Sunday, August 2, 2015

وہ نعمت جس کا کوئی بدل نہیں

والدین اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اولاد کی آنکھوں کی ٹھنڈک باعث سکون و راحت ہے۔ غموں کا مداوا ہے، سرمایہ حیات بھی ہے اور سرمایہ آخرت بھی ہے۔ والدین کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جابجا ایسے مقامات ہیں جہاں عقیدہ توحید، ایمانیات، اطاعت الٰہی عزوجل اور اطاعت رسولﷺ کے ذکر کے فورا بعد کسی اور موضوع کو درمیان میں لائے بغیر جس موضوع کو بیان کیا گیا وہ والدین کے حقوق سے متعلق ہے، جو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو ہماری عملی، سماجی اور معاشرتی زندگی کا اولین عنوان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا تعلق انسان سے ہے اور انسانی زندگی کا آغاز ماں باپ سے ہوتا ہے۔ یعنی خاندانی زندگی کی عمارت عائلی نظام میں ماں باپ پر استوار ہوتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔
واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اﷲ وبالوالدین احسانا
اور (یاد کرو) جب ہم نے اولاد یعقوب سے پختہ عہد لیا کہ اﷲ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
یہاں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ حکم اوراس کی یہی ترتیب حضرت آدم علیہ السلام کی امت سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی امت تک جاری و ساری رہی ہے۔ تمام بنی نوع انسان کو یہی تلقین کی جاتی رہی ہے کہ تمہاری جبین نیاز سوائے ذات باری تعالیٰ کے کسی اور کے سامنے نہ جھکے اور اپنے والدین کے ساتھ احسان اور فروتنی سے پیش آئو۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم، تاکید کے ساتھ ہر دور میں ہر نبی کی امت کو دی گئی اور یہ حکم آج بھی ہمیشہ کی طرح امت محمدیﷺ کے لئے مفروض الاطاعت ہے۔
والدین
سورۃ الاسراء میں والدین سے نیکی اور بھلائی کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا گیا۔
اما یبلغن عندک الکبر احدہما او کلہما فلا تقل لہما اف ولا تنہرہما وقل لہما قولا کریما O واخفض لہما جناح الذل من الرحمہ وقل رب الرحمہا کما ربیٰنی صغیرا
ترجمہ: اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزوانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (بارگاہ خداوندی) میں عرض کرتے رہو۔ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اگر والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں اف تک کا کلمہ کہنے کی بھی ممانعت ہے۔ اگرچہ تمہیں ان کی بات اچھی لگے یا نہ لگے۔ اگرچہ تمہاری طبیعت کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ خبردار! تمہاری زبان سے ان کے لئے اف تک نہ نکلے۔
اف تک نہ کہنا کا یہ معنی ہے کہ تمہاری زبانیں تمہارے والدین کے بارے میں اس حدتک بند ہوجائیں کہ ان کی پوشیدہ و ظاہری بات پر کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ ہونے پائیں۔ اور قرآن مجید کے اس لفظ ’’اف‘‘ نہ کہنے پر غور کیا کہ ایسا کیوں فرمایا گیا؟ یہ بات اس لئے کہی گئی کہ جب کوئی اولاد اف کہتی ہے کہ والدین یا دونوں میںسے کوئی ضعیف العمر کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔
یہ دو آیات مبارکہ جس طرف اشارہ کررہی ہیںکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ والدین سے حسن سلوک کرتے ہوئے اپنی زبان سے اف بھی نہ کہو اور کبھی سخت لہجہ میں بات نہ کہی جائے کہ جوکہ والدین کریمین کی دل آزاری کا باعث بنے۔ اﷲ کے احکام سے ہمیں یہ تربیت ملتی ہے کہ اپنے والدین کا بڑھاپے میں خاص خیال رکھے اور اس دور میں ان سے نیکی اور بھلائی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔ یہ بڑی آزمائش اور صبر کا امتحان ہے۔
والدین کے حقوق کے سلسلہ میں بے شمار احادیث مبارکہ ہیں جیساکہ حدیث شریف میں ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ منبر اقدس پر جلوہ افروز ہوئے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ ’’آمین آمین آمین‘‘ کسی نے دریافت کیا یا رسول اﷲﷺ!آپ نے کس چیز پر آمین فرمایا؟ آپ نے ارشاد فرمایا۔ میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے، انہوں نے یہ کہا۔
اے محمدﷺ اس آدمی کی ناک خاک آلود ہوجائے جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک کیا جائے اور وہ شخص آپ پر درود نہ پڑھے۔ آپ اس پر آمین کہیں تو میں نے اس پر آمین کہا۔
پھر انہوں نے کہا، وہ آدمی رسوا ہو جس کے پاس رمضان شریف کا مقدس ماہ آیا تو اس شخص کی بخشش مغفرت نہ ہو تو اس پر بھی آپ نے آمین کہا۔
(تیسرا وہ شخص) رسوا ہو جس نے اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو بھی پایا تو وہ اس کی جنت کا موجب نہ بنے، جبریل علیہ السلام نے کہا اس پر آمین کہو تو میں نے آمین کہا۔
ایک اور مقام پر حضور اقدسﷺ نے فرمایا۔
حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ والد جنت کے دروازوں میں درمیانہ (سب سے بہتر اور اعلیٰ) دروازہ ہے، اب یہ تم پر ہے کہ یا تو اس دروازے کو ضائع کرو یا اس کی حفاظت کرو۔
ان احادیث میں صراحتا فرمایا گیا کہ جو شخص والدین جیسی عظیم نعمت پاکر ان کی قدر اور خدمت کرکے جنت کا سامان مہیا نہ کرسکے۔ وہ انتہائی بدنصیب انسان ہے۔ یہ احکام والدین صرف امت محمدیﷺ پر ہی نہیں بلکہ پچھلی امت میں بھی والدین کی خدمت کرنے کی تاکید آئی ہے جیسا کہ توریت میں ہے۔
حضرت موسیٰ اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی شریعت میں والدین کے بارے میں احکام
یہ وہ توریت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ والدین کے حقوق سے متعلق یہاں تک حکم دیا گیا کہ جو والدین کو برا بھلا کہے، گالی گلوچ کرے یا زبان سے ایسا کلمہ کہے جو لعنت پر محمول کیا جاسکے۔
اس کی سزا قتل ہے، والدین کی توہین کی آخرت میں جو سزا ہوتی تھی، وہ سزا تو ہونی ہی تھی اور اس دنیا میں بھی اس جرم کا مرتکب سزا موت کا حق دار ہے۔
یہی حکم حضرت عیسٰی علیہ السلام پر نازل کیا گیا جو کتاب توریت میں بھی موجود تھا، گویا یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت عیسوی کے مطابق والدین کی اہانت اور بے ادبی کی سزا موت تھی۔ اس کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل کے مذہب میں والدین کی بے ادبی کتنا گھنائونا جرم تھا اوراس کے لئے بڑی سے بڑی سزا موت مقرر کی گئی تھی۔
امت محمدی پر کتنا بڑا احسان ہے۔ اگر کوئی نافرمان اولاد اپنے والدین کے ساتھ برا سلوک کرے، انہیں دنیا میں سزائے موت نہیں لیکن وہ آخرت میں عذاب کا مستحق ہے۔اور اگر کوئی شخص اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے۔ انہیں کس قدر انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔
حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہکی اطاعت افروز حکایت
حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اﷲ عنہ جو حضور نبی اکرمﷺ کی ظاہری حیات طیبہ میں اپنی زندگی کے بیس سال گزارنے کے بعد بھی شرف صحابیت سے بہرہ ور نہ ہوسکے۔ وہ عاشق صادق اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ حضور نبی اکرمﷺ کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک انہیں صحابیت کے مرتبے پر فائز کرسکتی ہے جس سے ان کا مقام تابعین سے اونچا ہوجاتا مگر انہوں نے اپنی ضعیف ماں کی خدمت کی خاطر شرف صحابیت سے کو قربان کرنا گوارا کرلیا اور جیتے جی ماں کے قدموں سے دوری اختیار نہ کی۔ ماں کی خدمت گزاری میں بدستور رہنے کا حکم بھی آقائے مولاﷺ کا تھا۔ اس کی تعمیل میں وہ زندگی بھر ماں کی خدمت میں محو رہے اور تادم آخر ماں کی خدمت گزاری کو مرتبہ صحابیت کے حصول پر ترجیح دیتے رہے۔
ایک مرتبہ یہ عاشق زار اپنی ماں کی اجازت سے شوق دید سے سرشار ہوکر اپنے آقاﷺ کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے لیکن ماں کا حکم تھا کہ اگر حضورﷺ گھر میں تشریف فرما ہوں تو مل لینا اور اگر نہ ہوں تو انتظار نہ کرنا واپس پلٹ آنا، اتفاق کی بات تھی کہ جب اویس قرنی رضی اﷲ عنہ در دولت پر پہنچے تو آپﷺ گھر سے دور کہیں تشریف لے جاچکے تھے۔ چنانچہ وہ محبوب کے نام یہ پیغام چھوڑ کر واپس لوٹ آئے کہ آپ کا اویس زیارت کے لئے حاضر ہوا تھا مگر چونکہ ماں کی طرف سے انتظار کرنے کی اجازت نہ تھی، اس لئے بغیر ملاقات کے لوٹ کر جارہا ہے۔
حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ نے جس طرح ماں کی خدمت کا حق ادا کیا وہ تاریخ انسانیت کا وہ نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی نظیر ملنا محال ہے۔ اگر کوئی ہم جیسا کور ذوق اور کوتاہ اندیش ہوتا تو مدینہ طیبہ میں پہنچ کر کچھ عرصہ اور قیام کرلیتا کہ چلو اتنی طویل مسافت طے کرکے پہنچے ہیں۔ دیدار جاناں سے شاد کام ہوکر ہی لوٹتے ہیں، ذرا سوچیئے کہ عاشق اویس قرنی جیسا ہو اور چند لمحوں کے توقف کے بعد دیدار یار بھی میسر آسکتا ہو مگر چونکہ ماں کا حکم تھا کہ اگر نہ ملیں تو بغیر انتظار کے پلٹ آنا، اس لئے حکم کے آگے بغیر چوں چرا سرتسلیم خم کردیا اور واپس چلے آئے۔
اطاعت والدین کے سبب اویس قرنی رضی اﷲ عنہ پر انعام
ماں کی خدمت کے عوض حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کو جو مقام و مرتبہ عطا ہوا۔ اس کا اندازہ بھی ہم جیسے نہیں لگا سکتے۔ اگرچہ انہیں حضور اکرمﷺ کا ظاہری دیدار اور صحبت میسر نہ آئی تھی مگر پھر بھی ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ اپنی صحبت میں رہنے والوں سے اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کے فضائل اور درجات بیان کیا کرتے تھے اور حضور اکرمﷺ اپنے صحابہ کو بتاتے کہ میرے اویس کی علامت یہ ہے کہ اس کے فلاں ہاتھ پر داغ ہے اور اس کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ اس کی دعا سے میرے لاکھوں اُمتیوں کی شفاعت ہوگی۔
آخر میں اس گفتگو کا ماحصل اور لب لباب بیان کرتے ہیں کہ ماں کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں اور یہ سارے درجات اور فضیلتیں اسی زینے سے حاصل ہوتی ہیں۔ ماں کی خدمت کا کوئی اور بدل نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے حدیث پاک میں ہے کہ:
الجنۃ تحت اقدام الامہات
جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے
اس لئے ہمیں چاہئے کہ مرتے دم تک والدین کی خدمت میں ہمہ وقت مستعد رہیں۔
آمین بجاہ نبی الامینﷺ

No comments:

Post a Comment