Sunday, September 28, 2014

حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے؟

حدیث اور سنت میں فرق
لغوی معنی میں فرق
حدیث اور سنت،دونوں الفاظ عربی زبان میں اپنے لغوی معنی ہی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ حدیث کے معنی بات،قول،اور کلام کے ہیں اور یہ لغت میں جدید یعنی نئی چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے،جبکہ سنت کے معنی پٹے ہوئے راستے،عام طریقے اور جاری وساری عمل کے ہیں۔
اصطلاحی معنی میں فرق
اصطلاح میں حدیث،جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر وتصویب کی روایت کو کہا جاتاہے،جبکہ لفظِ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے اُن مستقل بالذات احکام وہدایات کے لیے مستعمل ہے جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی ہے۔ سنت کا لفظ قرآن مجید کے ساتھ دینِ اسلام کے دوسرے مستقل ماخذ (Source) کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
استعمالاتِ زبان کے اعتبار سے فرق
حدیث اور سنت عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ لوگ اگر چہ بعض اوقات اِن دونوں لفظوں کو مترادف کے طور پر بھی استعمال کرلیتے ہیں،لیکن اِس سے یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہونی چاہیے کہ اِن دونوں کی حقیقت بھی ایک ہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عربیت کی رو سے ہر جگہ حدیث اور سنت کو مترادف کے طور پر استعمال کیا بھی نہیں جاسکتا۔ مندرجہ ذیل چند مثالوں سے قارئین اِس مقدمے کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں :
ا۔ 'النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ' کے بجائے ہم اگر کہیں: 'النِّکَاح مِنْ حَدِيْثِیْ' تو بالبداہت واضح ہے کہ استعمالاتِ زبان کے اعتبار سے اِس جملہ کو غلط قرار دینے میں کسی شخص کو تردد نہیں ہوسکتا۔ اِس مثال سے واضح ہے کہ حدیث اور سنت دو مختلف چیزیں ہیں۔ چنانچہ اِن الفاظ کو مترادف کے طور پر استعمال کرنا درست نہیں ہے۔
ب۔ اگر کہا جائے کہ ملاقات کے موقع پر'السَّلاَمُ عَلَيْکُمْ' کہنا اور اُس کا جواب دینا "سنت" ہے،تو ظاہر ہے کہ یہ بیان ہر پہلو سے درست ہے۔ لیکن ہم اگر کہیں کہ ایسا کرنا "حدیث" ہے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ زبان کی رو سے یہاں "حدیث" کے لفظ کا استعمال قطعاً درست نہیں ہے۔ یہ مثال بھی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر رہی ہے کہ حدیث اور سنت دو متفرق چیزیں ہیں۔
ج۔ اگر کوئی شخص کہے کہ لڑکوں کا ختنہ کرنا "حدیث" ہے تو اُس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ یہ "حدیث" نہیں،بلکہ "سنت" ہے۔ اِسے حدیث کے لفظ سے تعبیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اِس مثال سے بھی ہر شخص حدیث اور سنت کے فرق کو با آسانی سمجھ سکتا ہے۔
د۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ نماز کے قیام میں سورۂ فاتحہ کی قرأت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "حدیث" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اِس جملے کو بھی ہر لحاظ سے غلط ہی قرار دیا جائے گا۔ صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ آپ نے اِسے "سنت" کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ یہ مثال بھی واضح کررہی ہے کہ حدیث کا مصداق اور ہے اورسنت کا کچھ اور۔
دینی حیثیت میں فرق
سنت کی حیثیت قرآن کے علاوہ اللہ تعالٰی کے آسمانی دین اور اُس کی مستقل بالذات شریعت کی ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک مستقل دینی حیثیت رکھتی ہے۔ جبکہ حدیث میں دین کی حیثیت سے جو کچھ روایت ہوا ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے قرآن وسنت کے مستقل بالذات احکام کی شرح و وضاحت اور اُن پر آپ کے عمل کے نمونے کا بیان ہے۔
ماخذ و مصدر کے اعتبار سے فرق
