Friday, October 14, 2016

اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں

بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔

آيۃ  الکرسی
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ(البقرۃ ۲۵۵)
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہے (جس کو کبھی موت نہیں آسکتی) (ساری کائنات کو) سنبھالنے والاہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اس کی ملکیت میں زمین وآسمان کی تمام چیزیں ہیں، کون شخص ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے سامنے شفاعت کرسکے، وہ جانتا ہے ان (کائنات) کے تمام حاضر وغائب حالات کو ، وہ (کائنات) اُس کی منشا کے بغیرکسی چیز کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے، اُس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ کو ان (زمین وآسمان) کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی، وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔
یہ سورۂ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے جو بڑی عظمت والی آیت ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور بعض اہم صفات کا ذکر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا بھی ذکر آیا ہے جس کی وجہ سے اس آیت کو آیت الکرسی کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں وارد ہیں لیکن اختصار کے مدنظر یہاں صرف چند اہم فضیلتیں ذکر کررہا ہوں جن کے صحیح ہونے پر جمہور علماء امت متفق ہیں۔
سب سے زیادہ عظمت والی آیت:
حضرت ابی بن کعبؓ سے رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے؟ حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب میں فرمایا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ ﷺ نے دوبارہ یہی سوال کیا۔ بار بار سوال کرنے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے فرمایا: آیت الکرسی۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابی بن کعبؓ کے سینے پر ہاتھ مارکر فرمایا: ابو المنذر! اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔ (مسلم، باب فضل سورۃ الکهف وآيۃ الکرسی،ح۸۱۰) مسند احمد میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اِس (آیت الکرسی) کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی۔ (مسند احمد ۵/۱۴۱۔۱۴۲)

حضرت ابو ذر غفاریؓ کے سوال پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ عظمت والی آیت‘ آیت الکرسی
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُالخ .ہے۔ (مسند احمد ۵/۱۷۸، نسائی ح ۵۵۰۹)
دخول جنت کا سبب:
حضرت ابو امامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے‘ اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے۔ (ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور امام نسائی نے عمل الیوم واللیلہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے، اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے)
شیاطین وجنات سے حفاظت:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں رمضان میں وصول کی گئی زکاۃ کے مال پر پہرا دے رہا تھا، ایک آنے والا آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس کو ایسا کرنے سے بار بار منع فرمایا۔ اس آنے والے نے کہا کہ مجھے یہ کرنے دو، میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ اگر تو رات کو بستر میں جاکر ان کو پڑھ لے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا اور وہ آیت الکرسی ہے۔ جب حضرت ابوہریرہؓ نے حضور اکرم ﷺ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ﷺنے فرمایاکہ اس نے سچ کہا مگر وہ خود جھوٹا ہے اور وہ شیطان ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوکالة، باب اذا وکل رجلا فترک الوکيل شيئا،،، ح ۲۳۱۱، ۳۲۷۵، ۵۰۱۰)
حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ کھجوریں تھیں جو روزانہ گھٹ رہی تھیں، ایک رات میں نے پہرا دیا۔ میں نے دیکھاکہ ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا،میں نے اس کو سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو انسان ہے یا جن؟ اس نے کہا میں جن ہوں۔ میں نے کہا کہ ذرا اپنا ہاتھ دو۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھادیا ۔ میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے بال بھی تھے۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیوں آئے ہو؟ اس نے کہا کہ تم صدقہ کو پسند کرتے ہو اور میں تمہارے مال کو لینے آیا ہوں تاکہ تم صدقہ نہ کرسکو۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے شر سے بچنے کی کوئی تدبیر ہے؟ اس نے کہا: آیت الکرسی ، جو شخص شام کو پڑھ لے وہ صبح تک اور جو صبح کو پڑھ لے وہ شام تک محفوظ ہوجاتا ہے۔ صبح ہونے پر حضرت ابی بن کعبؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خبیث نے یہ بات بالکل سچی کہی ہے۔ (نسائی، طبرانی۔۔ الترغیب والترہیب ۶۶۲)

