Wednesday, April 22, 2015

میری کتابیں اِنسان ہی نہیں۔۔۔ جن بھی پڑھتے ہیں


’’ڈھول پیٹنے والے کی گونج دار آواز اُبھری: ’’اٹھو، جاگو مسلمانوں! سحری کا وقت ہو گیا ہے‘‘ ۔۔۔ ٹِین کنستر کھڑکانے والا منہ پھاڑ پھاڑ کر گہری نیند میں غلطاں لوگوں کو بیدار کر رہا تھا، اگلے دس پندرہ منٹوں میں ہر گھر میں چراغ اور چُولہے روشن ہو چکے تھے۔ گرم گرم پراٹھے، رات کا بچا ہوا سالن، دہی اور چائے، یہی اس علاقے کی سحری کے لیے روایت تھی۔ روزہ رکھنے والے جلدی جلدی کھانے پینے سے فارغ ہو کر نماز وتلاوت کی تیاری میں لگ جاتے لیکن جن گھروں میں افراد کی کمی ہوتی ہے یا جہاں صرف میاں بیوی ہی رہتے ہیں وہاں افطاری اور سحری بے رونق ہوتی ہے۔
’’بند پتلی گلی کے سامنے ماتھے والے مکان کی یہی حالت تھی۔ اس گھر میں ایک صابر وشاکر شخص اور اُدھیڑعمر سوبھاگیہ عورت رہتے تھے، اولاد کی نعمت سے محروم ۔۔۔ لیکن یہ میاں بیوی ابھی تک خدا کی ذات سے نااُمید نہیں ہوئے تھے۔ اِنہیں یقینِ کامل تھا کہ وہ قادر مطلق ضرور ایک دِن اِن کی آرزووں کے گلشن میں اولادِ نرینہ کا پھول کھِلائے گا ۔۔۔ ڈھول پیٹنے والا اب اِن کی بندگلی میں کھڑا زور زور سے ڈھول پیٹ رہا تھا۔ خاتونِ خانہ تو بہت پہلے ہی سے جاگی ہوئی تھی۔ باورچی خانے کی کھڑکی اور روشن دان سے لالٹین کی ملگجی روشنی اور توے پہ دیسی گھی سے تَرتَرائے ہوئے پراٹھے سے اُٹھتا ہوا دُھواں اور خوشبو باہر نکل رہی تھی اور قریب ہی اِس کا ’’بوڑھا شوہر‘‘ ابھی تک چارپائی پر پڑا اُٹھنے کا ’’موڈ‘‘ بنا رہا تھا۔ ویسے بھی سحری میں اکثر مردوں سے پہلے عورتیں ہی جاگتی ہیں۔ خاتونِ خانہ نے سُوندھی سُوندھی خوشبو اور سُنہری رنگت والا پراٹھا توے سے اُتارا اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی پراٹھی توے پہ پھیلا دی، پراٹھی اِس کے اپنے لیے اور پراٹھا خاوند کے لیے تھا۔ ایسے میں باہر گلی کی سیالکوٹی چھوٹی اینٹوں والے فرش پہ ٹک ٹک کی آوازیں اُبھریں جیسے کوئی نعل بند گھوڑ آہستہ آہستہ، اِدھر چلا آرہا ہو۔ سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے وہ پراٹھی پہ گھی لگانے لگی، انگیٹھی میں دَست پناہ سے دوچار کوئلے بھی جھونک دیئے کیونکہ توا اُترتے ہی سبز چائے کی دیگچی دَھرنی تھی۔ بڑے لگے بندھے انداز میں وہ ساتھ ساتھ باورچی خانے کے دیگر کام بھی کر رہی تھی، ابھی وہ کانسی کے برتن سے دہی نکال ہی رہی تھی کہ باہر دروازے سے ایک صدا آئی۔
مصنف، صوفی اور پیراسائیکالوجسٹ بابا محمد یحییٰ خان کہتے ہیں : ’’مجھے کبھی کسی کے ساتھ گیدڑ نظر آتا تو کبھی کسی کے پہلو میں بیل ۔۔‘‘ _MG_6702
’’ہے کوئی مُراد والا جو پیر مُرادیے کے فقیر کی مُراد پوری کرے، سحری کرائے۔۔۔‘‘
خاتون نے یہ الفاظ سُنے تو اپنے اِردگرد نظر دوڑائی کہ اِس وقت فقیر کو کیا دِیا جا سکتا ہے؟ ۔۔۔ چنگیر میں پڑے ہوئے پراٹھے پہ نظر آٹِکی، وہی پراٹھا اُٹھایا، سر کا پَلّو درست کرتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔۔ کالے شا گھوڑے پہ ایک نیم نانگا فقیر، کندھوں پہ جھولتی ہوئی اُلجھی جٹیں، گھوڑے کی دونوں اطراف لٹکے ہوئے پوٹلے۔ وہ سواری پہ ایک ہی جانب دونوں ٹانگیں لٹکائے اِس طرح بیٹھا تھا جیسے ابھی ابھی کود کر کہیں بھاگ لے گا۔ گلی کی مدھم سی روشنی میں یہ سب کچھ کسی خواب کی مانند دِکھائی دے رہا تھا۔ کوئی اور عام سی گھریلو خاتون ہوتی تو چیخ مار کر بے ہوش ہو جاتی، مگر وہ اللہ والی بڑے تحمل اور عاجزی سے بولی: ’’لو بابا! یہ گرم گرم پراٹھا ۔۔۔ بسم اللہ، سحری کھالو۔۔۔‘‘ وہ فقیر کو پراٹھا تھما کر مڑتے ہوئے بولی ۔۔۔ ’’اگر ضرورت ہو تو ایک اور لادوں ۔۔۔؟‘‘