سنت کا ماخذ و مصدر محمد رسول اللہ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ سنت کو دین میں اُس کی حیثیت کے پیش نظر آپ نے بذاتِ خود پورے اہتمام،پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ متعین شکل میں اللہ کے دین کی حیثیت سے اپنے ماننے والوں میں باقاعدہ طور پر جاری فرمایاہے۔ آپ اِسی کے مکلّف تھے۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس کے بر عکس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی حفاظت،تبلیغ و اشاعت اورتدوین و کتابت کے لیے خود کبھی کوئی اہتمام نہیں فرمایا۔ حدیث کی روایت کا آغاز آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہوا ہے۔ اِس کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ صحابہؓ میں سے جس نے چاہا اپنے ذوق کے مطابق جو کچھ اُس کے علم وضبط میں تھا،اپنے حفظ و اتقان ہی کی بنیا د پر فطری جذبہ ابلاغ کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس روایت کو اُس کے طلبہ میں منتقل کیا اور ضرورت کے مواقع پر بیان فرمایا۔
ذریعۂ انتقال اور ثبوت کے لحاظ سے فرق
سنت کا ذریعۂ انتقال،جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے،اُمت کا اجماع اور تواتر عملی ہے۔ چنانچہ اِس کا ثبوت بھی قرآن ہی کی طرح بالکل قطعی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کا استناد علمِ یقین کے درجے میں ثابت ہے۔ لہذا اِس کے بارے کسی بحث اور اختلاف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ یہی و جہ ہے کہ سنت کے حوالے سے صحیح،حسن،ضعیف اور موضوع کی بحث بھی سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ اخبارِ آحاد (یعنی چند لوگوں کی روایت) کے طریقے پر نقل ہوئی ہے۔ اور اخبارِ آحاد سے کسی چیز کا روایت ہونا جس طرح اُس کے ثبوت کو قطعیت کا درجہ نہیں دیتا،اِسی طرح اُس سے حاصل ہونے والا علم بھی کبھی درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا۔ چنانچہ معلوم ہے کہ حدیث کے ثبوت پر بحث و تحقیق ہوتی ہے اور اِس کے نتیجہ میں کوئی روایت صحیح،کوئی ضعیف اور کوئی موضوع بھی قرار پاتی ہے۔ کسی روایت کو قبول کیا جاتا ہے اور کوئی رد کردی جاتی ہے۔
نوعیتِ انتقال میں فرق
سنت کو اصلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے جاری فرمایا تھا،وہ ہو بہو ویسے ہی اپنی اصل شکل میں،بغیر کسی ادنٰی تغیر کے منتقل ہوئی اور آج بھی اُسی صورت میں اُمت کے پاس موجود ہے۔ جبکہ حدیث کے بارے میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس کی روایت میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اُسے باللفظ ہی روایت کیا جائے۔ بلکہ بالعموم وہ روایت بالمعنٰی ہی کے طریقے پر نقل ہوئی ہے۔ یعنی راوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے اِس میں جو کچھ روایت کرتے ہیں؛اپنے فہم کے مطابق بالعموم اپنے ہی الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں۔
مشمولات کے اعتبار سے فرق
مشمولات (Contents) کے اعتبار سے دیکھا جائے تب بھی حدیث اورسنت کئی پہلووں سے دو متفرق حقیقتوں کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں:
ا۔ مشمولات کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو سنت کے تمام اعمال اپنی نوعیت ہی کے لحاظ سے دین ہیں۔ وہ اعمال یا تو عبادات کی نوعیت کے ہیں،یا تطہیر بدن سے متعلق ہیں،یا خور و نوش کے تزکیہ کے لیے ہیں اور یا اُن کا تعلق تطہیر اخلاق سے ہے۔ جبکہ حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اُس کے مشمولات میں یہ چیز شرط نہیں ہے۔ ذخیرۂ حدیث کا ہم جب بالتفصیل مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں دینی نوعیت کے مضامین بھی ہیں۔ جیسے دین کی شرح و وضاحت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اُس پر عمل کے لیے آپ کے اُسوۂ حسنہ کا بیان۔ اِسی طرح اُس ذخیرے میں اِس کے علاوہ بھی بہت سے مشمولات ایسے ہیں جن کا اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہونا ضروری نہیں ہے۔ مثلاً قریش کے دورِ جاہلیت کے اعمال و تصورات کابیان؛ماضی کے اخبار؛مستقبل کی عمومی پیشن گوئیاں؛نبوت سے پہلے اور بعد از نبوت آپ کی سوانح حیات کی روایات اور لباس و خور و نوش میں آپ کی عادات اور اندازِ گفتار و رفتار کا بیان وغیرہ۔
ب۔ سنت عملی نوعیت کی چیز ہے۔ اُس کے تمام مشمولات انسان کی عملی زندگی سے متعلق احکام ہیں۔ جبکہ حدیث کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ اصلاً زبانی روایتوں کی نوعیت کی چیز تھی۔ پھر اُسے کتابوں اور صحیفوں کی صورت میں محفوظ کیا گیا۔ اب اُس کا سارا ذخیرہ چند متعین کتابی مجموعوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اُس کے مشمولات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں عملی نوعیت کی چیزوں کے ساتھ ساتھ علم و عقیدہ اور ایمانیات سے متعلق مباحث بھی موجود ہیں،تاریخ کی چیزیں بھی ہیں،تفسیر اور شانِ نزول کی روایات بھی ہیں اور انبیا کی قوموں کے حالات اور اُن کے فکر و عمل سے متعلق روایات بھی موجود ہیں؛جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث اور سنت میں مشمولات کے لحاظ سے بھی فرق ہے۔