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا بھی احادیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ غرض آیت الکرسی کے ذریعہ جنات وشیاطین سے حفاظت کے متعدد واقعات صحابہ کے درمیان پیش آئے۔ (تفسیر ابن کثیر)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص سورۂ المؤمن کو حٰمٓسے الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا‘ وہ شام تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی سورہ البقرہ وآیہ الکرسی ج ۲۸۷۹)
آیت الکرسی اسم اعظم پر مشتمل:
حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اِن دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ایک تو آیت الکرسی اور دوسری آیت  الم اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ(مسند احمد۶/۴۶۱، ابوداؤد، کتاب الوتر، باب الدعاء ح ۱۴۹۶، ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی ایجاب الدعاء بتقدیم الحمد ح ۳۴۷۸، ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب اسم اللہ الاعظم ج ۳۸۵۵)
حضرت ابوامامہ الباہلیؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے، وہ تین سورتوں میں ہے سورۂ البقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ طہ۔ (ابن ماجہ، کتاب الدعا،، باب اسم اللہ الاعظم ح ۳۸۵۵)
وضاحت: سورۂ البقرہ میں آیت نمبر ۲۵۵، سورۂ آل عمران میں آیت نمبر ۲ اور سورۂ طہ میں آیت نمبر ۱۱۱ہے۔
آیت الکرسی چوتھائی قرآن:
حضور اکرم ﷺ نے آیت الکرسی کو چوتھائی قرآن کہا ہے۔ (مسند احمد ۳/۲۲۱، ترمذی کتاب فضائل القرآن،باب ما جاء فی اذا زلزلت، ح ۲۸۹۵)
مفہوم آيت الکرسی: اس توحید کی اہم آیت میں ۱۰ جملے ہیں:
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ: یہی وہ پیغام ہے جس کی دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا اور وہی اس پوری دنیا کے نظام کو تنہے تنہا چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اس نے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے انبیاء ورسل بھیجے۔ آخر میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت للعالمین بناکر بھیجا۔
اَلْحَیُّ الْقَيُّوْمُ: لفظ حَیُّ کے معنی ہیں زندہ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور وہ موت سے بالا تر ہے۔ کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ اِلَّا وَجَْهه،،، کُلُّ مَنْ عَلَيهافَانٍ، وَيَبْقٰی وَجه رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاکْرَامِ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ قَیُّوْمُ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کے قیام وبقا کا واسطہ اور ذریعہ ہو۔ 
نوٹ: قیوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی، کیونکہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقا میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں۔ اس لئے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز نہیں ہے۔ لہذا عبدالقیوم نامی شخص کو صرف قیوم کہہ کر پکارنا غلط ہے۔ 
لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ: سِنَۃٌکے معنی اونگھ اور نَوْمٌ کے معنی نیند کے ہیں۔ ان دونوں کی نفی سے نیند کی ابتدا اور انتہا دونوں کی نفی ہوگئی یعنی اللہ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے کمال درجہ پاک ہے۔
لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ: تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مملوک ہیں، وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف کرے۔
مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ: جب یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا مالک ہے ، کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں ہے تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں بازپرس کرنے کابھی حق دار نہیں ہے ، وہ جو حکم جاری فرمائے اس میں کسی کو چون وچرا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے کسی کی سفارش یا شفاعت کرے، سو اس کو بھی واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے نیک ومقبول بندے بھی کسی کے لئے شفاعت نہیں کرسکتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروں گا،یہ حضور اکرم ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی کا نام مقام محمود ہے، جس کا ذکر سورۂ الاسراء ۷۹ میں آیا ہے عَسَی اَنْ يَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوداً ۔ نبی اکرم ﷺ کی عام امتیوں کی شفاعت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو بھی تین شرطیں پائی جانے پر دوسروں کے لئے شفاعت کرنے کی اجازت ہوگی۔