’’پُتر! ایک ہی بہت ہے۔۔۔!‘‘ فقیر نے کمال استغناء سے جواب دیا۔
_MG_6710
بِن سوچے سمجھے خاتون کے منہ سے نکلا: ’’ہاں، بابا! ہمارے لیے تو ایک ہی پُتر بہت ہے۔۔۔!‘‘
فقیر نے ایک لمحہ خاتون کی جانب دیکھا، پھر اِسی پراٹھے سے دو لُقمے توڑ کر خاتون کو دیتے ہوئے کہا: ’’ایک لُقمہ اپنے میاں کو کھلا دو اور ایک خود کھالو، یہی رِزق تم دونوں میاں بیوی کے لیے آج کی سحری ہے۔ آج اُنیسواں روزہ ہے، اگلے برس اکیسویں روزے تک پیر مُرادیئے کی خانقاہ پر ہر جمعرات میٹھے پراٹھے لے جا کر بچوں میں تقسیم کر دیا کرنا!‘‘ خاتون ہاتھ میں پراٹھے کے لُقمے لیے حیران وششدر کھڑی تھی اور فقیر جا چکا تھا۔ ادھر نیم خوابیدہ خاوند کے نتھنوں میں جب توے پر پڑی ہوئی پراٹھی کے جلنے کا کڑوا کسیلا دُھواں گُھسا تو وہ پوری طرح بیدار ہو کر اُٹھ بیٹھا۔ اِدھر اُدھر دیکھا، بیوی تو کہیں نظر نہ آئی البتہ سامنے باورچی خانے میں توے پہ پڑی ہوئی پراٹھی جل کر کوئلہ ہوتے ہوئے ضرور دِکھائی دی۔ روایتی شوہروں کے برعکس غصہ کرنے کے بجائے وہ چارپائی سے اُتر کر باورچی خانے میں گُھسا، توا چولہے سے اُتارا ہی تھا کہ وہ نیک بخت ہاتھ پہ چَپّہ سا پراٹھا دَھرے اندر باورچی خانے میں آگئی۔ خاوند کو کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر چارپائی پر لابٹھایا، اپنی کوتاہی کی معذرت چاہتے ہوئے سارا ماجرا کہہ سُنایا اور پھر وہی دو لقمے سامنے دَھرتے ہوئے کہا: ’’اللہ کے بندے! آج یہی ایک آدھ لُقمہ ہم دونوں کی سحری ہے۔ میرا اندر بول رہا ہے کہ یہ نعمت، اللہ کی طرف سے ہمارے لیے خوشخبری ہے۔۔۔‘‘ خاوند نے بسم اللہ پڑھ کر پراٹھے کا لُقمہ منہ میں رکھا اور بیوی سے کہا: ’’نیک بخت! تُو نے سچ کہا ۔۔۔ ابھی ابھی میں نے خواب دیکھا، میں اور شیخ صاحب (علامہ اقبال) دونوں اپنے اُستادِ محترم مولوی میر حسن کے قدموں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اچانک شیخ صاحب نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضور! اِن کے ہاں اولادِ نرینہ نہیں ہے، یہ دُعا کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب نے چند لمحے غور سے میری جانب دیکھتے ہوئے فرمایا: آج تم مولوی ابراہیم کی مسجد میں تراویح پڑھو اور پھر کل سے پیر مُرادیہ شہید کے پاس مسجد میں اعتکاف بیٹھ جاؤ ۔۔۔ دیکھو، کیا ظہور پذیر ہوتا ہے۔۔۔!
_MG_6711
اگلے برس اکیسویں رمضان، تہجد کے وقت سجدے میں پڑے ہوئے اِسی بوڑھے صابر وشاکر شخص کے پیچھے اِس کی انتہائی ضعیف ماں گودڑی میں کچھ لپیٹے ہوئے بیٹھی اِس کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ بوڑھے نے سلام پھیرا تو ضعیف ماں نے کپکپاتی نحیف سی آواز میں کہا: ’’پُتر! سَت سَت مبارکاں، سوہنے رَبّ نے تیرے گھر بُوٹا لایا اے۔۔۔‘‘
بوڑھے شخص نے یہ عظیم خوشخبری سُنی اور مڑ کر دیکھے بغیر وہیں سجدے میں گر گیا۔ خاصی دیر بعد جب اِس کا سر سجدے سے نہ اُٹھا اور ’’اُوں آں، اُوں آں‘‘ کی معصوم سی آواز اُبھری تو ضعیف ماں نے دوبارہ آواز دی۔ ’’وے، پُترا! اپنے پُتر دا منہ تے تَک لے، فیر نمازاں پڑھدا رہیں۔۔۔‘‘