ج۔ حدیث اور سنت کے مشمولات میں اِس اعتبار سے بھی ایک واضح فرق ہے کہ سنت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے قرآن کی شرح و وضاحت قرار دیا جاسکے۔ جبکہ حدیث کے ذخیرہ میں قرآنی احکام کی شرح و وضاحت پر مبنی روایات بھی پائی جاتی ہیں،تفسیر کی نوعیت کی چیزیں بھی ہیں اور یہاں تک کہ خود سنت کا بیان اور اُس سے متعلق شرح و وضاحت پرمبنی روایات بھی اُس میں موجود ہیں۔ حدیث کا ذخیرہ گویا متفرق چیزوں کا مجموعہ ہے۔
د۔ سنت کے بارے میں یہ اُصول بھی بالکل متعین ہے کہ اُس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال بھی شامل نہیں ہیں جنہیں آپ نے شریعتِ سماوی کے حکم کے طور پر نہیں،بلکہ اپنے طور پر نفل کی حیثیت سے اختیار کیا ہے۔ آپ سے مروی اِس نوعیت کے تمام اعمال کا بیان اگر کہیں پایا جاتا ہے تو حدیث ہی میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ واضح ہوا کہ حدیث اورسنت دونوں کے مشمولات میں اِس پہلو سے بھی ایک واضح فرق ہے۔
ھ۔ سنت کے مشمولات میں ایسی چیزیں بھی نہیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محض فطرت کے بیان اور اُس کی رہنمائی کے طور پر صادر ہوئی ہوں۔ آپ سے منسوب اِس نوعیت کی تمام چیزیں بھی یہ واقعہ ہے کہ اگر کہیں پائی جاتی ہیں تو حدیث ہی میں پائی جاتی ہیں۔ جیسے پالتو گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت اور اعلٰی اخلاق اپنانے کی تاکید و تلقین وغیرہ۔ چنانچہ اِس سے بھی واضح ہوا کہ حدیث اور سنت دونوں کے مشمولات مختلف ہیں۔
و۔ سنت کا معاملہ یہ ہے کہ اُس میں ایسی کوئی چیز بھی نہیں ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اُن کے پوچھنے پر بتائی ہو یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے اُنہیں بتائی تو ہو لیکن اُس رہنمائی کی نوعیت ہی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کردیتی ہو کہ اُسے اللہ کی ہدایت کے طور پر مقرر کرنا آپ کے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونے والی اِس نوعیت کی تمام ہدایات بھی اگر کوئی دیکھنا چاہے تو حدیث ہی کے ذخیرے میں دیکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ سے پہلے آپ نے اپنی ایک دعاے استفتاح سیدنا ابو ہریرہ کے پوچھنے پر اُنہیں بتائی اور قعدے کی دعا میں جب بعض لوگوں کی غلطی آپ کے سامنے آئی تو آپ نے اُن کی غلطی کی اصلاح فرما کر اُن کی رہنمائی فرمائی (مسلم، رقم ١٣٥٤ ،٨٩٧
ز۔ تمام سنن کو اگر سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اُن میں باہم کسی قسم کا کوئی تعارض اور تضاد نہیں پایا جاتا۔جبکہ ذخیرۂ حدیث کے بارے میں اُس کا ہر طالب علم اِس حقیقت سے واقف ہے کہ اُس میں بے شمار ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جن میں باہم دگر تعارض اور تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی کوئی چیز کھالینا و ضو کو توڑ دینے و الی چیزوں میں سے ہے (مسلم،رقم٧٨٨،٧٨٩)۔ جبکہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے (مسلم،ر قم ٠٧٩، ٧٩١
ح۔ اعمالِ سنن میں کسی ایسی چیز کی نشاند ہی نہیں کی جاسکتی جو قرآن سے متصادم ہو،جبکہ حدیث کے ذخیرہ میں ایسی بہت سی روایات دکھائی جاسکتی ہیں جو قرآن سے متعارض و متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بات بیان فرمائی کہ:'' یقیناً مُردے کو اُس کے گھر والوں کے رونے کی و جہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ نے سنا تو قرآنِ مجید کی بنیاد پر اِس روایت کی تردید کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا:اللہ تعالٰی عمر پر رحم فرمائے۔ بخدا رسول اللہ نے ایسا نہیں فرمایا ہوگا کہ اللہ تعالٰی مومن کو کسی کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ( اِس معاملہ میں فیصلہ کن چیز کی حیثیت سے) تمہارے لیے قرآن کی یہ آیت ہی کافی ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔ (مسلم،رقم ٢١٥٠)