۱) جسکے لئے شفاعت کی جارہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا يَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَهُمْ مِّنْ خَشْيَته مُشْفِقُوْنَ (سورۂ الانبیاء ۲۸) وہ کسی کی بھی شفاعت نہیں کرتے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو اور وہ اسکی ہیبت سے ڈرتے ہیں۔
۲) شفاعت کرنے والے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَن يَّاْذَنَ اللّهُ لِمَن يَّشَاءُ وَيَرْضَی(سورۂ النجم ۲۶)
۳) اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے والے کو شفاعت کی اجازت دے۔ سورہ النجم کی آیت میں اَن يَّاْذَنَ اللّه اور آیت الکرسی میں اِلَّا بِاِذْنه سے یہ شرط واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح سورۂ یونس آیت ۳ میں ہے : مَا مِنْ شَفِيْعٍ الَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنه اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ: اللہ تعالیٰ لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات وواقعات سے واقف ہے۔ آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات وواقعات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات وحالات ہوں تو معنی یہ ہوں گے انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض چیزوں پر نہیں، کچھ چیزیں اس کے سامنے کھلی ہوئی ہیں اور کچھ چھپی ہوئی ، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں، اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے ۔
وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ: انسان اور تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے، مگر اللہ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصہ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے۔ اس آیت میں بتلادیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی صفت ہے، انسان یا کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔
وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ: یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ جس کی وسعت کے اندرساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نشست وبرخاست اور حیزومکان سے بالا تر ہے، اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے، اس کی کیفیت وحقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ البتہ صحیح احادیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں۔ علامہ ابن کثیر ؒ نے بروایت حضرت ابو ذر غفاریؓ نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ڈال دیا جائے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ عرش کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہے کہ جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ (چھلّہ) ۔
کرسی سے مراد حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے علم منقول ہے، بعض حضرات سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک حدیث میں یہ بھی مروی ہے کہ اس کا اندازہ بجز باری تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔ ابو مالکؒ فرماتے ہیں کہ کرسی عرش کے نیچے ہے۔ سدیؒ کہتے ہیں کہ آسمان وزمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلادئے جائیں تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ (چھلّہ) کسی چٹیل میدان میں۔ ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں۔ (تفسیر بن کثیر) بعض مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے معنی ہیں کہ اللہ کا اقتدار آسمانوں اور زمین کے تمام اطراف واکناف پر حاوی ہے، کوئی گوشہ اور کونہ بھی اس کے دائرہ اقتدار سے الگ نہیں ہے۔
وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا:اللہ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات یعنی آسمان وزمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔ ےَءُودکے معنی ہیں کسی چیز کا ایسا بھاری اور گراں ہونا کہ اس کا سنبھالنا مشکل ہوجائے۔
وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ: گزشتہ نو جملوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان کئے گئے، ان کو سمجھنے کے بعد ہر عقل مند شخص یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت وعظمت اور بلندی وبرتری کا مستحق وہی پاک ذات ہے۔
ان دس جملوں میں اللہ جل شانہ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم سمجھ کر پڑھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو شرک کی تمام شکلوں سے محفوظ فرمائے، آمین، ثم آمین۔