تشکّر کے آنسوؤں سے دُھلا ہوا چہرہ، بھیگی ہوئی سفید رِیش، کپکپاتے ہوئے ہونٹ اور فرطِ جذبات سے لرزتے ہوئے سراپے کو لیے وہ شخص اُٹھا اور اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا۔ ماں نے بڑی آہستگی سے پُرانی سی گودڑی، بیٹے کی جھولی میں دَھر دی۔ کانپتے ہاتھوں سے اِس شخص نے گودڑی کو ٹٹولا۔ نومولود اگر رو رہا نہ ہوتا شاید وہ سمجھتا کہ گودڑی خالی ہے ۔۔۔ بچّہ کیا تھا، ایک چھوٹے سے خرگوش جیسا، ایک ہاتھ اور ایک چپّہ۔ وہ اِسے دیکھ کر گھبرا سا گیا، اِتنا چھوٹا اور کمزور سا بچّہ اِس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا، وہ اِسے چھوتے ہوئے ڈر رہا تھا ۔۔۔ اچانک اِس کی ضعیف ماں بولی: ’’پُتر! جلدی سے اِس کے کان میں اَذان دے ۔۔۔ دیکھتا نہیں، رو ریا اے۔۔۔‘‘
بوڑھے نے کمزور سے پھُول بچّے کو حیرت سے دیکھا، مرد کی اُنگلی برابر بازو، ماچس کی تیلی جیسی اُنگلیاں، بڑے بیر جتنا سر، ننھی ننھی ٹانگیں ہلاتا، کانوں تک باچھیں کھولے بُری طرح چیختا روتا ہوا نادر سا بچّہ! کسی قلندر، درویش یا فقیر کی دُعا یا بڑھاپے کے اِس مقام پہ شاید یہی کچھ نصیب ہوتا ہے ۔۔۔ اَذان کے بعد بوڑھے باپ نے بچّے کی پیشانی پہ ہلکا سا بوسہ دے کر، ماں کو پوتا تھما دیا۔ ماں کی بجھتی ہوئی مُندھی مُندھی آنکھوں کے کونے بھیگے ہوئے تھے، وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اُس نے آج اِس کے، اِس صابر وشاکر چوتھے بڑے بیٹے کے ہاں تین شادیوں کے بعد اِس عمر میں اولادِ نرینہ عطا کی۔ اُس کی بوڑھی آنکھوں میں تشکّر کے ساتھ کچھ تفکّر بھی نمایاں تھا، شاید وہ یہ سوچ رہی تھی کہ الٰہی! میرا یہ بیٹا اب عمر کی اِس منزل پہ ہے جہاں زندگی کا سفر بس دو چار قدم ہی ہوتا ہے۔ یہ ننھا سا کیڑا کب جسم وجان پکڑے گا، کب بڑا ہو گا؟ اِس کا بوڑھا باپ اِس کی جوانی، خوشیاں، شادی، کمائی دیکھے گا ۔۔۔ عورتیں جوان ہوں یا بوڑھی، وہ اپنی اولاد کے بارے میں یہی کچھ سوچتی رہتی ہیں۔ وہ بوڑھی بھی اپنے بوڑھے بیٹے اور اِس کے آگے اِس کے نومولود بیٹے کے بارے میں شاید یہی کچھ سوچ رہی تھی۔ اِسے یوں گم پا کر بیٹے نے پوچھا: ’’بے بے! کیا سوچ رہی ہو۔۔۔؟‘‘
_MG_6752
’’وہ اِک نظر اپنے بیٹے اور پھر اپنے پوتے کو دیکھتے ہوئے بولی: ’’اللہ سوہنے کے رنگ دیکھ کر سوچ رہی ہوں کہ کب یہ تیرا بیٹا بڑا ہو گا، جوان ہو گا، تجھے اِس کی خوشیاں دیکھنی نصیب ہوں گی اور کب تُو اِس کی کمائی کھائے گا؟۔۔۔ اللہ نے تجھے اولاد کی خوشی بھی اِس وقت دِکھائی ہے جب کہ تو خود۔۔۔‘‘
بیٹے نے ماں کی بات کو اَدھورا رکھنے کی خاطر اِس کے پوپلے منہ پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ محلے کی مسجد سے درودپاک کا وِرد بلند ہوا۔ اِس مردِتسلیم ورضا نے درود شریف پڑھ کر بچّے کے چہرے پر پھونکا اور پھر اِک نظر اِس کے نحیف وکمزور سراپے پہ ڈالتے ہوئے اُوپر آسمان کی جانب، اِس زبردست قوّت واختیار اور قدرت وحکمت والے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’’بے بے جی! جس مالک وخالق نے مجھے یہ انعام بخشا ہے وہ اِس کی پرورش، صحت، زندگی اور میری عمر اور بڑھاپے کے بارے میں بھی بہتر جانتا ہے اور خوب اچھے فیصلے کرنے والا ہے۔ آپ جسے کمزور سا کیڑا کہہ رہی ہیں اور جس کی سلامتی اور زندگی کے بارے میں پریشان دِکھائی دے رہی ہیں تو ان شاء اللہ میں اِس محمد یحییٰ خان کے کندھوں پہ سوار ہو کر، اللہ کے گھر کے گِرد چکر لگاؤں گا، دُنیا گھوموں گا، زیارتیں کروں گا۔ اِس کی ایک نہیں بلکہ کئی شادیاں کروں گا تاکہ یہ کثیرالاعیال ہو۔ اِس کی اولاد میری کمر پہ سوار ہو گی، اِس کے سر میں چاندی کا بال میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔۔۔‘‘
یہ اس کہانی کا خلاصہ ہے جو بابا محمد یحییٰ خان نے اپنے پیدائش کے حوالے سے خود بیان کی ہے تاکہ قارئین پوری صحت کے ساتھ یہ واقعہ پڑھ سکیں ۔ ہم نے اس کے الفاظ میں بہت کم تبدیلی کی ہے۔
دراصل ہمارا مطالبہ تو یہی تھا کہ وہ خود یہ کہانی سُنائیں لیکن بابا جی کا موڈ یہی تھا کہ ان کی کہانی اس کتاب ’’پیارنگ کالا‘‘ سے لی جائے تاکہ ان کے طرز تحریرسے بھی واقفیت ہو جائے۔
قارئین آپ یقیناًبابا جی کی پیدائش کا یہ واقعہ سُن کر حیران ہوں گے لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ بابا یحییٰ خاں اپنے جاننے، ملنے اور چاہنے والوں کو حیران کرنے کا مشغلہ اپنی پیدائش ہی سے جاری کیے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ہوش سنبھالا تو والدین کو اپنی آوارگیوں اور سیلانی طبیعت کے حوالے سے حیران بلکہ پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ان کی طبیعت کی بے چینی اور سیمابی پن ہرگز ختم نہ ہوتا اگر انہیں ’’چاچاکُکڑ‘‘ نہ ملتا۔ چاچے کے ساتھ تو انہوں نے ’’کیمیاگری‘‘ کا ایڈونچر کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن چاچے کی پہلی بیوی سانپ سُونگھ کر زمین کا حصہ بن گئی تو چچا کُکڑ اپنے مُرشد کے حکم سے نئی بیوی لے آیا ۔۔۔ بس یہیں سے آٹھویں جماعت میں پڑھنے والے یحییٰ خان کا اصل سفر شروع ہوا۔ چاچے کُکڑ کی بیوی ہرگز کوئی عام عورت نہیں تھی۔ اس نے جہاں اپنے شوہر کو کیمیاگری کے منحوس چکر سے نکالا، وہیں منتشر یحییٰ خان کو معرفت کی سیڑھی پر مضبوط قدم رکھنے میں مدد دی۔ اس کے سوالوں میں نامعلوم کو معلوم بنانے اور روحانی تشنگی کو دیکھتے ہوئے ’’کاگا‘‘ کا خطاب دیا۔
بابا یحییٰ جب یہ بیان کر رہے تھے تو ہم نے پوچھا: کاگا ہی کیوں؟ کوا کیوں نہیں کہا آپ کو ۔۔۔ کیا بندوں کے نام جانوروں پر رکھنے میں کوئی حکمت، کوئی وجہ بھی ہوتی ہے؟
_MG_6719
’’کیوں نہیں، یہ ہنر میں نے چاچی ہی سے سیکھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ ہر انسان کے ساتھ اس کا جانور ہوتا ہے اور میں اسی عمر میں اس ’’جانور‘‘ کو دیکھنے کے قابل ہو گیا تھا۔ مجھے کبھی کسی کے ساتھ گیدڑ نظر آتا تو کبھی کسی کے پہلو میں بیل ۔ اور یہ چاچا ککڑ کا نام بھی اسی زمرے کی چیز تھا، یہ جانور اس کی اصل شخصیت کی نشان دہی کرتا ہے اور جانوروں کی خاصیت بھی وہ نہیں ہوتی جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ اب ’’کاگا‘‘ ہی کو لے لو ۔۔۔ کاگا، کوا نہیں ہو سکتا اور کوا، کاگا نہیں ۔۔۔ کوا تو لالچی ہے، بھوکا ہے، بھوک کے لیے منڈیر منڈیر، منڈلاتا ہے لیکن کاگا، وہ تو’’ کیا؟ کیا ؟؟‘‘کرتا ہے، پوچھتا رہتا ہے، گویا آدھے علم کا مالک ہوتا ہے، بتانے والا ’’جانو‘‘ ہو تو خود بھی ’’جانو‘‘ ہو جاتا ہے‘‘۔
