کا درجہ نہیں دیتا،اِسی طرح اُس سے حاصل ہونے والا علم بھی کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا۔ چنانچہ معلوم ہے کہ حدیث کے ثبوت پر بحث و تحقیق ہوتی ہے اور اِس کے نتیجہ میں کوئی روایت صحیح،کوئی ضعیف اور کوئی موضوع بھی قرار پاتی ہے۔ کسی روایت کو قبول کیا جاتا ہے اور کوئی رد کردی جاتی ہے۔
نوعیتِ انتقال میں فرق
سنت کو اصلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے جاری فرمایا تھا،وہ ہو بہو ویسے ہی اپنی اصل شکل میں،بغیر کسی ادنٰی تغیر کے منتقل ہوئی اور آج بھی اُسی صورت میں اُمت کے پاس موجود ہے۔ جبکہ حدیث کے بارے میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس کی روایت میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اُسے باللفظ ہی روایت کیا جائے۔ بلکہ بالعموم وہ روایت بالمعنٰی ہی کے طریقے پر نقل ہوئی ہے۔ یعنی راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِس میں جو کچھ روایت کرتے ہیں؛اپنے فہم کے مطابق بالعموم اپنے ہی الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں۔
مشمولات کے اعتبار سے فرق
مشمولات (Contents) کے اعتبار سے دیکھا جائے تب بھی حدیث اورسنت کئی پہلووں سے دو متفرق حقیقتوں کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں:
ا۔ مشمولات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو سنت کے تمام اعمال اپنی نوعیت ہی کے لحاظ سے دین ہیں۔ وہ اعمال یا تو عبادات کی نوعیت کے ہیں،یا تطہیر بدن سے متعلق ہیں،یا خور و نوش کے تزکیہ کے لیے ہیں اور یا اُن کا تعلق تطہیر اخلاق سے ہے۔ جبکہ حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اُس کے مشمولات میں یہ چیز شرط نہیں ہے۔ ذخیرۂ حدیث کا ہم جب بالتفصیل مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں دینی نوعیت کے مضامین بھی ہیں۔ جیسے دین کی شرح و وضاحت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اُس پر عمل کے لیے آپ کے اُسوۂ حسنہ کا بیان۔ اِسی طرح اُس ذخیرے میں اِس کے علاوہ بھی بہت سے مشمولات ایسے ہیں جن کا اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہونا ضروری نہیں ہے۔ مثلاً قریش کے دورِ جاہلیت کے اعمال و تصورات کابیان؛ماضی کے اخبار؛مستقبل کی عمومی پیشن گوئیاں؛نبوت سے پہلے اور بعد از نبوت آپ کی سوانح حیات کی روایات اور لباس و خور و نوش میں آپ کی عادات اور اندازِ گفتار و رفتار کا بیان وغیرہ۔
ب۔ سنت عملی نوعیت کی چیز ہے۔ اُس کے تمام مشمولات انسان کی عملی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ اصلاً زبانی روایتوں کی نوعیت کی چیز تھی۔ پھر اُسے کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں محفوظ کیا گیا۔ اب اُس کا سارا ذخیرہ چند متعین کتابی مجموعوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اُس کے مشمولات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں عملی نوعیت کی چیزوں کے ساتھ ساتھ علم و عقیدہ اور ایمانیات سے متعلق مباحث بھی موجود ہیں،تاریخ کی چیزیں بھی ہیں،تفسیر اور شانِ نزول کی روایات بھی ہیں اور انبیا کی قوموں کے حالات اور اُن کے فکر و عمل سے متعلق روایات بھی موجود ہیں؛جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث اور سنت میں مشمولات کے لحاظ سے بھی فرق ہے۔
ج۔ حدیث اور سنت کے مشمولات میں اِس اعتبار سے بھی ایک واضح فرق ہے کہ سنت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے قرآن کی شرح و وضاحت قرار دیا جاسکے۔ جبکہ حدیث کے ذخیرہ میں قرآنی احکام کی شرح و وضاحت پر مبنی روایات بھی پائی جاتی ہیں،تفسیر کی نوعیت کی چیزیں بھی ہیں اور یہاں تک کہ خود سنت کا بیان اور اُس سے متعلق شرح و وضاحت پرمبنی روایات بھی اُس میں موجود ہیں۔ حدیث کا ذخیرہ گویا متفرق چیزوں کا مجموعہ ہے۔