Saturday, September 24, 2016

اسلامی زندگی کے گزارنے کے رہنما اصول

مومن درحقیقت وہ شخص ہے جو دل سے اﷲ تعالی کی وحدانیت، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے تمام عقائد واحکام پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہو۔ اور اس کو اس بات کا پختہ یقین ہو کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے انسانوں کو جو احکام دیئے ہیں وہی ان کی دین و دنیا کی فلاح کے ضامن ہیں۔ اس ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق گزارے، جن باتوں کا اس کو حکم دیا گیا ہے ان کو بجا لائے اور جن سے روکا گیا ہے ان سے رک جائے۔
لہذا ایک مومن کی بنیادی صفت یہ ہے کہ اس کی زندگی اﷲ تعالی کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ وہ اپنے ہر کام اور نقل وحرکت میں پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اﷲ تعالی کی طرف سے اس کو اجازت ہے یا نہیں۔ اجازت ہوتی ہے تو کرتا ہے ورنہ رک جاتا ہے۔ چنانچہ اس کو زندگی میں اپنی نفسانی خواہشات کے بہاؤ پر بہنے کے بجائے اﷲ تعالی کی مرضی کے مطابق بسر ہوتی ہے۔
مومن کی یہ وہ بنیادی اور جامع صفت ہے کہ اس کے نتیجے میں تمام نیک اور اچھی صفات اس میں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اﷲ تعالی نے جتنے احکام اپنے بندوں کو عطا فرمائے ہیں ان سب کا مقصد یہ ہے کہ انسان اچھی صفات سے آراستہ اور بری صفات سے پاک ہوجائے اور جو شخص ایک مرتبہ یہ عہد کرے کہ وہ اﷲ تعالی کے تمام احکام کی پابندی کرے گا تو لازما وہ ساری اچھی صفات اس میں پیدا ہوجائیں گی۔
مومن کی یہ صفات جو اطاعت خداوندی سے پیدا ہوتی ہیں اتنی بے شمار ہیں کہ مختصر وقت میں ان سب کا بیان ممکن نہیں۔ لیکن اگر اختصار اور جامعیت سے کام لیا جائے تو مومن کی صفات خاص طور سے زندگی کے پانچ شعبوں سے متعلق ہوتی ہیں:
عقائد۔ عبادات۔ معاملات۔ معاشرت۔ اور اخلاق۔
عقائد کے شعبے میں مومن کی بنیادی صفت قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔
’’اور یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ان ہدایات پر جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں اور ان ہدایات پر جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبروں پر نازل کی گئیں اور وہ آخرت کا یقین رکھتے ہیں۔‘‘
مومن کی اس صفت کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے جتنے عقائد اور جتنی ہدایات دنیا میں بھیجی ہیں ان سب کو برحق ماننے کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا پختہ یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد اسے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہوگا۔
اس یقین کی بناء پر وہ رات کی تاریکی اور جنگل کی تنہائی میں بھی حتی الامکان کسی ایسے کام کا مرتکب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کو آخرت میں پروردگار کے سامنے شرمسار ہونا پڑے۔
عبادت کے شعبے میں مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف اﷲ کا بندہ سمجھتا ہے، اﷲ کے سوا کسی کو پوجتا ہے نہ کسی کے آگے جھکتا ہے، نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ اس کے سوا کسی کی قدرت اور اختیار سے کسی مدد کا طلب گار ہوتا ہے اور اﷲ تعالی نے عبادت کے جتنے طریقے مقرر فرمادیئے ہیں ان سب کو پورے اخلاص عاجزی اور احساس بندگی کے ساتھ بجالاتا ہے۔ 
چنانچہ ارشاد ہے:
’’فلاح وہ مومن حاصل کریں گے جو اپنی نماز میں خشوع سے کام لیتے ہیں۔‘‘
اور آگے ارشاد ہے:
’’اور جو لوگ رب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے اور جو لوگ کہ (اﷲ کی راہ) میں جو کچھ دیتے ہیں اس طرح دیتے ہیں کہ (مال خرچ کرنے کے باوجود) ان کے دل اس بات سے ڈرے ہوئے رہتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کرجانا ہے اور یہ لوگ دوڑ دوڑ کر نیکیوں کی طرف جاتے ہیں اور ان نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔‘‘
مطلب یہ کہ اﷲ تعالی کی بدنی عبادت کا معاملہ ہو یا اس کی راہ میں مال خرچ کرکے مالی عبادت کا سوال ہو مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور معاملات کے شعبے میں مومن کی صفت ہے کہ وہ اپنی بات کا سچا اور وعدے کا پکا ہوتا ہے وہ کسی سے دھوکہ، فریب، بدعہدی کا معاملہ نہیں کرتا اور بے جا طریقے سے دوسرے کا حق غصب کرنے کی فکر میں نہیں رہتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’اور وہ مومن فلاح یافتہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا پاس کرنے والے ہیں۔‘‘