ہمیں یہ تو معلوم تھا ہی کہ بابا جی صوفی بھی ہیں اور بہت نامی گرامی مصنف بھی لیکن یہ ان کی باتوں سے معلوم ہوا کہ اُنہوں نے دُنیا کا ہر فن سیکھا اور برتا۔ شوبز سے لے کر کیمیاگری تک ۔۔۔ ہر وادی قطع کی لیکن ہمارے خیال میں انہیں بطور مصنف سب سے زیادہ پذیرائی ملی، اسی لیے پوچھا کہ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟
جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ انہیں اشفاق احمد نے پاکستان بلایا اور کہا کہ لکھو، چھاپنے والے تمہارے پاس خود آئیں گے اور پھر یہی ہوا۔ میری ان کتا بوں کی پسندیدگی کا یہ عالم ہوا کہ ان کو انسانوں ہی نے نہیں جنات نے بھی پڑھا ۔۔۔ ہم نے حیرت سے دیکھا تو اُنھوں نے ممتاز مفتی کے بیٹے عکسی مفتی سے ملاقات کا قصہ سُنایا۔ کہنے لگے: میں اپنی کتاب لے کر اس کے پاس پہنچا۔ اسے ایک انوکھی فرمایش کر ڈ الی، اس کے بعد کیا ہوا، ممتاز مفتی ’’ سپیشلسٹ‘‘ ابدال بیلا کے الفاظ میں سُنیے:
’’اِس کتاب پر ممتاز مُفتی سے کچھ سطریں لکھوا دیں‘‘۔ عکسی مُفتی، بابا محمد یحییٰ خان کی بات سُن کر مسکراتا مسکراتا رُک گیا۔ حیرت سے آنکھیں پھیلائے بابا محمد یحییٰ خان کو دیکھتے ہوئے زیرِلب بولا:محمد یحییٰ خان! ممتاز مُفتی کو گئے تو بارہ سال ہو گئے ہیں، تم اب اُن سے کچھ لکھوانے آئے ہو!‘‘
بابا محمد یحییٰ خان، عکسی مُفتی کی حیرت زدہ آنکھوں میں اپنی بے نیازی کی پچکاری مارتے ہوئے مسکرا کر بولا: عکسی جی! یہاں جسموں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں ممتاز مُفتی کے قلم سے کچھ لکھوانے آیا ہوں۔ میں جانتا ہوں بندے کا جسم مرتا ہے، اِس کا قلم نہیں۔ خُدا سے عطا ہوئے قلم کو موت نہیں آتی۔ وہ زندہ اور قائم رہتا ہے۔ اِس لیے کہ اِس قلم نے خُدا کی عظمت اور اُس کے رسولؐ کی بڑائی بیان کی ہوئی ہوتی ہے۔ اِس نے اپنے قلم سے اپنی ’’میں‘‘ میں ہوا نہیں بھری ہوتی۔ اپنی ’’میں‘‘ کے غبارے میں سُوئیاں ماری ہوتی ہیں۔ دیکھنے میں وہ چُڑمُڑ ہوا، چھیچھڑا بنا، بے ہوا کا غبارہ ہوتا ہے مگر ہوتا وہی قائم اور زمین سے بندھا ہوا ہے۔ اِسے اندر یا باہر کی کوئی بھی آندھی بے وزن بنا کر اُڑا نہیں سکتی۔ آپ مجھے اُن کے بارہ سال پہلے چلے جانے کی خبر نہ سُنائیں، اِس کا پتا بتائیں جس کے ہاتھ میں وہ اپنا قلم دے کر گئے ہیں۔ عکسی مُفتی کچھ دیر کھڑا بابا محمد یحییٰ خان کو ایسے دیکھتا رہا، جیسے اِس کے سامنے بندہ نہیں کوئی جن کھڑا ہو۔ عکسی مُفتی سمجھ گیا جو اِس کے رُوبُرو کھڑا ہے، اُسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ اُس نے جیب سے اپنا موبائل فون نکالا اور مجھے ڈائل کر کے کہنے لگا: ابدال! تیرے بابے کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا ایک بابا آیا ہے ۔۔۔ اِسے آتے آتے کچھ دیر ہو گئی ہے۔ بارہ سال بعد آ کے اُس نے اِدھر دستک دی ہے۔ اب تُو دروازہ کھول ۔۔۔ ’’پِیا رنگ کالا‘‘ تجھے بھیج رہا ہوں، تُو اِسے اپنے بابے کو پڑھا اور اُن سے کچھ سطریں لکھوا کے مجھے فیکس کر دے۔‘‘
میرا فیوز اُڑ گیا ۔۔۔ یہ کون میرے بابے کو نیند سے جھنجھوڑنے آگیا ہے۔ بارہ سال بعد اُن کی وفات کے اُنہیں اپنی کتاب پڑھانے، اُن کے تاثّرات لکھوانے کی ضِد پال لی ہے۔