Friday, September 26, 2014

اقبال کی اسلام سے والہانہ عقیدت​ Iqbal and Islam


سب جانتے ہیں کہ اقبال نے وہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ، یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصا فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفہ تک کرچکے ہیں۔
 
 مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔ جو کچھ سوچتا تھا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا۔ جوکچھ دیکھتا تھا، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے، اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امامِ فلسفہ اور اس ایم، اے، پی ایچ ڈی بار ایٹ لاء سے لگا کھاتا ہو۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کردیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجہ میں پہنچے تھے ، وہ یہ تھا کہ اصلی علم قرآن ہے، اور یہ جس کے ہاتھ آجائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماری کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلواکر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھوانے بیٹھ گئے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے ساتھ ان کی عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی عقلیت کو رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ایک متاعِ حقیر کی طرح نذر کرکے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سُن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ “رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابِ ثلاثہ کے ساتھ کوہِ احد پر تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی (ص) ایک صدیق (رض) اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا۔“ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آکر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں۔ مجازی طور پر نہیں بلکہ واقعی لرز اٹھتے ہیں۔

اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیالی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں اس کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے۔ اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برمالا ان کی حمایت کرتا تھا، اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ اس کی ایک معمولی مثال سن لیجئے۔ ایک مرتبہ حکومتِ ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے اور سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لیکر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور خود لارڈ ولنگڈن سے کہا کہ میں بے شک ایک گنہگار آدمی ہوں، احکام اسلام کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں۔ مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کرسکتا کہ محض آپ کا ایک عہدہ حاصل کرنے کے لیے شریعت کے ایک حکم کو توڑدوں۔

قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے مگر آخیر زمانہ میں طبیعت کی رقت کا یہ ھال ہوگیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔

ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئے۔ ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور“سر صاحبان“ ہوتے ہیں، ویسے ہی وہ بھی ہوں گے، اور اسی بنا پر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلا تحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہِ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجئے، جس سے اس بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کرسکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کیلئے اقبال اور سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کیلئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پاکر معا ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں انہوں نے بورئیے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ اٹھے اور برابر غسل خانے میں جاکر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کردیا۔ جب ذرا دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چارپائی اس غسل خانہ میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے، غسل خانہ ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے، جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہے؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کا دم بھرتے ہیں مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔ 

(سید ابوالاعلیٰ مودودی)