لفظ ’’امانت‘‘ کے لغوی معنی ہر اس چیز کو شامل ہیں جس کی ذمہ داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس کے معاملے میں اس پر بھروسہ کیا گیا ہو اور چونکہ ایسی امانت کی بہت سی قسمیں ہیں اس لئے قرآن کریم نے اس کے لئے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے تاکہ اس میں امانت کی تمام قسمیں شامل ہوجائیں اس میں مالی امانت تو ظاہر ہی ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنا کوئی مال کسی کے پاس رکھوایا ہو تو یہ اس کی امانت ہے جسے واپس کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
اس کے علاوہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی سے کی ہو تو یہ بھی اس کی امانت ہے۔ اور شرعی عذر کے بغیر اس راز کا کسی پر ظاہر کرنا اس امانت میں خیانت ہے۔
اس طرح کسی ملازم کو جتنے وقت کے لئے ملازم رکھا اس پورے وقت کو ملازمت کے کام میں لگانا بھی امانت ہے۔ اور وقت کی چوری یا کام کی چوری خیانت کے حکم میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امانت کا پاس کرنا بڑا جامع لفظ ہے جس میں معاملات کی بے شمار قسمیں داخل ہوجاتی ہیں اور مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ ان تمام امانتوں کا پاس کرتا ہے۔
اسی طرح وعدے اور معاہدے کا پاس کرنے میں بھی معاملات کی بہت سی صورتیں داخل ہوجاتی ہیں۔ اشیائے فروخت میں ملاوٹ یا ان کے عیب کو چھپانا یا کم ناپ تول کا ارتکاب یہ تمام جرائم عہد شکنی میں داخل ہیں۔ اور مومن کی صفت یہ ہے کہ اسے اپنے معاہدے کا پاس ہوتا ہے وہ جیسا معاہدہ کرتا ہے اس کے مطابق عمل بھی کرتا ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ اگر بدعہدی کے نتیجہ میں اس نے کچھ تھوڑا بہت ظاہری نفع کما بھی لیا تو دنیا وآخرت دونوں میں اس کا انجام بڑا ہی ہولناک ہوگا۔ معاملات کی صفائی، امانت داری اور معاہدے کی پابندی مومن کا وہ طرہ امتیاز رہا ہے جسے دیکھ کر ماضی میں بہت سے کافر مسلمان ہوئے۔
عبادت میں اگر تھوڑی بہت کوتاہی ہوجائے تو اس کی تلافی توبہ سے ہوسکتی ہے، لیکن بدمعاملگی اور حقوق العباد کو تلف کرنے کی تلافی صرف توبہ سے بھی ممکن نہیں جب تک کہ صاحب حق کو اس کا حق نہ پہنچادیا جائے۔ یا وہ خوش دلی سے از خود معاف نہ کردے اس وقت تک اس گناہ عظیم کے معاف ہونے کی کوئی صورت نہیں۔
چنانچہ جب اسلام عملا دنیا میں نافذ تھا تو اس وقت مسلمان خواہ کتنا ہی گیا گزرا ہو، لیکن چھوٹ، دھوکہ، فریب، بدعہدی، خیانت کو کسی قیمت پر گوارا نہیں کرتا تھا۔
زندگی کا چوتھا شعبہ معاشرت ہے یعنی دوسروں کے ساتھ میل جول اور باہمی تعلقات کے انداز۔
اس شعبے میں ایک مومن کی بنیادی صفت سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ:
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں۔‘‘
’’اور مومن وہ ہے جس سے دوسروں کو اپنی جان ومال کے معاملے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔‘‘
اسلام کے نظام معاشرت کے تمام احکام اس بنیادی اصول کے گرد گھومتے ہیں کہ ہر مسلمان اس بات کا دھیان رکھے کہ اس کے کسی طور طریقے اور کسی عمل سے دوسرے کو کسی قسم کی جسمانی یا نفسیاتی تکلیف نہ پہنچے۔ کسی شخص کو دل آزار باتیں کہنا، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا، کسی کی چغلی کھانا، کسی کے خلاف بدگمانی میں مبتلا ہونا، کسی کے عیوب کی جستجو کرنا کسی کی اجازت کے بغیر اس کی خلوت میں مخل ہونا۔ یہ سب وہ گناہ ہیں جنہیں قرآن کریم نے صریح الفاظ میں ممنوع قرار دیا ہے۔
اور ایک مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ اس قسم کی تمام گھٹیا باتوں سے مکمل پرہیز کرتا ہے۔
آخری شعبہ ’’اخلاق‘‘ کا ہے اور اس شعبے میں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ:
’’مکمل ایمان ان ہی لوگوں کا جو خوش اخلاق ہوں گے۔‘‘
خوش اخلاقی کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں تکبر کے بجائے تواضع اور انکسار، بخل کے بجائے سخاوت، بزدلی کے بجائے بہادری، سخت مزاجی کے بجائے رحم دلی، جلد بازی کے بجائے تحمل، زبان درازی کے بجائے خوش کلامی اور فحاشی کے بجائے عفت وپاکیزگی پائی جائے۔ اس سے مل کر اس کی باتیں سن کر اس کے کردار کو دیکھ کر دوسرے کو انقباض کے بجائے فرحت حاصل ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ انسانی شرافت کی جتنی اچھی صفات ہوسکتی ہیں ایک مومن کو ان سب کا مجموعہ ہونا چاہیے۔ اور جس شخص میں ان صفات کی جتنی کمی ہے اتنا ہی اس کا ایمان نامکمل ہے۔ اور جو شخص ان صفات سے محروم ہے وہ خواہ قانونی طور پر مسلمان ہی کہلائے لیکن جس قسم کا مسلمان اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو مطلوب ہے اس سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
اﷲ تعالی ہم سب کو ان صفات سے آراستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے جو ایمان کا لازمی تقاضہ ہیں جن سے مزین ہوکر قرون اولی کے مسلمانوں نے دنیا بھر پر اپنے عروج و اقبال کے پرچم لہرائے ہیں اور آج بھی ہماری دنیا وآخرت سنوارنے کے لئے لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہیں۔