کتاب مجھے مل گئی۔ میں اپنے بابے کو اَوڑھ کے اِسے پڑھنے بیٹھ گیا۔ چند صفحے پڑھے ہوں گے کہ میں زمین اور آسمان کے درمیان کہیں معلّق ہو گیا۔ اپنے بابے ممتاز مُفتی سے کہنے لگا: شکر کریں آپ رُخصت ہو چکے ہیں ۔۔۔ ورنہ آج رُخصتی ہو گئی ہوتی۔ اِدھر میرے ساتھ زمین پر بیٹھے ہوتے تو میری طرح ہوا میں ناچتے۔
وہ مسکرا کر بولے: ’’کملے! یہ کتاب لکھے جانے کا مقصد سمجھ۔ یہ لکھی گئی ہی پَر بانٹنے کے لیے ہیں اور پَر تو صرف بے وزن، لطیف رُوحوں کے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ رُوحیں اپنے اپنے جسم کے اندر ہوں یا باہر۔ رُوح کہانی ہر زندہ رُوح کے پڑھنے کی چیز ہے‘‘۔ دیکھ! اِس کی داستان طرازی، کہانی کے اندر رکھی کہانیاں، سفر پہ نکلے مسافر کی مسافتوں کے سارے سفر ۔۔۔ وہ سفر بھی جو ابھی طے نہ ہوئے ہوں۔ وہ مسافتیں بھی جن پہ ابھی نکلنا ہو۔ زندگی کی کھٹی میٹھی سَت رنگی اَن کہیاں، انوکھے قِصّے، بیتیوں کی بِپتا، کچھ آپ بیتیاں کچھ جگ کی، پُراسرار دُنیا، تَصوّف کے بھید، طلسمات، مکاشفات اور کرامات کی نان سٹاپ چاند ماری۔ طِلسمِ ہوش ربا کا دَرویش ایڈیشن۔۔۔!‘‘
_MG_6702
سچی بات تو یہ ہے کہ بابا یحییٰ کی کتابوں پر اس سے زیادہ اچھا تبصرہ نہیں ہو سکتا۔ اور اس قصے کو جاننے کے بعد ہمارے اندر یہ پوچھنے کی بھی ہمت نہ رہی کہ ابابا جی آپ کی کتابیں جنات کیسے پڑھتے ہیں ،کیا وہ اسے خرید کر پڑھتے ہیں یا آپ انہیں تحفے میں دیتے ہیں یا آپ کی کتابوں کے کوئی سپیشل ’’ جنات ایڈیشن ‘‘ بھی کوہ قاف سے شائع ہوتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں خود یہ سارے سوال سطحی اور عامیانہ لگے ۔ کیونکہ جنات پر حیران ہونا چھوٹاپڑ گیا تھا کیونکہ بابا جی نے تو ’’آنجہانی ‘‘ ہو جانے والوں کو بھی اپنی کتاب پڑھا ڈالی تھی ، جنات کس کھیت کی مولی ہیں! اس موقع پر ہم نے اپنے سوالوں کی ’’عامیانہ ‘‘ فہرست کو ایک طرف رکھا ۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم کتاب نہیں بلکہ صاحب کتاب سے ملنے آئے تھے۔ اس لیے کچھ نئے سوال کیے جن کا یہاں بیان کیا جانا قطعی مناسب نہیں ۔ تاہم ایک سوال آپ سے ضرور ’’شیئر ‘‘ کیا جا سکتا ہے ۔ ہم نے پوچھا تھا :
’’بابا جی، جب آپ کعبہ کا دیدار کرنے گئے تھے تو وہاں کیا پڑھا تھا؟‘‘( بابا جی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ قریباً ساری دنیاگھوم چکے ہیں اورگھومتے رہتے ہیں ، ابھی پچھلے دنوں وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ گئے تھے۔)
بولے: ’’مجھ سے لوگ اکثر کوئی وظیفہ پوچھتے ہیں، پر میں نے آج تک کسی کو کوئی وظیفہ نہیں بتایا لیکن جب میں کعبہ گیا تو نہ جانے کیوں میں نے وہاں سوائے تیسرے کلمے کے کچھ اور نہیں پڑھا ۔۔۔ اور ایسا شعوری طور پر نہیں ہوا، بس میں نے اپنے آپ کو یہی کلمہ پڑھتے ہوئے پایا ۔۔۔ اب یہ نہ پوچھنا کہ تیسرا کلمہ کیا ہے‘‘۔
آپ بھی نہ پوچھیں کہ تیسرا کلمہ کیا ہوتا ہے، بس یاد کیجیے اور پڑھیے، سمجھ کر پڑھیے، آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ تیسرا کلمہ ہی کیوں؟ رہے بابا یحییٰ اور ان کی مزید باتیں تو بہتر تو یہی ہے کہ پہلے ’’پیا رنگ کالا‘‘ پڑھیں، یقیناًجی نہیں بھرے گا تو ’’کالا کوٹھا‘‘ بھی چاٹ جائیں ۔۔۔ ہمیں یقین ہے کہ تجسس کے مارے اور پُراسراریت کی تلاش میں ان کی تیسری، چوتھی اور پانچویں کتاب بھی پڑھنا پڑے گی!