د۔ سنت کے بارے میں یہ اُصول بھی بالکل متعین ہے کہ اُس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال بھی شامل نہیں ہیں جنہیں آپ نے شریعتِ سماوی کے حکم کے طور پر نہیں،بلکہ اپنے طور پر نفل کی حیثیت سے اختیار کیا ہے۔ آپ سے مروی اِس نوعیت کے تمام اعمال کا بیان اگر کہیں پایا جاتا ہے تو حدیث ہی میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ واضح ہوا کہ حدیث اورسنت دونوں کے مشمولات میں اِس پہلو سے بھی ایک واضح فرق ہے۔
ھ۔ سنت کے مشمولات میں ایسی چیزیں بھی نہیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محض فطرت کے بیان اور اُس کی رہنمائی کے طور پر صادر ہوئی ہوں۔ آپ سے منسوب اِس نوعیت کی تمام چیزیں بھی یہ واقعہ ہے کہ اگر کہیں پائی جاتی ہیں تو حدیث ہی میں پائی جاتی ہیں۔ جیسے پالتو گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت اور اعلٰی اخلاق اپنانے کی تاکید و تلقین وغیرہ۔ چنانچہ اِس سے بھی واضح ہوا کہ حدیث اور سنت دونوں کے مشمولات مختلف ہیں۔
و۔ سنت کا معاملہ یہ ہے کہ اُس میں ایسی کوئی چیز بھی نہیں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اُن کے پوچھنے پر بتائی ہو یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے اُنہیں بتائی تو ہو لیکن اُس رہنمائی کی نوعیت ہی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کردیتی ہو کہ اُسے اللہ کی ہدایت کے طور پر مقرر کرنا آپ کے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونے والی اِس نوعیت کی تمام ہدایات بھی اگر کوئی دیکھنا چاہے تو حدیث ہی کے ذخیرے میں دیکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے آپ نے اپنی ایک دعاے استفتاح سیدنا ابو ہریرہ کے پوچھنے پر اُنہیں بتائی اور قعدے کی دعا میں جب بعض لوگوں کی غلطی آپ کے سامنے آئی تو آپ نے اُن کی غلطی کی اصلاح فرما کر اُن کی رہنمائی فرمائی (مسلم، رقم ١٣٥٤ ،٨٩٧
ز۔ تمام سنن کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اُن میں باہم کسی قسم کا کوئی تعارض اور تضاد نہیں پایا جاتا۔جبکہ ذخیرۂ حدیث کے بارے میں اُس کا ہر طالب علم اِس حقیقت سے واقف ہے کہ اُس میں بے شمار ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں باہم دگر تعارض اور تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی کوئی چیز کھالینا و ضو کو توڑ دینے و الی چیزوں میں سے ہے (مسلم،رقم٧٨٨،٧٨٩)۔ جبکہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے (مسلم،ر قم ٠٧٩، ٧٩١
ح۔ اعمالِ سنن میں کسی ایسی چیز کی نشاند ہی نہیں کی جاسکتی جو قرآن سے متصادم ہو،جبکہ حدیث کے ذخیرہ میں ایسی بہت سی روایات دکھائی جاسکتی ہیں جو قرآن سے متعارض و متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بات بیان فرمائی کہ:'' یقیناً مُردے کو اُس کے گھر والوں کے رونے کی و جہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ نے سنا تو قرآنِ مجید کی بنیاد پر اِس روایت کی تردید کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا:اللہ تعالٰی عمر پر رحم فرمائے۔ بخدا رسول اللہ نے ایسا نہیں فرمایا ہوگا کہ اللہ تعالٰی مومن کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ( اِس معاملہ میں فیصلہ کن چیز کی حیثیت سے) تمہارے لیے قرآن کی یہ آیت ہی کافی ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔ (مسلم،رقم ٢١٥٠)

Friday, September 26, 2014

اقبال کی اسلام سے والہانہ عقیدت​ Iqbal and Islam


سب جانتے ہیں کہ اقبال نے وہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ، یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصا فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفہ تک کرچکے ہیں۔
 
 مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ جو کچھ سوچتا تھا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا۔ جوکچھ دیکھتا تھا، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے، اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امامِ فلسفہ اور اس ایم، اے، پی ایچ ڈی بار ایٹ لاء سے لگا کھاتا ہو۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کردیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجہ میں پہنچے تھے ، وہ یہ تھا کہ اصلی علم قرآن ہے، اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماری کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلواکر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے ساتھ ان کی عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی عقلیت کو رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ایک متاعِ حقیر کی طرح نذر کرکے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سُن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ “رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابِ ثلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی (ص) ایک صدیق (رض) اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا۔“ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آکر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں۔ مجازی طور پر نہیں بلکہ واقعی لرز اٹھتے ہیں۔

اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں اس کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے۔ اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برمالا ان کی حمایت کرتا تھا، اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ اس کی ایک معمولی مثال سن لیجئے۔ ایک مرتبہ حکومتِ ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لیکر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں بے شک ایک گنہگار آدمی ہوں، احکام اسلام کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں۔ مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کرسکتا کہ محض آپ کا ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کے ایک حکم کو توڑدوں۔

قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے مگر آخیر زمانہ میں طبیعت کی رقت کا یہ ھال ہوگیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔

ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئے۔ ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور“سر صاحبان“ ہوتے ہیں، ویسے ہی وہ بھی ہوں گے، اور اسی بنا پر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلا تحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہِ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجئے، جس سے اس بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کرسکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کیلئے اقبال اور سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کیلئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پاکر معا ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں انہوں نے بورئیے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ اٹھے اور برابر غسل خانے میں جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کردیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اس غسل خانہ میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانہ ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے، جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہے؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔ 

(سید ابوالاعلیٰ مودودی)

Thursday, August 28, 2014

پیغمبری دعائیں



اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ
یعنی اے بندو ! تم لوگ مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔

اور حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی دعاؤں کی اہمیت اور ان کے فوائد کا ذکر فرماتے ہوئے اپنی امت کو دعائیں مانگنے کی ترغیب دلائی اور فرمایا کہ

لَيْسَ شَيْيٌ اَکْرَمَ عَلَي اللّٰهِ مِنَ الدُّعَآءِ

یعنی اﷲ تعالیٰ کے دربار میں دعا سے بڑھ کر عزت والی کوئی چیز نہیں ہے۔ ..... ترمذی باب فضل الدعاء ص۱۷۳ جلد۲  

اور دعاؤں کی فضیلت و اہمیت کا اظہار فرماتے ہوئے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ

اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ

یعنی دعا عبادت کا مغز ہے .... ترمذی جلد۲ ص۱۷۲

اور یہ بھی فرمایا

مَنْ لَّمْ يَسْئَلِ اللّٰهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ

جو خدا سے دعا نہیں مانگتا خدا عزوجل اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔..... ترمذی جلد۲ ص۱۷۲ ابواب الدعوات

اس لئے طب نبوی کی طرح حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان چند دعاؤں کا تذکرہ بھی ہم اس کتاب میں تحریر کرتے ہیں جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معمولات میں رہی ہیں اور جن کے فضائل و فوائد سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آگاہ فرما کر ان کے ورد کا حکم فرمایا ہے تا کہ سیرت نبویہ کے اس مقدس باب سے بھی یہ کتاب مشرف ہو جائے اور مسلمان ان دعاؤں کا ورد کر کے دنیا و آخرت کے بے شمار منافع و فوائد سے مالا مال ہوتے رہیں۔


ہر بلا سے نجات:۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح و شام کو تین مرتبہ یہ دعا پڑھے تو اس کو دنیا کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ ...... ترمذی جلد۲ ص۱۷۳ باب ما جاء في الدعاء اذا صبح و اذا مسي

بِسْمِ اللّٰهِ الَّذِيْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِهٖ شَيْئٌ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِي السَّمَآءِ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ


سوتے وقت کی دعائیں:۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بچھونے پر یہ دعا تین مرتبہ پڑھ کر سوئے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ اس کے گناہ درختوں کے پتوں اور ٹیلوں کی ریت کی تعداد میں ہوں۔...... ترمذی جلد۲ ص۱۷۴

اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الْعَظِيْمَ الَّذِيْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَيْهِ

حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سوتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے

اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوْتُ وَ اَحْييٰ

اور جب نیند سے بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ اَحْييٰ نَفْسِيْ بَعْدَ مَا اَمَاتَهَا وَ اِلَيْهِ النُّشُوْرُ ...... ترمذی جلد۲ ص۱۷۷



رات میں جاگے تو کیا پڑھے:۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص رات میں نیند سے بیدار ہو تو یہ دعا پڑھے پھر اس کے بعد جو دعا مانگے گا وہ قبول ہوگی اور وضو کرکے جو نماز پڑھے گا وہ نماز بھی مقبول ہو جائے گی ۔..... ترمذی جلد۲ ص۱۷۷

لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ وَّ سُبْحَانَ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اللّٰهُ اَکْبَرُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ


گھر سے نکلتے وقت کی دعاء:۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے باہر نکلتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو اس کی مشکلات دور ہو جائیں گی اور وہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہے گا اور شیطان اس سے الگ ہٹ جائے گا۔....... ترمذی جلد۲ ص۱۸۰)

بِسْمِ اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللّٰهِ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ


بازار میں داخل ہو تو یہ پڑھے:۔

ارشادِ نبوی ہے کہ جو شخص بازار میں داخل ہوتے وقت ان کلمات کو پڑھ لے تو خداوند تعالیٰ دس لاکھ نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھنے کا حکم فرمائے گا اور اس کے دس لاکھ گناہوں کو مٹا دے گا اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرمائے گا۔.... ترمذی جلد۲ ص۱۸۰

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ يُحْيِيْ وَ يُمِيْتُ وَ هُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَ هُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ


دعاء سفر:۔

حضرت عبداﷲ بن سرجس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سفر کے لئے روانہ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔.... ترمذی جلد۲ ص۱۸۱

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَ الْخَلِيْفَةُ فِي الْاَهْلِ اَللّٰهُمَّ اصْحَبْنَا فِيْ سَفَرِنَا وَ اخْلُفْنَا فِيْ اَهْلِنَا اَللّٰهُمَّ اِنِّيْٓ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ وَعْثَآءِ السَّفَرِ وَکَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ اْلکَوْرِ


سفر سے آنے کی دعاء:۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹ کر اپنے کاشانۂ نبوت پر مدینہ تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے۔... ترمذی جلد۲ ص۱۸۲

اٰئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ


منزل پر اس دعاء کا ورد کرے:۔

رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص سفر میں کسی جگہ پڑاؤ کرے اور یہ دعا پڑھ لے تو اس کو اس جگہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔ .... ترمذی جلد۲ ص۱۸۱

اَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ


بے چینی کے وقت کی دعاء:۔

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب کوئی بے چینی اور پریشانی لاحق ہوا کرتی تھی تو اس وقت آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس دعا کا ورد فرماتے تھے۔.... ترمذی جلد۲ ص۱۸۱

لَآ اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ الْحَلِيْمُ الْحَكِيْمُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ


کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ پڑھے:۔

حضور سرورِ دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی بلا میں مبتلا ہونے والے کو دیکھے (بیمار یا مصیبت زدہ کو) تو یہ دعا پڑھ لے تو تمام عمر وہ اس بلا (بیماری یا مصیبت) سے بچا رہے گا۔.... ترمذی جلد۲ ص۱۸۱

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ عَافَانِيْ مِمَّا ابْتَلاَكَ بِهٖ وَ فَضَّلَنِيْ عَلٰي کَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيْلًا


کسی کو رخصت کرنے کی دعاء:۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب کسی انسان کو رخصت فرماتے تھے تو یہ کلمات زبانِ مبارک سے ارشاد فرماتے تھے کہ

اَسْتَوْدِعُ اللّٰهَ دِيْنَكَ وَ اَمَانَتَكَ وَ خَوَاتِيْمَ عَمَلِكَ ..... ترمذی جلد۲ ص۱۸۲


کھانا کھا کر کیا پڑھے:۔

حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے سے جب دستر خوان اٹھایا جاتا تھا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے۔..... ترمذی جلد۲ ص۱۸۳

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ حَمْدًا کَثِيْرًا طَيِّبًا مُّبَارَكاً فِيْهِ غَيْرَ مُوَدَّعٍ وَّ لَا مُسْتَغْنًي عَنْهُ رَبَّنَا


آندھی کے وقت کی دعاء:۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب آندھی چلتی تو یہ دعا پڑھتے تھے۔.... ترمذی جلد۲ ص۱۸۳

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْئَلُكَ مِنْ خَيْرِهَا وَ خَيْرِ مَا فِيْهَا وَ خَيْرِ مَا اُرْسِلَتْ بِهٖ وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَ شَرِّ مَا فِيْهَا وَ شَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِهٖ


بجلی گرجنے کی دعاء:۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔..... ترمذی جلد۲ ص۱۸۳

اَللّٰهُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَ لَا تُهْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَ عَافِنَا قَبْلَ ذٰلِكَ


کسی قوم سے ڈرے تو کیا پڑھے:۔

حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی قوم یا کسی لشکر سے جان و مال وغیرہ کا خوف ہو تو یہ دعا پڑھے۔...... ابو داؤد جلد۱ ص۲۲۲ مجتبائی

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَ نَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ


قرض ادا ہونے کی دعاء:۔

مشہور صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں تشریف لے گئے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے وہاں حضرت ابو امامہ انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دیکھا آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو امامہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم اس وقت میں جب کہ نماز کا وقت نہیں ہے مسجد میں کیوں اور کیسے بیٹھے ہوئے ہو، حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں بہت سے افکار اور قرضوں کے بار سے زیر بار ہو رہا ہوں۔ ارشاد فرمایا کہ کیا میں تم کو ایک ایسا کلام نہ تعلیم کروں کہ جب تم اس کو پڑھو تو اﷲ تعالیٰ تمہاری فکر کو دفع فرما دے اور تمہارے قرض کو ادا کر دے ؟ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ! یا رسول اﷲ ! (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) ضرور مجھے ارشاد فرمائیے۔ تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم روزانہ صبح و شام کو یہ دعا پڑھ لیا کرو۔..... ابو داود جلد۱ ص۲۲۴

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْهَمِّ وَ الْحُزْنِ وَ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَ الْكَسْلِ وَ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَ الْبُخْلِ وَ اَعُوْذُبِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَ قَهْرِ الرِّجَالِ

حضرت ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس دعا کو پڑھا تو میری فکر جاتی رہی اور خداوند تعالیٰ نے میرے قرض کو بھی ادا فرما دیا۔


جمعہ کے دن بکثرت درود شریف پڑھو:۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔ لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تم لوگوں کا درود شریف میرے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) جب قبر شریف میں آپ کاجسم مبارک بکھر کر پرانی ہڈیوں کی صورت میں ہوجائے گا تو ہم لوگوں کا درود شریف کیسے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دربار میں پیش ہوا کرے گا ؟ تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَي الْاَرْضِ اَجْسَادَ الْاَنْبِيَآءِ

یعنی اﷲ تعالیٰ نے حضرات انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرما دیا ہے۔.... ابو داؤد جلد۱ ص ۲۲۱ مجتبائی


ضروری تنبیہ:۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات انبیاء علیہم السلام کے مقدس اجسام انکی مبارک قبروں میں سلامت رہتے ہیں اور زمین پر حضرت حق جل جلالہ نے حرام فرما دیا ہے کہ ان کے مقدس جسموں پر کسی قسم کا تغیر و تبدل پیدا کرے۔ جب تمام انبیاء علیہم السلام کی یہ شان ہے تو پھر بھلا حضور سید الانبیاء و سید المرسلین اور امام الانبیاء و خاتم النبییّن صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس جسم انور کو زمین کیونکر کھا سکتی ہے ؟ اس لئے تمام علماء امت و اولیاء امت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں زندہ ہیں اور خداعزوجل کے حکم سے بڑے بڑے تصرفات فرماتے رہتے ہیں اور اپنی خداداد پیغمبرانہ قوتوں اور معجزانہ طاقتوں سے اپنی امت کی مشکل کشائی اور ان کی فریاد رسی فرماتے رہتے ہیں۔


مرغ کی آواز سن کر دعاء:۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جب تم لوگ مرغ کی آواز سنو تو اﷲ تعالیٰ سے اسکے فضل کا سوال کرو کیونکہ مرغ فرشتہ کو دیکھ کر بولتا ہے۔ یعنی یہ دعا پڑھو

اَسْئَلُ اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهِ الْعَظِيْمِ ..... مسلم جلد۲ ص۳۵۱


گدھا بولے تو کیا پڑھے:۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ گدھے کی آواز سن کر شیطان سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ یعنی اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْم ِ .... مسلم جلد۲ ص۳۵۱


جنت کا خزانہ:۔

حضرت عبداﷲ بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مجھ سے حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تیری رہنمائی ایسے کلمہ پر نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے ؟

میں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) وہ کون سا کلمہ ہے ؟

تو ارشاد فرمایا کہ وہ کلمہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ہے


بہشت کا ٹکٹ:۔

حضورِ انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس دعا کو پڑھتا رہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ وہ دعا یہ ہے :

رَضِيْتُ بِاللّٰهِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِيْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ تَعَالٰي عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُسُوْلًا...... ابو داؤد جلد۱ ص۲۲۱ مجتبائی


سید الاستغفار:۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان یقین قلب کے ساتھ دن میں اس دعا کو پڑھ لے گا اگر اس دن شام سے پہلے مرے گا تو جنتی ہوگا۔ اور اگر رات میں پڑھ لے گا اور صبح سے پہلے مرے گا تو جنتی ہوگا اس دعا کا نام سید الاستغفار ہے جو یہ ہے

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّيْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِيْ وَ اَنَا عَبْدُكَ وَ اَنَا عَلٰي عَهْدِكَ وَ وَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَ اَبُوْءُ بِذَنْبِيْ فَاغْفِرْلِيْ فَاِنَّهٗ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ .... بخاری جلد۲ ص۹۳۳


جماع کی دعاء:۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی سے صحبت کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے تو اس صحبت سے جو اولاد پیدا ہو گی اس کو کبھی ہرگز شیطان کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ دعا یہ ہے

بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ..... بخاری جلد۲ ص۹۴۵


شفاء امراض کے لئے:۔

روایت ہے کہ عبدالعزیز بن صہیب اور ثابت بنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ثابت بنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ اے ابو حمزہ ! (انس) میں بیمار ہو گیا ہوں۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں اس دعا سے تمہارے مرض کا جھاڑ پھونک نہ کر دوں جس دعا سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مریضوں پر شفا کے لئے دم فرمایا کرتے تھے ؟ ثابت بنانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے کہا کہ کیوں نہیں۔ اس کے بعد حضرت اَنس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا پڑھی کہ

اَللّٰهُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْهِبَ الْبَاْسِ اِشْفِ اَنْتَ الشَّافِيْ لَا شَافِيَ اِلَّا اَنْتَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا .... بخاری جلد۲ ص۸۵۵ باب رقیة النبی صلي الله تعالیٰ علیه وسلم


مصیبت پر نعم البدل ملنے کی دعاء:۔

حضرت اُم المؤمنین بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ سنا تھا کہ کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ

اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰهُمَّ اَجِرْنِيْ فِيْ مُصِيْبَتِيْ وَ اخْلُفْ لِيْ خَيْرًا مِّنْهَا

پڑھ لے تو اﷲ تعالیٰ اس مسلمان کو اس کی ضائع شدہ چیز سے بہتر چیز عطا فرمائے گا۔


حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میرے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا تو میں نے (دل میں) کہا کہ بھلا ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بہتر کون مسلمان ہوگا ؟ یہ پہلا گھر ہے جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچا لیکن پھر میں نے اس دعا کو پڑھ لیا تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بہتر شوہر عطا فرمایا کہ رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرما لیا۔.... مسلم جلد۱ ص۳۰۰ کتاب الجنائز