Monday, July 11, 2016

جمال الدین افغانی

جمال الدین افغانی
پیدائش: 1838ء افغانستان
وفات: 1897ء ترکی
 
مسلم رہنما ۔ پورا نام سید محمد جمال الدین افغانی ۔والد کا نام سید صفدرخان ۔ مشرقی افغانستان کا کنڑ صوبے کی اسعدآباد میں پیدا ہوئے۔ پان اسلام ازم یا وحدت عالم اسلام کے زبردست داعی اور انیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی نمایاں شخصیت تھے۔
آپ نے اسلامی ممالک کو مغربی اقتدار سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی۔ آپ کا مقصد مسلم ممالک کو ایک خلیفہ کے تحت متحد کرکے ان کا ایک آزاد بلاک بنانا تھا۔
آپ عہد شباب میں افغانستان کے امیر محمد اعظم خان کے وزیر رہے۔ انگریزوں کی سازش سے افغانستان میں بغاوت ہوئی تو ہندوستان آگئے۔ مگر یہاں دو ماہ سے بھی کم قیام کی اجازت ملی۔ یہاں سے آپ ترکی گئے مگر وہاں بھی درباری علما اور مشائخ نے ٹکنے نہ دیا تو مجبوراً قاہرہ کا رخ کیا۔ قاہرہ میں آٹھ سال تک رہے اور اپنے نظریات کی بڑے زور و شور سے تبلیغ کی۔ اب آپ کا حلقۂ اثر بہت وسیع ہوگیا تھا۔ اور اسلامی ملکوں میں انگریزوں کے مفادات پر ضرب پڑ رہی تھی۔ اس خطرے کے سدباب کے لیے انگریزوں نے خدیو مصر پر دباؤ ڈالا اور اس کے حکم پر آپ کو مصر چھوڑنا پڑا۔
مصر سے آپ پیرس گئے اور وہاں ’’العروۃ الوثقٰی ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ عربی زبان میں جاری کیا۔ یہ رسالہ وحدت اسلامی کا نقیب تھا۔ مگر یہ دس ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا۔ آپ نے روس انگلستان اور حجاز کا بھی سفر کیا۔ آخری عمر میں سلطان ترکی کی دعوت پر قسطنطنیہ گئے تھے۔ یہیں سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پائی۔ ایک خیال یہ ہے کہ دربارِ ترکی کے ایک عالم نے انہیں حسد کی وجہ سے زہر دے کر شہید کیا۔ آپ کے قریبی ساتھیوں اور شاگردوں میں شیخ محمد عبدہ مصری بہت مشہور ہیں۔
حضرت علامہ محمد اقبال رح نے اپنی فارسی کتاب جاوید نامہ میں ایک طویل نظم ان کےنام کی
ہے جس کا عنوان ہے “زیارت ارواح جمال الدین افغانی و سعید حلیم پاشا”
جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں
لُردِ مغرب آں سراپا مکر و فن
اہل دیں رَا داد تعلیمِ وطن
{افغانی کہتا ہے} مغرب کے لارڈ نے، جو سراسر مکر و فریب ہے اہل دین کو وطن {نیشنلیزم}
کی تعلیم دی ہے،یورپ نے مسلمانوں کو تو نظریہ دین سے دور کیا ہے
اُو بَفکرِ مرکز و تُو دَر نِفاق
بُگذَر اَز شام و فلسطین و عراق
لیکن وہ خود تو مرکزیت کے فکر میں ہے اور تو نفاق میں پڑا ہوا ہے، تو {مسلمان} بھی
شام و فلسطین اور عراق کی علیحدگی کی باتیں چھوڑ
تو اگر داری تمیزِ خُوب و زَشت
دل نَبَندی با کَلوخ و سنگ و خِشت
اگر تو اچھے برے کی تمیز رکھتا ہے تو پھر اپنا دل مٹی پتھر اور اینٹ سے نہ لگا
چیست دین؟ برخاستن اَز روے خاک
تا زَ خود آگاہ گَردَد جانِ پاک
دین کیا ہے؟ خاک پر سے اوپر اٹھنے کا نام ہے تاکہ جانِ پاک اپنے آپ سے آگاہ ہوجائے
می نَگَنجد آنکہ گُفت اﷲ ھو
دَر حَدودِ ایں نظامِ چار سُو
جو کوئی “اللہ ھو” کہتا ہے وہ اس چار طرفوں والے نظام { زمان و مکان} کی حدود میں نہیں سماتا