Saturday, April 11, 2015

حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا

حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یا سر کی والدہ اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں۔ یہ اور ان کا خاندان اولین اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہے جن کا مرتبہ نہایت بلند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر ہے۔ کافروں نے آپ رضی اللہ عنہا کے خاندان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر اور آپ کو اسلام ترک کرنے کے لئے کہا جاتا، ایسا نہ کرنے پر ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں۔ان کو مکہ میں جلتی اور تپتی ریت پر لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا خاندان خاندانِ مغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار تھا۔
 
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے پرستاروں کو اس حال میں دیکھتے تو ان کو صبر کی تلقین فرماتے اور کہتے کہ اس کے عوض تمہارے لئے جنت ہے۔ تکالیف کے دن اسی طرح چلتے رہے، راتوں کو بھی کافر اذیت دینے سے نہ چوکتے ۔ ایک دن ابو جہل نے ظلم وستم کی انتہا کر دی اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ار ان کے شوہر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو بے رحمی سے شہید کر دیا ۔ ابوجہل نے ان کو نیزہ مار کر شہید کیا۔آپ رضی اللہ عنہا اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں۔
 
حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر کو اپنی والدہ کی شہادت کا بہت رنج ہوا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عماررضی اللہ عنہ کو صبر کی تلقین فرمائی اور دعا کی کہ اے اللہ ! آلِ یاسر کو روزخ کی آگ سے بچا۔
غزوہ بدر میں ابو جہل ہلاک ہوا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔”دیکھو تمہاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کر دیا۔“
 
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اولین مسلمانوں میں تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے بے شمار تکالیف برداشت کیں لیکن اپنا مذہب نہ چھوڑا۔ آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے مذہب کی حقانیت پر کامل یقین تھا۔ اسلام ایسی ہی قربانیوں سے پھلا پھولا ۔

 

Saturday, April 4, 2015

کلونجی کے فوائد اورشفائی تاثیر

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ کلونجی میں موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے ۔  سنن ابن ماجہ 3884

کلونجی ایک قسم کی گھاس کابیج ہے۔اس کا پودا سونف سے مشابہ، خودرو اور چالیس سینٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔ پھول زردی مائل،بیجوں کا رنگ سیاہ اور شکل پیاز کے بیجوں سے ملتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انہیں پیاز کا ہی بیج سمجھتے ہیں۔ کلونجی کے بیجوں کی شفائی تاثیر سات سال تک قائم رہتی ہے۔صحیح کلونجی کی پہچان یہ ہے کہ اگر اسے سفید کاغذ میں لپیٹ کر رکھیں تو اس پر چکنائی کے داغ دھبے لگ جاتے ہیں۔کلونجی کے بیج خوشبو دار اور ذائقے کے لئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اچار اور چٹنی میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے تکونے سیاہ بیج کلونجی ہی کے ہوتے ہیں جو اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتے ہیں۔یہ سریع الاثر یعنی بہت جلد اثر کرنے والے ہوتے ہیں۔

اطبائے قدیم کلونجی اور اس کے بیجوں کے استعمال سے خوف واقف تھے۔ تاریخ میں رومی ان کا استعمال کرتے تھے۔قدیم یونانی اور عرب حکماء نے کلونجی کو روم ہی سے حاصل کیا اور پھر یہ پوری دنیا میں کاشت اور استعمال ہونے لگی ۔ کلونجی گرم اور سرد دونوں طرح کے امراض میں مفید ہے۔کلونجی نظام ہضم کی اصلاح کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ لوگ جن کو کھانے کے بعد پیٹ میں بھاری پن، گیس یا ریاح سے بھر جانے اور اپھارے کی شکایت محسوس ہوتی ہے وہ کلونجی کا سفوف تین گرام کھانے کے بعد استعمال کریں تو نہ صرف یہ شکایت جاتی رہے گی بلکہ معدے کی اصلاح بھی ہوگی۔

کلونجی کو سر کے کے ساتھ ملا کرکھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں ۔ سردیوں کے موسم میں جب تھوڑی سی سردی لگنے سے زکام ہونے لگتا ہے تو ایسی صورت میں کلونجی کو بھون کر باریک پیس لیں اور کپڑے کی پوٹلی بنا کر بار بار سونگھیں اس سے زکام دور ہو جاتا ہے۔اگر چھینکیں آرہی ہوں تو کلونجی بھون کر باریک پیس کر روغن زیتون میں ملا کر اس کے تین چار قطرے ناک میں ٹپکانے سے چھینکیں جاتی رہیں گی۔کلونجی پیشاب آور بھی ہے۔ اس کا جوشاندہ شہد میں ملا کر پینے سے گردے اور مثانے کی پتھری بھی خارج ہوجاتی ہے۔
اگر دانتوں میں ٹھنڈا پانی لگنے کی شکایت ہو تو کلونجی کو سرکے میں جوش دے کر کلیاں کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔چہرے کی رنگت میں نکھار اور جلد صاف کرنے کے لئے کلونجی کو باریک پیس کر گھی میں ملا کر چہرے پر لیپ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ ا گر روغن زیتون میں ملا کراستعمال کیا جائے تو او ر زیادہ فائدہ ہوتا ہے ۔ آج کل نوجوان لڑکیوں میں کیل، دانوں اور مہاسوں کی شکایت عام ہیں۔ اس کے لئے کلونجی باریک پیس کر، سرکے میں ملا کر سونے سے پہلے چہرے پر لیپ کریں اور صبح دھولیا کریں۔ چند دنوں میں بڑے اچھے اثرات سامنے آئیں گے اس طرح لیپ کرنے سے نہ صرف چہرے کی رنگت صاف و شفاف ہوگی اور مہاسے ختم ہوں گی بلکہ جلد میں نکھار بھی آجائے گا۔

جلدی امراض میں کلونجی کا استعمال عام ہے۔ جلد پر زخم ہونے کی صورت میں کلونجی کو توے پر بھون کر روغن مہندی میں ملا کر لگانے سے نہ صرف زخم مندمل ہو جاتے ہیں بلکہ نشان دھبے بھی چلے جاتے ہیں۔ جن خواتین کو دودھ کم آنے کی شکایت ہو اور ان کا بچہ بھوکا رہ جاتا ہو وہ کلونجی کے چھ سات دانے صبح نہار منہ اور رات سونے سے قبل دودھ کے ساتھ استعمال کرلیا کریں ۔ اس سے ان کے دودھ کی مقدارمیں اضافہ ہو جائے گا البتہ حاملہ خواتین کو کلونجی کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

Wednesday, April 1, 2015

حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا

”اے میرے مالک اگر میں دوزخ کے ڈر سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے دوذخ میں پھینک دے۔ اگر میں جنت کی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے جنت سے محروم کر دے لیکن اگر میں صرف تیر ی ہی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھ کو تو اپنے دیدارسے محروم نہ کرے۔“
 
مندرجہ بالا بیان کردہ دعا سے آپ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کی اپنے رب سے محبت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔عالم اسلام کی اس نامور خاتون کو اپنے اور اپنے خالق کے درمیان کسی قسم کے لالچ یا خوف کی موجودگی گوارانہ تھی۔ اس سے آپ ان کی عظمت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کا شمار دوسری صدی ہجری کی شہرہ آفاق عارفات میں ہوتا ہے۔ آپ دو روایات کے مطابق 95 ہجری یا 99 ہجری میں عراق کے شہر بصرہ کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئیں۔آپ کے والد کا نام اسماعیل تھا۔ آپ اپنے والد کی چوتھی بیٹی تھیں۔ اسی لئے ان کا نام رابعہ مشہور ہو گیا۔ ابھی وہ لم سنی میں تھیں کہ کسی بردہ فروش نے ان کو اغوا کرکے غلامو ں کی منڈی میں فروخت کر دیا۔ غلامی کی حالت میں ہی آپ پلی بڑھیں۔ اپنے مالک کے گھر کام کرنے کے بعد باقی وقت میں وہ اپنے اللہ کی عبادت کرتیں۔ ان کے مالک نے ان کے عبادت و ریاضت میں شغف دیکھ کر ان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کر یا۔

غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آپ نے صحرا میں قیام کیا اور اپنی عبادت کا سلسلہ جاری رکھا۔یہیں پر آپ نے معرفت کی وہ منزلیں طے کیں کہ جن کے بعد ان کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ آپ نے صحرا میں کافی عرصہ تک رہائش رکھی اور پھر اس کے بعد آپ بصرہ آگئیں۔
تاریخ میں اگرچہ ان کے علم وفضل کے بارے میں بے شمار روایات ہیں۔ مختلف مورخین اور دیگر افراد نے ان کے حالات زندگی تفصیل سے تحریر کئے ہیں لیکن ان میں تضادات ہیں۔بہر حال یہ بات تاریخ سے معلوم نہیں ہوتی کہ ان کی تعلیم و تریبت کہاں ہوئی ؟ کیا ان کو دورِ غلامی میں تعلیم کے مواقع ملے تھے یا انہوں نے صحرا میں قیام کے دوران علم وفضل سے فیض حاصل کیا ؟ ان کا استاد کون تھا؟ انہوں نے پردہ بڑھاپے میںآ کر ترک کیا یا وہ جوانی میں ہی پردہ میں رہ کر مردوں کے سے کام کیا کرتی تھیں؟
آپ نے صحرا سے بصرہ آنے کے بعد تمام عمر وہیں گزاری۔ بصرہ میں بھی آپ نے اپنی عبادت و ریاضت نہ چھوڑی اور جلد ہی ان کے علم وفضل کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اس وقت بصرہ میں اس دور کے ہر لحاظ سے بڑے عالم قیام کرتے ہیں ۔ بصرہ ایک تجارتی بندرگاہ بھی تھااور صوبائی دارالحکومت بھی ۔ اس لئے یہاں پر معززین قیام کرتے تھے۔ بہرحال جب ان کے زہد وتقویٰ اور علم و فضل کی دھوم مچی تو ان سے فیض اٹھانے کے لئے لوگ جوق درجوق ان کے پاس حاضری دینے لگے۔ ان کے پاس آنے والے افراد میں عام افراد سے لے کر بڑے بڑے نامور عالم بھی تھے جس میں امام سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔

کچھ افراد کاکہنا ہے کہ آپ کے پاس خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ بھی تشریف لایا کرتے تھے لیکن حضرت خواجہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کہ وقت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔
حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کے حوالے سے بے شمار روایات موجود ہیں۔آپ سید امیر علی کے مطابق 135 ہجری میں خالق حقیقی سے جاملیں۔ آپ جبل الطہر جو کہ بیت المقدس کے مشرق میں واقع ہے ، وہاں دفن ہوئیں۔ دوسری طرف ایک اور روایت کے مطابق 185 ہجری میں فوت ہوئیں اور بصرہ میں دفن ہوئیں۔