Saturday, January 23, 2016

اپنا قبلہ درست کریں

مسلمان کیا ہے ؟
اس سوال کی بہت ہی آسان تعریف کی جاتی ہے کہ اﷲ تعالی کے فرائض کو پورا کرنے اورحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والا ہی مسلمان ہے۔ اگر کچھ تفصیل سے تعریف کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کے فرائض کو پوری ایمانداری سے ادا کرنے والا اور ساتھ میں محمد کریم ﷺ کی دی ہوئی شریعت پر مکمل عمل پیرا ہی مسلمان ہے۔ ہم میں سے ہر شخص مسلمان ہے اوراگر وہ نہیں بھی تو خود کو مسلمان ضرور سمجھتا ہے۔

کچھ لمحوں کے لئے اگر حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے تو ہمارے سامنے جو حقیقت آشکارہ ہوتی ہے اس میں آج کا مسلمان اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو مانتا تاہم ان اپنی خواہشات کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ آج ہر شخص ایک الگ تھلگ مسلمان بنا پھرتا ہے اور اس کے مطابق صرف وہ ہی مسلمان ہے۔ اپنے اپنے الگ اسلام کو لے کر چلنے والوں نے اسلام کے نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے تمام مسلمانوں کو ایک جز قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ مسلمان ایک جسم کی ماند ہوتے ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد کو محسوس کرتا ہے‘‘۔ مگر اس وقت ہمارے اسلام اور مسلمان ہونے پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

جن مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کا قرآن ’’ایک اﷲ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو‘‘ کی تلقین کر رہا آج وہ مسلمان فرقہ واریت میں بٹ چکے ہیں۔ فرقہ واریت میں بھی یہ نہیں کہ وہ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس فرقہ کی تقلید میں عبادت بھی کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت بھی بس اس حد تک محدود ہوگئی ہے کہ کسی دوسرے فرقہ کا اگر کوئی انسان کسی اور فرقہ پر سوال اٹھادے تو اس سے لڑ جھگڑ لیتے ہیں اور بس... جو انسان جس فرقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ یہی سوچتا ہے کے اس کا فرقہ درست ہے اور میں ہی سچا مسلمان ہوں ، لیکن اسے خود کو بھی صحیح سے معلوم نہیں ہوتا ہے کہ آیا وہ جس فرقہ کو درست قرار دے رہا وہ ہے بھی یا نہیں، بس بزرگوں نے فرمادیا ، ان کے قائد نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔

کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس فرقہ کے بارے میں بتا یا کہ وہ ٹھیک ہے اور فلاں ٹھیک نہیں ہے۔ ان فرقوں میں سے کونسے فرقے اﷲ کے نزدیک ہیں اور کونسے نہیں نا ۔ عہدنبوت میں کوئی بھی ایسے فرقہ واریت نہیں ہوا کرتی تھی، تب تو صرف سب مسلمان ہوا کرتے تھے۔ اس وقت اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا تو تھا وہ یہ نہیں پوچھتا تھا کہ اب مجھے یہ بھی بتائیں کہ میں کس فرقے کو جوائن کروں۔ مگر آج تو خود ایک مسلمان جب کچھ اسلام کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کہا جاتا کہ ہے یہ ٹھیک ہے ،وہ غلط ، یہ کافر وہ مسلمان ہے جس کی وجہ سے وہ بد ظن ہوکر سوچتا ہے کہ پہلے والی زندگی ہی ٹھیک ہے۔

ہم فرقہ واریت میں بری طرح پھنس کر رہے چکے ہیں۔ اتنا کہ ہم ایک دوسرے کے عبادت کے طریقوں پر نقص نکالنے سے بعض نہیں رہتے۔ کوئی بدعت تو کوئی شرک جیسی لت میں پڑا ہوا ہے تاہم وہ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا کہ درست کر رہا ہوں یہ غلط، بلکہ اپنی اصلاح کی بجائے وہ دوسرے پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف وہ مسلمان ہیں کہ جس کو رسول اکرم ﷺ آسمانوں سے لے کر آئے تھے ۔ صرف ایک قران اور سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عبادت کرتے رہنا ہی اسلام ہے، ناکہ دوسروں کے طریقوں پرتنقید کرنا یا ان کا مذاق اڑانا عبادت میں شامل ہے۔ سب عبادت اﷲ کے لئے کرتے ہیں اس لئے قبولیت کا ذمہ بھی اﷲ تعالیٰ ہے۔ وہ ذات سب کے دلوں کے حال کو اچھے سے جانتی ہے۔

جب ہم خود کو فرقوں میں بانٹ کر خانہ جنگی میں پڑ گئے تو عالم کفر کو ہمارے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جرات ہوئی۔ ورنہ اگر مسلم ایک جت ہوتے تو کبھی بھی کسی کافر کو رسولﷺ کی ناموس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوتی۔ ہمارے علماء کرام کو اﷲ سے ڈرنا چاہئے کہ انہوں نے قوم کی اصلاح کی بجائے قوم کو فرقوں میں، نفرتوں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ یاد رکھیں جب کوئی کافر اسلام کے خلاف سازش کرتاہے تو ان کے لئے سنی ،شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث سب برابر ہوتے ہیں۔ جب وہ ہمیں مارتے ہیں تو ایک مسلمان سمجھ کر مگر ہم خود کو نہ جانے کیوں ایک مسلمان سمجھ نہیں سمجھتے۔ اتنا جان لیں جب محشر کے روز ہم سے سوال ہوگا تو ہم سے فرقوں کے بارے میں نہیں بلکہ صرف عبادت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کیا آج ہم اپنی تیاری کر رہے ہیں ، اگر نہیں تو آج سے اپنا قبلہ درست کرلیں، شاید اﷲ تعالیٰ ہمیں معاف کر کے ہمارے اسلام کو پسند کر لے۔

تحریر علیشبہ احمد


Wednesday, January 6, 2016

منافقین کی اَقسام

پہلی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔

دوسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔

تیسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن مخالفینِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسبِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں۔

چوتھی قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنی سابقہ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔

پانچویں قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا۔

چھٹی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔

اسلام اپنے پیروکاروں کو تمام منافقین کی پہچان کروانا چاہتا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود رہ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ اس لئے سورہ بقرہ نے اس سلسلے میں اہم اشارات فراہم کئے تاکہ حق و باطل میں امتیاز کا صحیح شعور پیدا ہو سکے۔ اس کا دوسرا رکوع اس ضمن میں بطورِ خاص نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔

ارشاد ہوتا ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِيـْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ اللّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

البقرة، 2: 8.20
اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بیوقوف ایمان لے آئے، جان لو بیوقوف (درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیں اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھے ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتے یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے