Tuesday, November 10, 2015

علم کی تعریف (حقیقی علم کس کو کہتے ہیں؟)

:فنی اعتبار سے علم کا مادہ ’’ع ل م،، ہے جس کے معنی ’’جاننا،، کے ہیں گویا

اَلْعِلْمُ اِدْرَاکُ الشَّيئِ بِحَقِيْقَتِه
’’علم کسی شے کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینے کا نام ہے۔،،

یعنی علم ایک ایسا ذہنی قضیہ اور تصور ہے جو عالم خارج میں موجود کسی حقیقت کو جان لینے سے عبارت ہے۔ علم کا اطلاق ایسے قضیے پر ہوتا ہے جو محکوم اور محکوم بہ پر مشتمل ہو اور جس کے متوازی خارج میں ایسی ہی حقیقت موجود ہو جیسی قضیے میں بیان ہوئی ہو، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر قضیہ علم نہیں ہو سکتا، وہی قضیہ علم کہلائے گا جو کلی اور وجوبی ہو اور موجود خارج کے حوالے سے صحت کا مصداق ہو۔

ارکان علم

مندرجہ بالا تعریف کے مطابق علم کے ارکان کی تعداد چار ہے۔

:ناظر

جو شخص علم کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ناظر کہلاتا ہے۔ یہ امتیاز اور درجہ اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان کو حاصل ہے۔ اسے معروف اصطلاح میں طالب علم بھی کہتے ہیں، یعنی کچھ جاننے کی جستجو میں رہنے والا طالب علم کہلاتا ہے۔ علم ایک بحر بیکراں ہے۔ کوئی شخص کلی علم حاصل کر لینے کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ علم کا طالب جب کچھ نہ کچھ جان لے تو اسے عالم کہا جا سکتا ہے۔

: منظور

منظور وہ شے ہے جسے جانا جا رہا ہو۔ اس سے مراد کوئی حقیقت ہوسکتی ہے، خواہ یہ عقلی وجود رکھتی ہو یا حسی۔ یہ کائنات رنگ و بو اور اس کے مادی اور غیر مادی موجودات و حقائق منظور کا درجہ رکھتے ہیں۔

:استعداد نظر 

اس سے مراد یہ ہے کہ ناظر جو مشاہدہ کر رہا ہے اس میں کسی چیز کو جاننے کی صلاحیت اور اور استعداد کس قدر موجود ہے۔ علم کا یہ تیسرا رکن ہے۔ اگر منظور (وہ حقیقت جس کے بارے میں جانا جا رہا ہو) حسی نوعیت کی ہو تو ناظر کو حواس خمسہ کی استعداد حاصل ہونی چاہئے تاکہ وہ حواس خمسہ سے اس چیز کو اپنے حیطہ ادراک میں لے سکے۔ اس کے برعکس اگر منظورعقلی نوعیت کا ہو تو ناظر میں استعداد عقلی کا ہونا ضروری ہے۔ اس استعداد کے بغیر عقلی نوعیت کے کا حیطہ ادراک میں آنا ممکن نہیں۔ اگر منظورایسا ہو کہ اس کے لئے وجدان ضروری ہے تو ناظر کو بھی ایسی ہی وجدانی استعداد کا حامل ہونا چاہئے۔ ان صلاحیتوں سے بالاتر بھی ایک استعداد وحی کی ہے جو صرف اور صرف انبیاء کا خاصہ ہے۔ عام آدمی کا اس استعداد سے بہرہ ور ہونا ممکن ہی نہیں یہ صلاحیت کلی طور پر عطائی ہے جو اللہ رب العزت کے انبیاء اور رسولوں سے مختص ہے۔

: منظوریت 

علم کے ارکان میں چوتھا اور آخری رکن منظوریت ہے۔ اس سے مراد وہ اصلیت اور مقصدیت ہے جسے جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کے لئے لازم ہے کہ وہ اس قابل ہو کہ ناظر کی کسی بھی مخصوص استعداد سے معلوم ہو سکے۔

  تصور علم سورہ علق کی روشنی میں 

علم کی تعریف اور اس کے ارکان کی تشریح و توضیح کے بعد اب ہم سورہ علق کی پہلی پانچ آیات کی تفہیم کی روشنی میں اسلام کے تصور علم کو واضح کرتے ہیں۔ 

١٧ مضان المبارک کو غار حرا کی خلوتوں میں جب جبرئیل امین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو وحی کے ذریعہ اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان الفاظ میں ہمکلام ہوا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ- خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ- اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ- عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
اے حبیب! اپنے رب کے نام سے آغاز کرتے ہوئے پڑھئے جس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اس نے انسان کو رحمِ مادر میں جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے لکھنے پڑھنے کا علم سکھایا جس نے انسان کو اس کے علاوہ بھی وہ کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ یا:- جس نے سب سے بلند رتبہ انسان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر ذریعہ قلم کے وہ سارا علم عطا فرما دیا جو وہ پہلے نہ جانتے تھے
 (العلق، 96 : 1 - 5)

یہ وہ پانچ آیات مقدسہ ہیں جن میں علم کا پیغام دے کر نازل کیا گیا۔ گویا انسان کچھ نہیں جانتا تھا اسے علم عطا کیا گیا، وہ جاننے لگا، اسے اندھیروں سے اجالوں کے دامن میں لایا گیا۔ اسے روشنی عطا کی گئی، علم و آگہی روشنی کے سفر کا نام ہے۔ مذکورہ بالا آیات کے ذریعہ رب کائنات نے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے نسل آدم کو باقاعدہ ایک سلسلہ تعلیم سے منسلک کر دیا۔ ذہن انسانی میں شعور و آگہی کے ان گنت چراغ روشن کئے۔ گویا تاریخ اسلام میں سب سے پہلا سکول غار حرا کی خلوتوں میں قائم ہوا۔ اس سکول کے واحد طالب علم ہونے کا شرف سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیب ہوا اور استاد و مربی خود خالق کائنات ٹھہرے۔
 
 

Sunday, August 2, 2015

وہ نعمت جس کا کوئی بدل نہیں

والدین اﷲ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اولاد کی آنکھوں کی ٹھنڈک باعث سکون و راحت ہے۔ غموں کا مداوا ہے، سرمایہ حیات بھی ہے اور سرمایہ آخرت بھی ہے۔ والدین کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جابجا ایسے مقامات ہیں جہاں عقیدہ توحید، ایمانیات، اطاعت الٰہی عزوجل اور اطاعت رسولﷺ کے ذکر کے فورا بعد کسی اور موضوع کو درمیان میں لائے بغیر جس موضوع کو بیان کیا گیا وہ والدین کے حقوق سے متعلق ہے، جو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو ہماری عملی، سماجی اور معاشرتی زندگی کا اولین عنوان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا تعلق انسان سے ہے اور انسانی زندگی کا آغاز ماں باپ سے ہوتا ہے۔ یعنی خاندانی زندگی کی عمارت عائلی نظام میں ماں باپ پر استوار ہوتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔
واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اﷲ وبالوالدین احسانا
اور (یاد کرو) جب ہم نے اولاد یعقوب سے پختہ عہد لیا کہ اﷲ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
یہاں اس امر کی صراحت ضروری ہے کہ حکم اوراس کی یہی ترتیب حضرت آدم علیہ السلام کی امت سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کی امت تک جاری و ساری رہی ہے۔ تمام بنی نوع انسان کو یہی تلقین کی جاتی رہی ہے کہ تمہاری جبین نیاز سوائے ذات باری تعالیٰ کے کسی اور کے سامنے نہ جھکے اور اپنے والدین کے ساتھ احسان اور فروتنی سے پیش آئو۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم، تاکید کے ساتھ ہر دور میں ہر نبی کی امت کو دی گئی اور یہ حکم آج بھی ہمیشہ کی طرح امت محمدیﷺ کے لئے مفروض الاطاعت ہے۔
والدین
سورۃ الاسراء میں والدین سے نیکی اور بھلائی کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا گیا۔
اما یبلغن عندک الکبر احدہما او کلہما فلا تقل لہما اف ولا تنہرہما وقل لہما قولا کریما O واخفض لہما جناح الذل من الرحمہ وقل رب الرحمہا کما ربیٰنی صغیرا
ترجمہ: اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزوانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (بارگاہ خداوندی) میں عرض کرتے رہو۔ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اگر والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں اف تک کا کلمہ کہنے کی بھی ممانعت ہے۔ اگرچہ تمہیں ان کی بات اچھی لگے یا نہ لگے۔ اگرچہ تمہاری طبیعت کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ خبردار! تمہاری زبان سے ان کے لئے اف تک نہ نکلے۔
اف تک نہ کہنا کا یہ معنی ہے کہ تمہاری زبانیں تمہارے والدین کے بارے میں اس حدتک بند ہوجائیں کہ ان کی پوشیدہ و ظاہری بات پر کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ ہونے پائیں۔ اور قرآن مجید کے اس لفظ ’’اف‘‘ نہ کہنے پر غور کیا کہ ایسا کیوں فرمایا گیا؟ یہ بات اس لئے کہی گئی کہ جب کوئی اولاد اف کہتی ہے کہ والدین یا دونوں میںسے کوئی ضعیف العمر کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔
یہ دو آیات مبارکہ جس طرف اشارہ کررہی ہیںکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ والدین سے حسن سلوک کرتے ہوئے اپنی زبان سے اف بھی نہ کہو اور کبھی سخت لہجہ میں بات نہ کہی جائے کہ جوکہ والدین کریمین کی دل آزاری کا باعث بنے۔ اﷲ کے احکام سے ہمیں یہ تربیت ملتی ہے کہ اپنے والدین کا بڑھاپے میں خاص خیال رکھے اور اس دور میں ان سے نیکی اور بھلائی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔ یہ بڑی آزمائش اور صبر کا امتحان ہے۔
والدین کے حقوق کے سلسلہ میں بے شمار احادیث مبارکہ ہیں جیساکہ حدیث شریف میں ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ منبر اقدس پر جلوہ افروز ہوئے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ ’’آمین آمین آمین‘‘ کسی نے دریافت کیا یا رسول اﷲﷺ!آپ نے کس چیز پر آمین فرمایا؟ آپ نے ارشاد فرمایا۔ میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام آئے، انہوں نے یہ کہا۔
اے محمدﷺ اس آدمی کی ناک خاک آلود ہوجائے جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک کیا جائے اور وہ شخص آپ پر درود نہ پڑھے۔ آپ اس پر آمین کہیں تو میں نے اس پر آمین کہا۔
پھر انہوں نے کہا، وہ آدمی رسوا ہو جس کے پاس رمضان شریف کا مقدس ماہ آیا تو اس شخص کی بخشش مغفرت نہ ہو تو اس پر بھی آپ نے آمین کہا۔
(تیسرا وہ شخص) رسوا ہو جس نے اپنے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو بھی پایا تو وہ اس کی جنت کا موجب نہ بنے، جبریل علیہ السلام نے کہا اس پر آمین کہو تو میں نے آمین کہا۔
ایک اور مقام پر حضور اقدسﷺ نے فرمایا۔
حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ والد جنت کے دروازوں میں درمیانہ (سب سے بہتر اور اعلیٰ) دروازہ ہے، اب یہ تم پر ہے کہ یا تو اس دروازے کو ضائع کرو یا اس کی حفاظت کرو۔
ان احادیث میں صراحتا فرمایا گیا کہ جو شخص والدین جیسی عظیم نعمت پاکر ان کی قدر اور خدمت کرکے جنت کا سامان مہیا نہ کرسکے۔ وہ انتہائی بدنصیب انسان ہے۔ یہ احکام والدین صرف امت محمدیﷺ پر ہی نہیں بلکہ پچھلی امت میں بھی والدین کی خدمت کرنے کی تاکید آئی ہے جیسا کہ توریت میں ہے۔
حضرت موسیٰ اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کی شریعت میں والدین کے بارے میں احکام
یہ وہ توریت ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ والدین کے حقوق سے متعلق یہاں تک حکم دیا گیا کہ جو والدین کو برا بھلا کہے، گالی گلوچ کرے یا زبان سے ایسا کلمہ کہے جو لعنت پر محمول کیا جاسکے۔
اس کی سزا قتل ہے، والدین کی توہین کی آخرت میں جو سزا ہوتی تھی، وہ سزا تو ہونی ہی تھی اور اس دنیا میں بھی اس جرم کا مرتکب سزا موت کا حق دار ہے۔
یہی حکم حضرت عیسٰی علیہ السلام پر نازل کیا گیا جو کتاب توریت میں بھی موجود تھا، گویا یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت عیسوی کے مطابق والدین کی اہانت اور بے ادبی کی سزا موت تھی۔ اس کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل کے مذہب میں والدین کی بے ادبی کتنا گھنائونا جرم تھا اوراس کے لئے بڑی سے بڑی سزا موت مقرر کی گئی تھی۔
امت محمدی پر کتنا بڑا احسان ہے۔ اگر کوئی نافرمان اولاد اپنے والدین کے ساتھ برا سلوک کرے، انہیں دنیا میں سزائے موت نہیں لیکن وہ آخرت میں عذاب کا مستحق ہے۔اور اگر کوئی شخص اپنے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے۔ انہیں کس قدر انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔
حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہکی اطاعت افروز حکایت
حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اﷲ عنہ جو حضور نبی اکرمﷺ کی ظاہری حیات طیبہ میں اپنی زندگی کے بیس سال گزارنے کے بعد بھی شرف صحابیت سے بہرہ ور نہ ہوسکے۔ وہ عاشق صادق اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ حضور نبی اکرمﷺ کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک انہیں صحابیت کے مرتبے پر فائز کرسکتی ہے جس سے ان کا مقام تابعین سے اونچا ہوجاتا مگر انہوں نے اپنی ضعیف ماں کی خدمت کی خاطر شرف صحابیت سے کو قربان کرنا گوارا کرلیا اور جیتے جی ماں کے قدموں سے دوری اختیار نہ کی۔ ماں کی خدمت گزاری میں بدستور رہنے کا حکم بھی آقائے مولاﷺ کا تھا۔ اس کی تعمیل میں وہ زندگی بھر ماں کی خدمت میں محو رہے اور تادم آخر ماں کی خدمت گزاری کو مرتبہ صحابیت کے حصول پر ترجیح دیتے رہے۔
ایک مرتبہ یہ عاشق زار اپنی ماں کی اجازت سے شوق دید سے سرشار ہوکر اپنے آقاﷺ کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے لیکن ماں کا حکم تھا کہ اگر حضورﷺ گھر میں تشریف فرما ہوں تو مل لینا اور اگر نہ ہوں تو انتظار نہ کرنا واپس پلٹ آنا، اتفاق کی بات تھی کہ جب اویس قرنی رضی اﷲ عنہ در دولت پر پہنچے تو آپﷺ گھر سے دور کہیں تشریف لے جاچکے تھے۔ چنانچہ وہ محبوب کے نام یہ پیغام چھوڑ کر واپس لوٹ آئے کہ آپ کا اویس زیارت کے لئے حاضر ہوا تھا مگر چونکہ ماں کی طرف سے انتظار کرنے کی اجازت نہ تھی، اس لئے بغیر ملاقات کے لوٹ کر جارہا ہے۔
حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ نے جس طرح ماں کی خدمت کا حق ادا کیا وہ تاریخ انسانیت کا وہ نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی نظیر ملنا محال ہے۔ اگر کوئی ہم جیسا کور ذوق اور کوتاہ اندیش ہوتا تو مدینہ طیبہ میں پہنچ کر کچھ عرصہ اور قیام کرلیتا کہ چلو اتنی طویل مسافت طے کرکے پہنچے ہیں۔ دیدار جاناں سے شاد کام ہوکر ہی لوٹتے ہیں، ذرا سوچیئے کہ عاشق اویس قرنی جیسا ہو اور چند لمحوں کے توقف کے بعد دیدار یار بھی میسر آسکتا ہو مگر چونکہ ماں کا حکم تھا کہ اگر نہ ملیں تو بغیر انتظار کے پلٹ آنا، اس لئے حکم کے آگے بغیر چوں چرا سرتسلیم خم کردیا اور واپس چلے آئے۔
اطاعت والدین کے سبب اویس قرنی رضی اﷲ عنہ پر انعام
ماں کی خدمت کے عوض حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کو جو مقام و مرتبہ عطا ہوا۔ اس کا اندازہ بھی ہم جیسے نہیں لگا سکتے۔ اگرچہ انہیں حضور اکرمﷺ کا ظاہری دیدار اور صحبت میسر نہ آئی تھی مگر پھر بھی ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ اپنی صحبت میں رہنے والوں سے اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کے فضائل اور درجات بیان کیا کرتے تھے اور حضور اکرمﷺ اپنے صحابہ کو بتاتے کہ میرے اویس کی علامت یہ ہے کہ اس کے فلاں ہاتھ پر داغ ہے اور اس کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ اس کی دعا سے میرے لاکھوں اُمتیوں کی شفاعت ہوگی۔
آخر میں اس گفتگو کا ماحصل اور لب لباب بیان کرتے ہیں کہ ماں کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اور چیز نہیں اور یہ سارے درجات اور فضیلتیں اسی زینے سے حاصل ہوتی ہیں۔ ماں کی خدمت کا کوئی اور بدل نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے حدیث پاک میں ہے کہ:
الجنۃ تحت اقدام الامہات
جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے
اس لئے ہمیں چاہئے کہ مرتے دم تک والدین کی خدمت میں ہمہ وقت مستعد رہیں۔
آمین بجاہ نبی الامینﷺ

Wednesday, July 22, 2015

حضرت علیؓ کی شاعری


اکثر اسلامی تاریخی روایات کے مطابق حضرت علیؓ کو فن شاعری سے بھی رغبت تھی۔ 1928ء میں آپ ؓ کا دیوان ہندوستان میں، عربی متن اور اردو ترجمہ کے ساتھ پہلی بار شائع ہوا، مترجم مولی سعید احمد اعظم گڑھی تھے۔ "یہ اس عظیم شخصیت کا مجموعہ کلام ہے جسے زبان نبویؐ نے علم کا دروازہ کہا کہا۔ لہٰذا ایسی شخصیت کے کلام کے متعلق کسی رائے کا اظہار سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔" ان الفاظ میں رائے دینے سے اپنی بے کسی کا اظہار ہی وہ عقیدت مندانہ رائے ہے جو قابل تقلید بھی ہے اور ناقابل تردید بھی۔ ذیل میں ہم کلام علیؓ سے منتخب اشعار کا اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

قاضی الحاجات کی درگاہ میں دعا و مناجات
حاضر ہوں حاضر ہوں، توہی میرا مالک ہے ٭ اپنے ناچیز بندہ پر رحم فرما، تو ہی اس کی جائے پناہ ہے اے صاحب بزرگی و بلندی تجھی پر میرا بھروسا ہے٭ اس کی خوش خبری، جس کا تو مالک ہو۔
اس شخص کو خوشخبری جو شرمندہ اور بیدار ہو٭ اپنی مصیبت کی خدا کی درگاہ میں شکایت پیش کرے اس کو کوئی شکایت، کوئی بیماری٭ اپنے مالک کی محبت سے زیاد نہیں۔
جب رات کی تاریکی میں تنہا گڑگڑاتا ہے٭ تو خدا پاک اسکی دعا قبول کرتا، اور اسے لبیک کہتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے بندے تو نے مجھ سے سوال کیا اور تو میری پناہ میں ہے ٭ اور جو کچھ تونے کہا میں نے سنا۔
تیری آواز کے میرے فرشتے مشتاق ہیں٭ پس اس وقت میں نے تیرے گناہ کو بخش دیا۔
بہشت میں اسکی تمام آرزوئیں پوری ہوں گی٭ اس کے لئے خوشخبری اور خوشخبری پر خوشخبری ہے مجھ سے بلاشرم اور خوف کے مانگ٭ اور مجھ سے ڈر! کہ میں تیرا معبود ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرثیہ
کیا پیغمبر خدا صلعم کی تجہیز و تکفین اور کپڑوں میں دفن ہوجانے کے بعد ٭ کسی مرنے والے پر میں غم کرو گا۔
ہم اپنے پیغمبر خدا کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کئے گئے ۔ پس جب تک زندہ رہیں گے اس کے برابر کوئی موت نہیں دیکھ سکتے۔
اور وہ ہمارے یعنی اپنے گھر والوں کے لئے بمنزلہ قلعہ کے تھے ٭ اور ان کے لئے جائے پناہ اور دشمنوں سے جائے حفاظت تھے۔
اور ہم ان کے سامنے رہ کر نور اور ہدایت دیکھتے تھے٭ آپ صبح و شام ہم میں آتے جاتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد ہم کو تاریکی نے گھیر لیا٭ دن ہی میں، جو ظلمت شب سے بھی زیادہ ہے پس اے وہ شخص جو تمام ان لوگوں سے بہتر ہے جو پہلو اور دل رکھتے ہیں ٭ ان تمام مردوں سے بہتر جنگجو خاک اور مٹی نے اپنے نیچے رکھ لیا۔
گویا کہ لوگوں کے کام آپ کے بعد٭ ایسی کشتی میں رکھے گئے ہیں جو دریا کی بلند موجوں میں ہے۔ پس فضائے ارض باوجود کشادہ ہونے کے ان کے لئے تنگ ہوگئی ہے٭ رسول خدا کو گم کرنے کرنے کی وجہ سے جب کہا گیا کہ آپ گذر گئے
تو مسلمانوں پر ایسی مصیبت نازل ہوئی٭ جو مثل پتھر کے شگاف کے ہے اور پتھر کے شگاف کا جڑنا ممکن نہیں
اس مصیبت کے لوگ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے٭ اور جو ہڈی ان کی کمزور ہوگئی ہے ہرگز جوڑی نہیں جاسکتی
اور نماز کے ہر وقت بلال ان کو اٹھاتے ہیں٭ اور جب پکارتے ہیں ان کا نام لے کر پکارتے ہیں۔
لوگ مردہ کی وراثت چاہتے ہیں٭ اور ہم میں نبوت اور ہدایت کی وراثت ہے۔

نورچشم امام حسین ؓ کونصیحت
اے حسینؓ، میں تم کو نصیحت کرتا ہوں اور ادب سکھاتا ہوں٭ پس سمجھو، اس لئے کہ عقلمند وہی شخص ہے جو ادب پذیر ہو۔
اور مہربان باپ کی نصیحت یاد رکھو٭ جو تمہاری آداب سے پرورش کرتا ہے تاکہ تم ہلاک نہ ہوجاؤ اے بچے! روزی کی کفالت کرلی گئی ہے٭ پس جو کچھ طلب کرو، حسن و خوبی سے طلب کرو اپنی کمائی صرف مال نہ قرار دو٭ بلکہ اپنی کمائی خدا کا خوف ٹھہراؤ
خدا ہر مخلوق کی روزی کا ضامن ہے٭ اور مال عاریت ہے اور آنے جانے والی چیز ہے
روزی بلحاظ سبب جس وقت پیدا کی جاتی ہے٭پلکارے سے پہلے انسان کے پاس پہنچ جاتی ہے
اور سیلاب سے اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر پہنچنے٭ اور چڑیوں کے گھونسلوں کی طرف اترنے سے، جس وقت اترتی ہیں، پہلے پہنچ جاتی ہیں۔
اے بیٹے! بیشک قرآن میں نصیحتیں ہیں٭ پس کون اس کی نصیحتوں کو اختیار کرے گا
پوری کوشش سے اللہ کی کتاب کو پڑھو اور تلاوت کرو٭ ان لوگوں میں ہوکر جو اس کو اپنے ذمہ لئے ہوئے ہیں اور کوشش کرتے ہیں
غور و فکر سے، فروتنی کے ساتھ اور حصول تقرب کے خیال سے ٭ اس لئے کہ مقرب وہی شخص ہے جو تقرب حاصل کرتا ہے۔
اخلاص کے ساتھ اپنے اس معبود کی عبادت کرو جو بزرگی والا ہے ٭ جو مثلیں بیان کی جائیں ان کو کان لگا کر سنو!
جب تم اس ڈراؤنی نشانی کے پاس سے گزرو٭ جو عذاب کو ظاہر کرتی ہو تو ٹھہر جاؤ اور آنسو جاری ہوں اے وہ ذات جو اپنے عدل سے جس کو چاہتی ہے عذاب دیتی ہے٭ مجھ کو ان لوگوں میں نہ کر جن کو عذاب دے گا۔
میں اپنی لغزش اور قصور کا اعتراب کرتا ہوں٭ بھاگ کر، اور تیرے ہی پاس بھاگنے کی جگہ ہے جب تم ایسی نشانی سے گزرو جس کے بیان میں ٭ وسیلہ جو بلند تر درجہ جنت ہے اور خوش کن نعمت کا ذکر کرو۔
اپنے معبود سے اخلاص اور توجہ کے ساتھ ٭ جنت کی دعا اس کی طرح مانگو جو تقرب چاہتا ہے
کوشش کرتے رہو شاید تم کو اس زمین پر نزول کا موقع مل جائے ٭ اور ان مقامات کی مسرت حاصل ہو جو ویران نہ ہوں گے
اور ایسی زندگی پا جاؤ جس کے وقت کے لئے انقطاع نہیں ہے٭ اورہمیشہ باقی رہنے والی کرامت کا ملک پاجاؤ
جب نیک کام کا قصد کرو تو اپنی خواہش نفسانی پر سبقت لے جاؤ٭ وسوسوں کے خوف سے، اس لئے کہ وہ آنے جانے والے ہیں
جب برائی کا خیال آئے تو اس سے اپنی آنکھ بند کرلو٭ اور اس کام سے بچو جس سے بچنا چاہیے
اپنے دوست کے لئے منکسر مزا ہوجاؤ اور اس کے لئے٭ اس باپ کے مثل ہوجاؤ جو اپنی اولاد پر مہربان ہے
مہمان کی اس وقت تک تعظیم کرو جب تک اس کا ساتھ رہے٭ یہاں تک کہ وہ تم کو اپنا نسبی وارث خیال کرنے لگے
اس شخص کو اپنا دوست بناؤ جس سے اگر تم بھائی چارہ کرو٭ تو وہ اس مواخاۃ کی حفاظت کرے اور تمہارے لئے لڑائی کرے
اور ان سے چاہ کرو، جس طرح بیمار شفا چاہتا ہے٭ جھوٹے کو چھوڑ دو اس لئے کہ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی صحبت اختیار کی جائے
ہر موقع پر اپنے دوست کی حفاظت کرو٭ اور اس شخص کی صحبت اختیار کرو جو جھوٹا نہ ہو
جھوٹے سے دشمنی کرو اور اس کے قریب و پڑوس سے بچو ٭ اس لئے کہ کاذب اپنے ہم نشین کو آلودہ کر دیتا ہے
زبانی تم سے امیدوں سے بڑھ کر وعدے کرتا ہے ٭ مگر لومڑی کی طرح تم سے کتراتا ہے
اور چاپلوس لوگوں سے بچو اس لئے کہ وہ ٭ مصائب کے وقت تم پر ایندھن لگائیں گے
وہ انسان کے اردگرد لگے رہتے ہیں، جب تک ان سے امید ہوتی ہے٭ جب زمانہ اس کے ناموافق ہوا ، لاپروائی کی اور چل دیئے
میں نے تم کو نصیحت کی، اگر تم میری نصیحت کو قبول کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے٭ اور نصیحت تمام بیع اور ہبہ کی چیزوں سے ارزداں ہے۔

سیدنا امام حسن علیہ السلام کو نصیحت
مصیبت کے وقت غم کی چادر اوڑھ لو٭ تو اس صبر جمیل کی وجہ سے انجام خیر تک پہنچو گے
اور ہر موقع پر حلم اختیار کرو٭ اس لئے کہ حلم ہی بہترین دوست اور ساتھی ہے۔
دوست کے عہد و پیمان کی حفاظت اور رعایت کرو٭ توتم کمال نگہداشت کی وجہ سے صاف مشرب کا مزا چکھو گے۔
ہر نعمت کے موقع پر، خدا کے شکر گذار رہو٭ تو جزا میں ان پر اور زیادہ بخشش عنایت کرے گا۔
انسان کو وہی رتبہ حاصل ہوگا جس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے گا٭ تو تم اپنے متعلق اعلیٰ مرتبہ کے طالب ہو۔
اور حلال طریقہ پر روزی طلب کرو٭ تو ہر طرف سے روزی چند در چند ہوجائے گی۔
اپنی آبرو کی حفاظت کرو اس کو مبتذل نہ کرو٭ اور رذیلوں سے بچی ہوئی چیز کی طلب مت کرو، خواہ تمہیں کتنی ہی مرغوب کیوں نہ ہو۔
اور دوست کے حق کو واجبی قرار دو جب وہ تمہارے پاس آئے ٭ مخلصانہ احسان کے ساتھ جو تم پر واجب ہے۔
اور والدین کے حق کی محافظت کرو٭ اور پرہیزگار پڑوسی اور خویش و اقارب کی مدد کرو۔

بدر میں اپنی شجاعت اور جلیل القدر صحابہ کی تعریف
ہم نے گمراہ لوگوں سے پیغمبر خدا کو اپنی شرافت کی وجہ سے بچایا ٭ اور لوگوں نے سیدھا راستہ دیکھا تھا، نہ ہدایت۔
اور جب ہدایت لے کر آپ آئے تو ہم سب کے سب ٭ خدائے مہربان کی فرمانبردای، حق اور پرہیزگاری کے پابند تھے۔
جب اور لوگوں نے روگردانی کی تھی تو اس وقت ہم نے پیغمبرؐ خدا کی مددکی تھی٭ اور تمام عقلمند مسلمان آپؐ کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔

اصل خاکی کی مذمت اور علم دین کی تعریف
لوگ بلحاظ صورت یکساں٭ ان کے باپ آدمؑ اور ماں حوا ؑ ہیں۔
لوگوں کی مائیں صرف نطفہ کے ظروف٭ اور اس کی جائے ودیعت ہیں حسب کا اعتبار باپ سے ہوتا ہے اگر لوگوں کو قابل فخر عزت نسب سے حاصل ہے٭ تو یہ عزت بے حقیقت ہے، اس لئے کہ ان کی اصل، مٹی اور پانی ہے۔
اگر تم نسب والوں سے فخر کو بیان کرتے ٭ تو اس سے بڑا فخر ہم کو حاصل ہے کیونکہ ہمارا نسب سخاوت اور بلند رتبگی ہے۔
صرف اہل علم کو بزرگی حاصل ہے٭ اس لئے کہ وہی ہدایت پر ہیں اور طالب ہدایت کے رہنما ہیں۔
انسان کی قدر وہ کمال ہے جس کو وہ خوبی سے انجام دے ٭ اور جاہل علم کے دشمن ہیں علم کی خدمت کر اور اس کے عوض مال مت طلب کر٭ اس لئے کہ تمام لوگ مردہ اور صرف اہل علم زندہ ہیں۔

جاھلوں اور غافلوں کی موانست سے نفرت
جاہلوں کی صحبت مت اختیار کر ان سے بچ ٭ کیونکہ بہت سے جاہلوں نے اس حکیم کو تباہ کردیا جس نے ان سے دوستی کی۔
دو آدمی جب ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو ایک دوسرے پر قیاس کیا جاتا ہے ٭ چیزیں ایک دوسرے کے لئے قیاس اور مشابہ ہوتی ہیں۔

بے وفا زمانہ کی شکایت اور بے اعتبار دوستوں کا ذکر
دوستی اور بھائی چارہ میں انقلاب ہوگیا٭ سچائی نادر ہوگئی اور امید منقطع
زمانہ نے مجھ کو ایسے دوست کے حوالے کر دیا٭ جو بہت بے وفا ہے اور اس میں رعایت کا مادہ نہیں۔
امید ہے کہ عنقریب وہ ذات جس نے اس کو مجھ سے مستغنی کیا ہے مجھ کو بھی مستغنی کردے گی٭
کیونکہ ناداری ہمیشہ رہتی ہے نہ تو انگری۔
اور نعمت ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے٭ اسی طرح مصیبت کو بھی دوام حاصل نہیں ہے۔
ہر وہ محبت جو خدا کے لئے ہوتی ہے پاک ہوتی ہے ٭ دوستی میں بدکرداری سے صفائی نہیں پیدا ہوتی۔
جس وقت تم اپنے عزیز کی محبت سے ناآشنا بن جاتے ہو٭ تو میں محبت کرتا ہوں اس لئے کہ میرے دل میں شرافت اور حیاء ہے۔
ہر زخم کے لئے دوا ہے ٭ صرف بداخلاقی کی دوا نہیں
بہت سے بھائی ہیں جن کے ساتھ میں نے وفاداری کی٭ لیکن ان کی وفاداری پائی نہیں ہوئی۔
جب تک وہ لوگ مجھ کو دیکھتے ہیں محبت کو باقی رکھتےہیں ٭ اور محبت اسی وقت تک باقی رہتی ہے جب تک ملاقات رہتی ہے۔
جب تک میں ان سے مستغنی رہتا ہوں تو دوست ہوتے ہیں ٭ جب مجھ پر مصیبت نازل ہوتی ہے تو دشمن ہوجاتے ہیں۔
اگر میں نظر سے ہٹ جاتا ہوں تو دشمنی کرنے لگتے ہیں٭ اور مجھے کافی طور پر تکلیف دیتے ہیں جب کسی گھر کا سردار اٹھ جاتا ہے ٭ تو اس کے گھر والوں پر لوگ زیادتی کرتے ہیں۔

وہ بے وفا عورتیں جن میں سچائی ہے نہ صفائی
انکا ذکر چھوڑ کیونکہ ان میں کچھ بھی وفا نہیں ہے ٭ باد صبا اور ان کے وعدے دونوں کی ایک سی حالت ہے۔
تمہارے دل کو توڑتی ہیں پھر اس کو جوڑتی نہیں ٭ اور ان کے قلوب وفاداری سے خالی ہیں۔

اس دنیا کو طلاق کا حکم جونالائق دلھن ہے۔
دنیا کو تین دفعہ طلاق دے دو اور اس کے علاوہ دوسری عورت تلاش کرو ٭ کیونکہ وہ ایسی بری عورت ہے کہ اس کو پرواہ نہیں کہ کون اس کے پاس آتا ہے یعنی ہرجائی ہے۔
جہاں مطلب بر آری ہوگئی، وہیں بیٹھ پھیر لی۔

ہفتہ کے دنوں کے پسندیدہ معمولات
یقینا شکار کے لئے ہفتہ کا دن اچھا ہے ٭ اگر تم چاہو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
یکشنبہ کے روز مکان بنانا بہتر ہے اس لئے کہ ٭ اسی دن خدا پاک نے آسمان بنانا شروع کیا تھا اور دوشنبہ کے دن اگر تم سفر کرو ٭ تو امید ہے کہ کامیابی اور دولت حاصل ہوگی۔
جو پچھنا لگانا چاہے تو منگل ہے٭ اس لئے کہ اس کی ساعتوں میں خون جاری ہوجانے کا اثر ہے اگر کوئی شخص دوا پیئے ٭ تو اسکے لئے بہترین دن چہار شنبہ کا ہے۔
جمعرات ضرورت کے پور کرنے کا دن ہے ٭ کینوکہ اس میں اللہ دعاؤں کی اجازت دیتا ہے جمعہ کے دن شادی، بیاہ ٭ اور مردوں کو عورتوں سے لطف اُٹھانا چاہیے۔

رنج کے بعد خوشی اور دقت کے بعد آسانی
جب دلوں کو مایوسی گھیر لیتی ہے٭ اور کشادہ سینہ اس کی وجہ سے تنگ ہوجاتا ہے۔
اور مصیبتیں وطن بنا کی مطمئن ہوجاتی ہیں ٭ اور ان کی جگہوں میں تکلیفیں لنگر انداز ہوجاتی ہیں اور اس تکلیف کے دور ہونے کی صورت نظر آتی ہے ٭ اور اپی تدبیر سے عقلمند کچھ نہ کر سکا۔
اس وقت اس نا امیدی کے بعد تمہارے پاس ایک فریاد رس آتا ہے ٭ جس کے واسطہ س مہربان دعا قبول کرینوالا خدا احسان کرتا ہے۔
تمام حوادث زمانہ جب انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ٭ تو اس کے بعد جلد کشادگی آتی ہے۔

علم و ادب کی تعریف، عقل و حسب کی ستائش
ہمارے زمانہ میں مصیبت تعجب انگیز نہی ہے ٭ بلکہ اس میں سلامتی ہی بہت زیادہ حیرت انگیز ہے زینت دینے والے کپڑوں کا جمال کچھ نہیں ہے٭ حقیقت میں جمال، علم و ادب کا جمال ہے۔
یتیم وہ نہیں ہے جس کا باپ مر گیا ٭ حقیقتا یتیم وہ ہے جو عقل و شرافت سے محروم ہے۔

منافقوں کی شکایت
جس طرح گذشتہ کل گیا وفاداری بھی گئی ٭ لوگ دغاباز اور مکار ہوگئے
آپس میں دوستی اور خلوص کی اشاعت کرتے ہیں ٭ اور ان کے دلوں میں بچھو چھپے ہوتے ہیں۔

حقیقت میں شیطان بصورت انسان ہیں
بہت سے لوگ گزرے ہوئے زمانہ کی شکایت کرتے ہیں ٭ حالانکہ گزشتہ زمانہ میں اب کوئی تغیر نہیں ہوسکتا۔
میں دیکھتا ہوں کہ رات اسی طرح گزر رہی ہے جیسا میں نے پہلے دیکھا تھا٭ اور دن بھی اسی طرح آتا جاتا ہے۔
اور آسمان نے ہم سے بارش نہیں رد کی٭ اور نہ آفتاب و مہتاب میں گرہن لگا۔
پس اس سے کہدے جو گردش زمانہ کی مذمت کرتا ہے٭ کہ تونے زمانہ پر ظلم کیا پس انسان کی مذمت کر۔

عار کے انواع و اقسام اور دشمنان و حشت شعار پر تعریض
آگ عار برداشت کرنے سے بہتر ہے ٭ اور عار اس کو آگ میں لے جاتی ہے۔
اس شخص کے لئے عار ہے جو رات گزارے اور اس کا پڑوسی ٭ بھوکا ہو اور اس کے پرانے کپڑے شکستہ ہوں۔
کمزور کی دل شکنی اور اس پر ظلم ٭ اور نیکوں کو بدوں کیساتھ کھڑے کرنا بھی ننگ ہے۔
ننگ یہ بھی ہے کہ کوئی تم کو ایسا نفع پہنچائے ٭ جو تمہارے نزیک کم ہو۔
اس شخص میں بھی ننگ ہے جو دشمنوں سے اعراض کرے ٭ اور قرابت مندوں کے لئے مشکل شکاری شیر کے ہو۔
یہ بھی ننگ ہے کہ تم لوگوںمیں پیش پیش ہو ٭ اور لڑائی میں بھاگنے والوں میں ہو۔
طلب حلال کے لئے کوشش کر اور اس کو ٭ اسراف اور فضول خرچی سے مت کھا
صرف اپنے گھر والوں پر خرچ کر، یامہمان پر یا اس شخص پر٭ جو تنگی کی تکلیف کی شکایت کرے۔

اس بات پر فخر کہ آپ کی خوشبو تلوار و خنجر ہے
تلوار و خنجر ہماری خوشبو ہیں٭ نرگس اور گل مورد پر تف ہے۔
ہماری شراب ہمارے دشمنوں کا خون اور ٭ ہمار جام دشمنوں کے سر کی کھوپڑی ہے۔

احسان کے مراسم اور لوازم کی ھدایت
احسان طبیعت کی شرافت کا نتیجہ ہے ٭ اور احسان جتانا نیکی برباد کرنے کا باعث ہے۔
اور بھلائی محفوظ پہاڑ کی چوٹ سے ٭ بھی زیادہ حفاظت کرتی ہے۔
برائی کا بہاؤ پانی کے تیز٭ بہاؤ سے بھی زیادہ تیز ہوتا ہے۔
دوست کے تعلق کو چھوڑ دینا ٭ بے تعلقی کا باعث ہوتا ہے۔
لوگوں کی عیب جوئی سے اپنے آپ کو آلودہ نہ کرو ٭ اس لئے کہ دوسروں کی عیب جوئی تم کو بھی آلودہ کردے گی۔
بہ تکلف کسی خلق کو اختیار کرنا اس بات سے ٭ رک نہیں سکتا کہ اپنی اصلی طبیعت کی طرف لوٹ آ مخلوق یعنی بندگان خدا فطرۃ ٭ بری اور بھلی خصلت والے پیدا کئے گئے ہیں۔

وہ نصیحتیں جو بہت سے فوائد اور مصالح پر مشتمل ہیں۔
اپنے لئے زندگی ہی میں زادراہ پہلے بھیج دے ٭ اس لئے کہ کل تو دنیا کو چھوڑ دے گا اور تجھ کو الوداع کہا جائے گا۔
اور قریبی سفر (موت) کااہتما م کر اس لئے ٭ کہ وہ دور والے سفر قیامت سے بہت دور ہے۔
اپنا زادراہ، خوف و تقویٰ بنا ٭ اور یہ کہ گویا تیری موت شام سے بھی جلدی آنیوالی ہے۔
اور بقدر ضرورت روزی پر قناعت کر اس لئے کہ قناعت ہی بے نیازی ہے ٭ اور فقر اس شخص کے لئے لازم ہے جو قانع نہیں ہے۔
اور کمینوں کی صحبت سے پرہیز کر اس لئے کہ وہ ٭ تجھ سے خالص محبت نہ کریں گے بلکہ تضع سے کام لیں گے۔
جب تک تو ان کو خوش رکھے گا وہ تجھ سے محبت کریں گے ٭ جب تو عطیہ روک دے گا تو ان کا زہر تیرے لئے تر کیا ہوا ہے۔
کسی بھید کو افشا جہاں تک ممکن ہو ٭ اس شخص سے نہ کر جو مخفی بھیدوں کو تجھ سے کہتا ہو۔
اس لئے کہ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ وہ دوسرے کے بھید کیساتھ کرتا ہے ٭ ایسا ہی یقینا تمہارے بھید کے ساتھ کرے گا۔۔
جب تم بھیدوں کے امین بنائے جاؤ تو ان کو پوشیدہ رکھو ٭ اور جب واقف ہو جاؤ تو اپنے بھائی کے عیب کو چھپاؤ۔
کسی محفل میں قبل سوال کے کوئی بات ٭ ظاہر نہ کرو، اس لئے کہ یہ بری بات ہے۔
اس لئے کہ سکوت جوان کیساتھ حسن ظن قائم کرتا ہے ٭ اور اگرچہ و بیوقوف، نادان اور احمق ہو اور مذاق ترک کر اس لئے کہ مذاق کرنے والے کے بہت سے الفاظ ٭ ناقابل دفعیہ مصائب کے باعث ہوتے ہیں۔
اور اپنے پڑوسی کے تحفظ کو ضایع نہ کر ٭ اس لئے کہ ضائع کرنیوالا اعلیٰ شرف کو نہیں پہنچ سکتا۔
اور مہمان کی تعظیم کر تو پائے گا کہ وہ ٭ ان لوگوں کے متعلق خبر دے گا جو سخاوت کرتے ہیں اور جو بخل اور منع کرتے ہیں۔
جب تم سے برائی کرنیوالا لغزش کی معافی چاہے٭ تو معاف کردے اس لئے کہ خدا کا ثواب اس سے زیادہ ہے۔
مصائب زمانہ سے نہ گھبرا اس لئے کہ ٭ حوادث سے گھبرانے والے نادان ہیں۔
اور اپنے پدر بزرگوار کی ہر بات میں صیحت قبول کر ٭ اس لئے کہ اپنے پدر بزرگوار کا مطیع کبھی ذلیل نہ ہوگا۔

دنیا عالم مثال میں
جس کو دیائے دنی نے دھوکا دیا وہ ٹوٹے میں رہا ٭ اگر اس نے بہتوں کو دھوکا دیا تو اس میں کچھ نفع نہیں ہے۔
ہمارے پاس شبینہ ایک معزز شخص کے لباس میں ٭ اپنی زینت کیساتھ اپنی ان اداؤں میں آئی
تو میں نے کہا اس سے کہا کہ کسی دوسرے کو دھوکا دو ٭ ا سلئے کہ میں دنیا میں خوب واقف ہوں اور اس سے جاہل نہیں۔
مجھ کو دنیا سے کیا واسطہ اس لئے کہ محمد ﷺ ٭ فقر پر وقف ہیں اس سنگستان کے درمیان۔
فرض کیا کہ وہ ہمارے پاس خزانے اور اس کے موتی ٭ قارون کی دولت اور تمام قبیلوں کی حکومت لے کر آئے۔
کیا سب کا انجام فنا نہیں ہے ٭ اور اس کے جمع کرنے والوں سے اس کے نفع کا مطالبہ ہوگا؟
پس کسی دوسرے کو دھوکا دے، اس لئے کہ مجھ کو کچھ رغبت نہیں ہے۔ ہ تیری عزت کی، نہ ملک کی نہ عطیہ کی۔
میرا نفس،جو کچھ بھی اسکو روزی میسر ہے اس پر قانع ہے ٭ پس اسے دنیا تو جان اور وہ جانیں جو اپنے ساتھ برائی کرتے ہیں۔
اس لئے کہ میں خدا سے ، اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن، اس سے ملنا ہے ٭ اور اس عتاب سے خوف کرتا ہوں جو دائمی اور غیر منقطع ہے۔

اہل حقائق و معرفتہ پر نجم کے تاثیر کی نفی۔
اس نے مجھے ڈرایا ستاروں سے ٭ اور اس شر سے جو پیدا ہونے والا ہے۔
میں صرف اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، باقی رہے ستارے ٭ تو مجھے ان کے شر سے اطمینان ہے۔

خالق جز و کل پر بھروسا کرنے کی ھدایت
خدا کی کس قدر پوشیدہ مہربانیاں ہیں ٭ ان کی پوشیدگی ذہین کی فہم سے بھی باریک ہے۔
اور کس قدر آسانیاں سختی کے بعد آئیں ٭ اور غمگین دل کی تکلیف کو دور کیا۔
بہت کام ایسے ہیں جن کی وجہ سے صبح تم کو تکلیف ٭ اور شام کوتمہیں مسرت حاصل ہوتی ہے۔
جب کسی دن حالات تم کو تنگ کریں ٭ تو خدائے یکتا، واحد اور بلند پر اعتماد کرو
نبی ؐ کو وسیلہ ٹھہراؤ، اس لئے کہ ہر کام ٭ آسان ہوجاتا ہے جب پیغمبر کو وسیلہ ٹھہرایا جاتا ہے جب کوئی مصیبت پڑے تو نہ گھبراؤ ٭ اسلئے کہ خدا کی بہت سی پوشیدہ عنائیتں ہیں۔
٭٭٭

اقتباس سہ ماہی نگارشات رسالہ ۲۰۰۱
دیوان علی رضہ عربی
 

Thursday, July 9, 2015

سومناتھ مندر کی حقیقت

تاریخ کی اس حقیقت کو اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کہ انڈین کانگریس کے لیڈر آزادی کی جدوجہد میں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کی تشکیل کے خلاف تھے اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کی حیثیت کو قائم رکھنا چاہتے تھے، انکے نزدیک بھارت کی تقسیم ’’گائو ماتا‘‘کی تقسیم تھی، چنانچہ انگریزی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے آل انڈیا کانگریس کے لیڈروں نے متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کو فروغ دیا جس کی نفی علامہ اقبال نے فکری سطح پر اور قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی سطح پر کی اور پھر حالات کو ایسی کروٹ ملی کہ پاکستان دو قومی نظریے کی اساس پر معرض وجود میں آ گیا اور گزشتہ 68 برس سے اسے ثبات وقیام حاصل ہے درآنحالیکہ اندرا گاندھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس کا ایک بازو توڑنے میں کامیاب ہو چکی ہیں اور اب وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش بنانے میں مکتی باہنی کے باغیوں کے ساتھ تھے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت میں موجود مسلم اقلیت اور پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے اور انہیں قد آور فصل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور حد یہ ہے کہ اب نریندرمودی بھارت کی تواریخ کو مسخ کرنے اور اپنی مرضی کی تواریخ لکھوانے کے پراجیکٹ پر بھی کام کررہے ہیں، تاہم غنیمت ہے کہ بھارت میں رومیلا تھاپر جیسی تاریخ دان بھی موجود ہیں جو صداقت کو جرأت مندی سے پیش کرنے سے گریز نہیں کرتیں، واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے صوبہ گجرات کے ساحل پر واقع سومناتھ کے مندر پر محمود غزنوی کے حملوں، مندر کی لوٹ مار اور اسکی شکست وریخت اور بت شکنی کے واقعات کو اس طرح پیش کیا گیا کہ ہندو عوام کے دلوں میں مسلمانوں کیخلاف شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور بابری مسجد کے شہادت کا واقعہ اس انتہا پسندی اور نریندر مودی کی سازش کا نتیجہ ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کا یہ مقصد ڈھکا چھپا نہیں کہ بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے جس میں صرف ہندو بستے ہوں، غیر ہندوئوں کیلئے ان کا ’’ارشاد‘‘ ہے کہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو بن جائو یا پھر اس ملک کی بودوباش ترک کردو۔
سومناتھ کے مندر اور محمود غزنوی کے محلوں میں لوٹ مار کے سلسلے میں اتنا جھوٹ بولا گیا کہ اب بھارت کے ہندو اسے تاریخ کا راسخ سچ گردانتے ہیں لیکن رومیلا تھاپر جیسی منصف مزاج تاریخ دان نے ترکی اور ایران کے قدیم مخطوطات کے مطالعے کے بعد اس جھوٹ کی قلعی کھول دی ہے۔ اس بت کو ساتویں صدی عیسوی میں سعودی عرب سے سومناتھ کے مقام پر لایا گیا تھا جو اس وقت چھوٹا سا گائوں تھا لیکن یہ تجارت کا ایک اہم مقام بھی تھا۔ رومیلا تھاپر نے ایک کتبے کے مطالعے کے بعد یہ واقعہ بیان کیا کہ اس علاقے کے برہمنوں نے ایک ایرانی بیوپاری کو سومناتھ کی حدود میں مسجد بنانے کی اجازت دی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سومناتھ کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلافات کے برعکس یگانگت تھی، ہندوستان کی قدیم تاریخ میں 1857ء تک سومناتھ پر محمود غزنوی کے حملوں کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو اس ملک کے مشترکہ ہندو مسلم سماج میں نہیں ملتا لیکن 1857ء کے بعد انگریزی حکومت کے ایک وائسرائے نے اپنے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ محمود غزنوی نے بڑی بے رحمی سے سومناتھ مندر کو تباہ کر کے وہاں موجود بت توڑ ڈالے اور مندر کے قیمتی دروازے غزنی لے گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کے اس وائسرائے کے بیان کو سرکارِ برطانیہ نے درست تسلیم کرلیا اور مندر کے مبینہ زریں دروازوں کو غزنی سے واپس لانے کی کارروائی بھی شروع کردی۔ رومیلا تھاپر، نیل وار بھٹا چاریہ، سورپائی گوپال، اور کے ، این پانیکر جیسے آزاد اور منصف خیال تاریخ دانوں نے اس واقعے کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے من گھڑت قراردیا ہے لیکن انگریز حکمرانوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ ہندوستان پر حکومت کرنے کیلئے ہندوئوں اور مسلمانوں میں نفرت اور نفاق ضروری ہے اور محمودی غزنوی کو ہندو دشمن اور بت شکن قرار دینے سے حکمرانی کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے، چنانچہ ایلن بروجیسے حکمرانوں نے اس قصے کو خوب ہوا دی اور اسے تاریخ کی نصابی کتابوں میں شامل کر کے دونوں قوموں کے معصوم بچوں کے اذہان کو تعصب سے آلودہ کردیا۔
اوپر لکھا جا چکا ہے کہ آل انڈیا کانگریس کے سیاسی رہنما بھی تشکیل پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ پنڈت نہرو نے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن سے مل کر جو سازش کی اور لیڈی مائونٹ بیٹن سے تعلقات کی جو نوعیت پیدا کی اس کیلئے تاریخ اپنی شہادت دے چکی ہے، اہم بات یہ ہے کہ محمود غزنوی اور سومناتھ کے مندر کے بارے میں ایلن برو نے اضافہ افسانہ گھڑا تھا اور جس کا پروپیگنڈہ قریباً ایک صدی تک ہوتا رہا اس نے ہندوستانی سیاست کو خوب آلودہ کیا اور بھارت کی فرقہ پرست تنگ نظر جماعتوں نے جن میں بی جے پی شامل ہے، خوب فائدہ اٹھایا، اس ضمن میں ایک انتہائی متعصب سیاستدان کے ایم منشی کا ذکر ضروری ہے جس نے سومناتھ کے مندر کی مبینہ شکستگی اور لوٹ کھسوٹ کو افسانے کے انداز میں فروغ دیا اور سیاسی تعصب کو سومناتھ مندر کے اس من گھڑت واقعے کے ساتھ جوڑ دیا لیکن رومیلا تھاپر جیسی تاریخ دانوں نے سچ کو پردہ پوش رہنے نہیں دیا، رومیلا تھاپر کی کتاب ’’سوم ناتھ‘‘ ان کی تحقیق کا قیمتی ثمر ہے۔ بھارت کے ایک سیمینار میں انہیں اس موضوع پر مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی تو جو حقائق انکے سامنے آئے وہ حیران کن تھے۔ مثلاً ایک یہ بات ہی دیکھئے کہ ترکی اور فارسی کے تاریخی بیانیوں میں تو سومناتھ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے لیکن اسی دور میں ہندوستان میں جو کتابیں اور کتبے سنسکرت میں لکھے گئے ان میں سومناتھ کا ذکر تک معدوم ہے۔ اس واقعے کو بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر ایلن برو کے ذہن نے اختراع کیا، آزادی کے بعد اسے کے ایم منشی جیسے متعصب سیاستدانوں نے ہوا دی اور اب بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی اس نوع کے غلط واقعات پر ہندو مسلم نفرت کو پھیلا کر اپنے مقاصد اور مطالب کی فصل کاٹنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن غنیمت ہے کہ بھارت میں ہی رومیلا تھاپر جیسے تاریخ دان موجود ہیں جو تاریخ کے سچ کو جھوٹ کے ٹھیس سے الگ کررہے ہیں اور اس حقیقت کو فروغ دے رہے ہیں کہ تاریخی واقعات کی نوعیت کتنی مختلف ہے اور غلط پروپیگنڈہ اسے کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔

 کالم نگار  |  ڈاکٹر انور سدید

 

Monday, July 6, 2015

اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میں

قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا
 
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
(الکهف، 18 : 28)

اے میرے بندے! تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہے

اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ 

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے

ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔

غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ 

جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا

وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔

اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا

فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ
(انعام، 6 : 68)
پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کرو

اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ 

 بقولِ شاعر
صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالع تُرا طالع کند

Saturday, June 6, 2015

(مدعیانِ نبوت، مرتدینِ اِسلام، منکرینِ زکوۃ، خوارج)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد عہدِ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جو بڑے بڑے ’’محدثات‘‘ (دین میں نئے فتنے) پیدا ہوئے - جن کو بدعات کہا گیا اور جن کے خلاف جہاد بالسیف کیا گیا - درج ذیل ہیں

 فتنہ دعوی نبوت کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوری بعد جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ ظاہر ہوا اور ان کا یہ دعوی نبوت ’’احداث فی الدین‘‘ تھا۔ اَسود بن عنزہ عنسی، طلیحہ اَسدی اور مسیلمہ کذاب جیسے جھوٹی نبوت کے دعوے داروں کے خلاف حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لشکر روانہ کیے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔

 فتنہ اِرتداد کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد سرزمین عرب میں اِحداث کی شکل میں ایک اور فتنہ رُونما ہوا جسے فتنہ اِرتداد کہا جاتا ہے۔ عرب کے نومسلم قبائل اسلام سے پھر گئے اور دوبارہ اپنی پرانی روش پر چل نکلے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کا قلع قمع کیا۔
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 254

 فتنۂ منکرینِ زکوٰۃ کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد عرب میں فتنہ اِرتداد پھیل جانے کے ساتھ ساتھ بعض قبائل نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ کا اِرادہ کرتے ہوئے فرمایا 
واﷲ! لأقاتلن من فرّق بين الصلاة والزکاة، فإن الزکاة حق المال، واﷲ! لو منعونی عناقاً کانوا يؤدّونها إلی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، لقاتلتهم علی منعها.
اللہ کی قسم! میں اس کے خلاف ضرور لڑوں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا، کیوں کہ زکوٰۃ بیت المال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کیا جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ادا کرتے تھے تو اس انکار پر بھی میں ان سے ضرور قتال کروں گا۔
بخاری، الصحيح، کتاب الزکاة ، باب وجوب الزکاة، 2 : 507، رقم : 1335
. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين، باب قتل من أبی قبول الفرائض، 6، 2538، رقم : 6526
. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الأمر بقتال الناس حتی يقولوا لا إله إلا اﷲ محمد رسول اﷲ، 1 : 51، رقم : 20

لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ان عرب قبائل کی طرف روانہ کیا جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیاتھا۔

 فتنہ خوارج کو اِحداث فی الدین قرار دیا گیا

فتنہ خوارج کی اِبتداء سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی۔ جب صفین کے مقام پر سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں کئی روز تک لڑائی جاری رہی، جس کے نتیجے میں ہزارہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین شہید ہوئے۔ بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ طرفین میں سے دو معتمد اشخاص کو حَکَم بنایا جائے جو قرآن و سنت کے مطابق کوئی ایسی تدبیر نکالیں جس سے لڑائی کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابو موسيٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اور عہد نامہ لکھاگیا جس کے نتیجہ میں لڑائی تھم گئی۔
پھر اَشعث بن قیس نے اس کاغذ کو لے کر ہر ہر قبیلہ کے افراد کو سنانا شروع کردیا۔ جب وہ بنی تمیم کے لوگوں کے پاس آئے جن میں ابو بلال کا بھائی عروہ بن اَدَیہ بھی تھا اور ان کو پڑھ کر سنایا تو عروہ نے کہا
تحکّمون فی أمر اﷲ ل الرجال؟ لاحکم إلا ﷲ
تم اللہ کے اَمر میں انسانوں کو حَکَم بناتے ہو؟ سوائے اللہ کے کسی کا حکم نہیں۔
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 104
 ابن أثير، الکامل فی التاريخ، 3 : 196
 ابن جوزی، المنتظم فی تاريخ الملوک والأمم، 5 : 123

اس نے یہ کہہ کر اشعث بن قیس کی سواری کے جانور کو تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہ نیچے گر پڑے۔ اس پر آپ کے قبیلہ والے اوران کے لوگ جمع ہوگئے اور جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ جب صفین سے واپس کوفہ پہنچے تو ان کو خوارج کے اس عمل سے آگاہی حاصل ہوئی تو آپ نے فرمایا 
اﷲ أکبر! کلمة حق يراد بها باطل، إن سکتوا عممناهم، وإن تکلموا حَجَجْناهم، وإن خرجوا علينا قاتلناهم.
ﷲ ہی بڑا ہے۔ بات تو حق ہے مگر مقصود اس سے باطل ہے۔ اگر وہ خاموش رہے تو ہم ان پر چھائے رہیں گے اور اگر انہوں نے کلام کیا تو ہم ان پر دلیل لائیں گے اور اگر وہ ہمارے خلاف نکلے تو ہم ان سے لڑیں گے۔
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 3 : 114
ابن أثير، الکامل في التاريخ، 3 : 212، 213

خوارج نے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اُکسانا شروع کردیا اور لوگوں کو پہاڑوں پر چلے جانے یا دوسرے شہروں کی طرف نکلنے کا مشورہ دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل کو بدعتِ ضلالہ تک کہا گیا۔ آخر کار ان لوگوں نے آپس کے مشورہ سے ’’الحُکْمُ ﷲ‘‘ کے اِجراء کے لیے نہروان کا مقام چنا اور سب وہاں جمع ہوگئے۔ نہروان کے مقام پر ان خارجیوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے درمیان لڑائی کا آغاز اُس وقت ہوا جب اُنہوں نے صحابی حضرت عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
دونکم القوم.
’’اس قوم کو لو (یعنی قتل کرو)۔‘‘

حضرت جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
فقتلت بکفی هذه بعد ما دخلنی ما کان دخلنی ثمانية قبل أن أصلی الظهر، وما قتل منا عشرة ولا نجا منهم عشرة.
میں نے نمازِ ظہر ادا کرنے سے قبل اپنے ہاتھوں سے آٹھ خوارج کو قتل کیا اور ہم میں سے دس شہید نہ ہوئے اور ان میں سے دس زندہ نہ بچے۔
طبرانی، المعجم الأوسط، 4 : 227، رقم : 4051
 هيثمی،مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4 : 227

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یوں فتنہ خوارج اپنے انجام کو پہنچا۔ یہی وہ فتنے تھے جن کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اِجتماع میں اِشارہ فرمایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال فرما جانے کے بعد نمودار ہوئے اور جنہیں محدثات الامور کا نام دیا گیا۔
لہٰذا صحیح روایات کے مطابق یہ چار طبقات (مدعیانِ نبوت، مرتدینِ اِسلام، منکرینِ زکوۃ، خوارج) محدثات کے مرتکب تھے اور احادیث نے ’’اِحداث‘‘ کے معنی کو ’’اِرتداد‘‘ کے ساتھ مختص کر دیا ہے۔ پس اِحداث کا معنی اِرتداد ہوگا اور یہی بدعتِ ضلالت و بدعتِ سیئہ اور داخلِ دوزخ شمار ہوگی۔

Saturday, May 2, 2015

جنگ حطین

پس منظر

مصر میں فاطمی حکومت کے خاتمے کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح طے پایا جس کی رو سے دونوں کے دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی ثابت ہوا۔ اور صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔

صلیبی جارحیت

١١٨٦ ء میں عیسائیوں‌کے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے حطین میں اسے جالیا۔

جنگ

سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 11 جولائی 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائی علاقوں پر چھا گئیں اور انہوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے بیت المقدس کا محاصرہ کرلیا اور 2 اکتوبر 1187ء کو بیت المقدس فتح کرلیا۔ حطین کے معرکے میں شکست عیسائیوں پر اس قدر کاری ضرب ثابت ہوئی کہ اس کی خبر سنتے ہی پوپ اربن سوم صدمے سے ہلاک ہوگیا۔

 

Wednesday, April 22, 2015

میری کتابیں اِنسان ہی نہیں۔۔۔ جن بھی پڑھتے ہیں


’’ڈھول پیٹنے والے کی گونج دار آواز اُبھری: ’’اٹھو، جاگو مسلمانوں! سحری کا وقت ہو گیا ہے‘‘ ۔۔۔ ٹِین کنستر کھڑکانے والا منہ پھاڑ پھاڑ کر گہری نیند میں غلطاں لوگوں کو بیدار کر رہا تھا، اگلے دس پندرہ منٹوں میں ہر گھر میں چراغ اور چُولہے روشن ہو چکے تھے۔ گرم گرم پراٹھے، رات کا بچا ہوا سالن، دہی اور چائے، یہی اس علاقے کی سحری کے لیے روایت تھی۔ روزہ رکھنے والے جلدی جلدی کھانے پینے سے فارغ ہو کر نماز وتلاوت کی تیاری میں لگ جاتے لیکن جن گھروں میں افراد کی کمی ہوتی ہے یا جہاں صرف میاں بیوی ہی رہتے ہیں وہاں افطاری اور سحری بے رونق ہوتی ہے۔
’’بند پتلی گلی کے سامنے ماتھے والے مکان کی یہی حالت تھی۔ اس گھر میں ایک صابر وشاکر شخص اور اُدھیڑعمر سوبھاگیہ عورت رہتے تھے، اولاد کی نعمت سے محروم ۔۔۔ لیکن یہ میاں بیوی ابھی تک خدا کی ذات سے نااُمید نہیں ہوئے تھے۔ اِنہیں یقینِ کامل تھا کہ وہ قادر مطلق ضرور ایک دِن اِن کی آرزووں کے گلشن میں اولادِ نرینہ کا پھول کھِلائے گا ۔۔۔ ڈھول پیٹنے والا اب اِن کی بندگلی میں کھڑا زور زور سے ڈھول پیٹ رہا تھا۔ خاتونِ خانہ تو بہت پہلے ہی سے جاگی ہوئی تھی۔ باورچی خانے کی کھڑکی اور روشن دان سے لالٹین کی ملگجی روشنی اور توے پہ دیسی گھی سے تَرتَرائے ہوئے پراٹھے سے اُٹھتا ہوا دُھواں اور خوشبو باہر نکل رہی تھی اور قریب ہی اِس کا ’’بوڑھا شوہر‘‘ ابھی تک چارپائی پر پڑا اُٹھنے کا ’’موڈ‘‘ بنا رہا تھا۔ ویسے بھی سحری میں اکثر مردوں سے پہلے عورتیں ہی جاگتی ہیں۔ خاتونِ خانہ نے سُوندھی سُوندھی خوشبو اور سُنہری رنگت والا پراٹھا توے سے اُتارا اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی پراٹھی توے پہ پھیلا دی، پراٹھی اِس کے اپنے لیے اور پراٹھا خاوند کے لیے تھا۔ ایسے میں باہر گلی کی سیالکوٹی چھوٹی اینٹوں والے فرش پہ ٹک ٹک کی آوازیں اُبھریں جیسے کوئی نعل بند گھوڑ آہستہ آہستہ، اِدھر چلا آرہا ہو۔ سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے وہ پراٹھی پہ گھی لگانے لگی، انگیٹھی میں دَست پناہ سے دوچار کوئلے بھی جھونک دیئے کیونکہ توا اُترتے ہی سبز چائے کی دیگچی دَھرنی تھی۔ بڑے لگے بندھے انداز میں وہ ساتھ ساتھ باورچی خانے کے دیگر کام بھی کر رہی تھی، ابھی وہ کانسی کے برتن سے دہی نکال ہی رہی تھی کہ باہر دروازے سے ایک صدا آئی۔
مصنف، صوفی اور پیراسائیکالوجسٹ بابا محمد یحییٰ خان کہتے ہیں : ’’مجھے کبھی کسی کے ساتھ گیدڑ نظر آتا تو کبھی کسی کے پہلو میں بیل ۔۔‘‘ _MG_6702
’’ہے کوئی مُراد والا جو پیر مُرادیے کے فقیر کی مُراد پوری کرے، سحری کرائے۔۔۔‘‘
خاتون نے یہ الفاظ سُنے تو اپنے اِردگرد نظر دوڑائی کہ اِس وقت فقیر کو کیا دِیا جا سکتا ہے؟ ۔۔۔ چنگیر میں پڑے ہوئے پراٹھے پہ نظر آٹِکی، وہی پراٹھا اُٹھایا، سر کا پَلّو درست کرتے ہوئے دروازہ کھولا ۔۔۔ کالے شا گھوڑے پہ ایک نیم نانگا فقیر، کندھوں پہ جھولتی ہوئی اُلجھی جٹیں، گھوڑے کی دونوں اطراف لٹکے ہوئے پوٹلے۔ وہ سواری پہ ایک ہی جانب دونوں ٹانگیں لٹکائے اِس طرح بیٹھا تھا جیسے ابھی ابھی کود کر کہیں بھاگ لے گا۔ گلی کی مدھم سی روشنی میں یہ سب کچھ کسی خواب کی مانند دِکھائی دے رہا تھا۔ کوئی اور عام سی گھریلو خاتون ہوتی تو چیخ مار کر بے ہوش ہو جاتی، مگر وہ اللہ والی بڑے تحمل اور عاجزی سے بولی: ’’لو بابا! یہ گرم گرم پراٹھا ۔۔۔ بسم اللہ، سحری کھالو۔۔۔‘‘ وہ فقیر کو پراٹھا تھما کر مڑتے ہوئے بولی ۔۔۔ ’’اگر ضرورت ہو تو ایک اور لادوں ۔۔۔؟‘‘
’’پُتر! ایک ہی بہت ہے۔۔۔!‘‘ فقیر نے کمال استغناء سے جواب دیا۔
_MG_6710
بِن سوچے سمجھے خاتون کے منہ سے نکلا: ’’ہاں، بابا! ہمارے لیے تو ایک ہی پُتر بہت ہے۔۔۔!‘‘
فقیر نے ایک لمحہ خاتون کی جانب دیکھا، پھر اِسی پراٹھے سے دو لُقمے توڑ کر خاتون کو دیتے ہوئے کہا: ’’ایک لُقمہ اپنے میاں کو کھلا دو اور ایک خود کھالو، یہی رِزق تم دونوں میاں بیوی کے لیے آج کی سحری ہے۔ آج اُنیسواں روزہ ہے، اگلے برس اکیسویں روزے تک پیر مُرادیئے کی خانقاہ پر ہر جمعرات میٹھے پراٹھے لے جا کر بچوں میں تقسیم کر دیا کرنا!‘‘ خاتون ہاتھ میں پراٹھے کے لُقمے لیے حیران وششدر کھڑی تھی اور فقیر جا چکا تھا۔ ادھر نیم خوابیدہ خاوند کے نتھنوں میں جب توے پر پڑی ہوئی پراٹھی کے جلنے کا کڑوا کسیلا دُھواں گُھسا تو وہ پوری طرح بیدار ہو کر اُٹھ بیٹھا۔ اِدھر اُدھر دیکھا، بیوی تو کہیں نظر نہ آئی البتہ سامنے باورچی خانے میں توے پہ پڑی ہوئی پراٹھی جل کر کوئلہ ہوتے ہوئے ضرور دِکھائی دی۔ روایتی شوہروں کے برعکس غصہ کرنے کے بجائے وہ چارپائی سے اُتر کر باورچی خانے میں گُھسا، توا چولہے سے اُتارا ہی تھا کہ وہ نیک بخت ہاتھ پہ چَپّہ سا پراٹھا دَھرے اندر باورچی خانے میں آگئی۔ خاوند کو کچھ کہنے کا موقع دیے بغیر چارپائی پر لابٹھایا، اپنی کوتاہی کی معذرت چاہتے ہوئے سارا ماجرا کہہ سُنایا اور پھر وہی دو لقمے سامنے دَھرتے ہوئے کہا: ’’اللہ کے بندے! آج یہی ایک آدھ لُقمہ ہم دونوں کی سحری ہے۔ میرا اندر بول رہا ہے کہ یہ نعمت، اللہ کی طرف سے ہمارے لیے خوشخبری ہے۔۔۔‘‘ خاوند نے بسم اللہ پڑھ کر پراٹھے کا لُقمہ منہ میں رکھا اور بیوی سے کہا: ’’نیک بخت! تُو نے سچ کہا ۔۔۔ ابھی ابھی میں نے خواب دیکھا، میں اور شیخ صاحب (علامہ اقبال) دونوں اپنے اُستادِ محترم مولوی میر حسن کے قدموں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اچانک شیخ صاحب نے مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضور! اِن کے ہاں اولادِ نرینہ نہیں ہے، یہ دُعا کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب نے چند لمحے غور سے میری جانب دیکھتے ہوئے فرمایا: آج تم مولوی ابراہیم کی مسجد میں تراویح پڑھو اور پھر کل سے پیر مُرادیہ شہید کے پاس مسجد میں اعتکاف بیٹھ جاؤ ۔۔۔ دیکھو، کیا ظہور پذیر ہوتا ہے۔۔۔!
_MG_6711
اگلے برس اکیسویں رمضان، تہجد کے وقت سجدے میں پڑے ہوئے اِسی بوڑھے صابر وشاکر شخص کے پیچھے اِس کی انتہائی ضعیف ماں گودڑی میں کچھ لپیٹے ہوئے بیٹھی اِس کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ بوڑھے نے سلام پھیرا تو ضعیف ماں نے کپکپاتی نحیف سی آواز میں کہا: ’’پُتر! سَت سَت مبارکاں، سوہنے رَبّ نے تیرے گھر بُوٹا لایا اے۔۔۔‘‘
بوڑھے شخص نے یہ عظیم خوشخبری سُنی اور مڑ کر دیکھے بغیر وہیں سجدے میں گر گیا۔ خاصی دیر بعد جب اِس کا سر سجدے سے نہ اُٹھا اور ’’اُوں آں، اُوں آں‘‘ کی معصوم سی آواز اُبھری تو ضعیف ماں نے دوبارہ آواز دی۔ ’’وے، پُترا! اپنے پُتر دا منہ تے تَک لے، فیر نمازاں پڑھدا رہیں۔۔۔‘‘
تشکّر کے آنسوؤں سے دُھلا ہوا چہرہ، بھیگی ہوئی سفید رِیش، کپکپاتے ہوئے ہونٹ اور فرطِ جذبات سے لرزتے ہوئے سراپے کو لیے وہ شخص اُٹھا اور اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا۔ ماں نے بڑی آہستگی سے پُرانی سی گودڑی، بیٹے کی جھولی میں دَھر دی۔ کانپتے ہاتھوں سے اِس شخص نے گودڑی کو ٹٹولا۔ نومولود اگر رو رہا نہ ہوتا شاید وہ سمجھتا کہ گودڑی خالی ہے ۔۔۔ بچّہ کیا تھا، ایک چھوٹے سے خرگوش جیسا، ایک ہاتھ اور ایک چپّہ۔ وہ اِسے دیکھ کر گھبرا سا گیا، اِتنا چھوٹا اور کمزور سا بچّہ اِس نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا، وہ اِسے چھوتے ہوئے ڈر رہا تھا ۔۔۔ اچانک اِس کی ضعیف ماں بولی: ’’پُتر! جلدی سے اِس کے کان میں اَذان دے ۔۔۔ دیکھتا نہیں، رو ریا اے۔۔۔‘‘
بوڑھے نے کمزور سے پھُول بچّے کو حیرت سے دیکھا، مرد کی اُنگلی برابر بازو، ماچس کی تیلی جیسی اُنگلیاں، بڑے بیر جتنا سر، ننھی ننھی ٹانگیں ہلاتا، کانوں تک باچھیں کھولے بُری طرح چیختا روتا ہوا نادر سا بچّہ! کسی قلندر، درویش یا فقیر کی دُعا یا بڑھاپے کے اِس مقام پہ شاید یہی کچھ نصیب ہوتا ہے ۔۔۔ اَذان کے بعد بوڑھے باپ نے بچّے کی پیشانی پہ ہلکا سا بوسہ دے کر، ماں کو پوتا تھما دیا۔ ماں کی بجھتی ہوئی مُندھی مُندھی آنکھوں کے کونے بھیگے ہوئے تھے، وہ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اُس نے آج اِس کے، اِس صابر وشاکر چوتھے بڑے بیٹے کے ہاں تین شادیوں کے بعد اِس عمر میں اولادِ نرینہ عطا کی۔ اُس کی بوڑھی آنکھوں میں تشکّر کے ساتھ کچھ تفکّر بھی نمایاں تھا، شاید وہ یہ سوچ رہی تھی کہ الٰہی! میرا یہ بیٹا اب عمر کی اِس منزل پہ ہے جہاں زندگی کا سفر بس دو چار قدم ہی ہوتا ہے۔ یہ ننھا سا کیڑا کب جسم وجان پکڑے گا، کب بڑا ہو گا؟ اِس کا بوڑھا باپ اِس کی جوانی، خوشیاں، شادی، کمائی دیکھے گا ۔۔۔ عورتیں جوان ہوں یا بوڑھی، وہ اپنی اولاد کے بارے میں یہی کچھ سوچتی رہتی ہیں۔ وہ بوڑھی بھی اپنے بوڑھے بیٹے اور اِس کے آگے اِس کے نومولود بیٹے کے بارے میں شاید یہی کچھ سوچ رہی تھی۔ اِسے یوں گم پا کر بیٹے نے پوچھا: ’’بے بے! کیا سوچ رہی ہو۔۔۔؟‘‘
_MG_6752
’’وہ اِک نظر اپنے بیٹے اور پھر اپنے پوتے کو دیکھتے ہوئے بولی: ’’اللہ سوہنے کے رنگ دیکھ کر سوچ رہی ہوں کہ کب یہ تیرا بیٹا بڑا ہو گا، جوان ہو گا، تجھے اِس کی خوشیاں دیکھنی نصیب ہوں گی اور کب تُو اِس کی کمائی کھائے گا؟۔۔۔ اللہ نے تجھے اولاد کی خوشی بھی اِس وقت دِکھائی ہے جب کہ تو خود۔۔۔‘‘
بیٹے نے ماں کی بات کو اَدھورا رکھنے کی خاطر اِس کے پوپلے منہ پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ محلے کی مسجد سے درودپاک کا وِرد بلند ہوا۔ اِس مردِتسلیم ورضا نے درود شریف پڑھ کر بچّے کے چہرے پر پھونکا اور پھر اِک نظر اِس کے نحیف وکمزور سراپے پہ ڈالتے ہوئے اُوپر آسمان کی جانب، اِس زبردست قوّت واختیار اور قدرت وحکمت والے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’’بے بے جی! جس مالک وخالق نے مجھے یہ انعام بخشا ہے وہ اِس کی پرورش، صحت، زندگی اور میری عمر اور بڑھاپے کے بارے میں بھی بہتر جانتا ہے اور خوب اچھے فیصلے کرنے والا ہے۔ آپ جسے کمزور سا کیڑا کہہ رہی ہیں اور جس کی سلامتی اور زندگی کے بارے میں پریشان دِکھائی دے رہی ہیں تو ان شاء اللہ میں اِس محمد یحییٰ خان کے کندھوں پہ سوار ہو کر، اللہ کے گھر کے گِرد چکر لگاؤں گا، دُنیا گھوموں گا، زیارتیں کروں گا۔ اِس کی ایک نہیں بلکہ کئی شادیاں کروں گا تاکہ یہ کثیرالاعیال ہو۔ اِس کی اولاد میری کمر پہ سوار ہو گی، اِس کے سر میں چاندی کا بال میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔۔۔‘‘
یہ اس کہانی کا خلاصہ ہے جو بابا محمد یحییٰ خان نے اپنے پیدائش کے حوالے سے خود بیان کی ہے تاکہ قارئین پوری صحت کے ساتھ یہ واقعہ پڑھ سکیں ۔ ہم نے اس کے الفاظ میں بہت کم تبدیلی کی ہے۔
دراصل ہمارا مطالبہ تو یہی تھا کہ وہ خود یہ کہانی سُنائیں لیکن بابا جی کا موڈ یہی تھا کہ ان کی کہانی اس کتاب ’’پیارنگ کالا‘‘ سے لی جائے تاکہ ان کے طرز تحریرسے بھی واقفیت ہو جائے۔
قارئین آپ یقیناًبابا جی کی پیدائش کا یہ واقعہ سُن کر حیران ہوں گے لیکن مسئلہ تو یہی ہے کہ بابا یحییٰ خاں اپنے جاننے، ملنے اور چاہنے والوں کو حیران کرنے کا مشغلہ اپنی پیدائش ہی سے جاری کیے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے ہوش سنبھالا تو والدین کو اپنی آوارگیوں اور سیلانی طبیعت کے حوالے سے حیران بلکہ پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ان کی طبیعت کی بے چینی اور سیمابی پن ہرگز ختم نہ ہوتا اگر انہیں ’’چاچاکُکڑ‘‘ نہ ملتا۔ چاچے کے ساتھ تو انہوں نے ’’کیمیاگری‘‘ کا ایڈونچر کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن چاچے کی پہلی بیوی سانپ سُونگھ کر زمین کا حصہ بن گئی تو چچا کُکڑ اپنے مُرشد کے حکم سے نئی بیوی لے آیا ۔۔۔ بس یہیں سے آٹھویں جماعت میں پڑھنے والے یحییٰ خان کا اصل سفر شروع ہوا۔ چاچے کُکڑ کی بیوی ہرگز کوئی عام عورت نہیں تھی۔ اس نے جہاں اپنے شوہر کو کیمیاگری کے منحوس چکر سے نکالا، وہیں منتشر یحییٰ خان کو معرفت کی سیڑھی پر مضبوط قدم رکھنے میں مدد دی۔ اس کے سوالوں میں نامعلوم کو معلوم بنانے اور روحانی تشنگی کو دیکھتے ہوئے ’’کاگا‘‘ کا خطاب دیا۔
بابا یحییٰ جب یہ بیان کر رہے تھے تو ہم نے پوچھا: کاگا ہی کیوں؟ کوا کیوں نہیں کہا آپ کو ۔۔۔ کیا بندوں کے نام جانوروں پر رکھنے میں کوئی حکمت، کوئی وجہ بھی ہوتی ہے؟
_MG_6719
’’کیوں نہیں، یہ ہنر میں نے چاچی ہی سے سیکھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ ہر انسان کے ساتھ اس کا جانور ہوتا ہے اور میں اسی عمر میں اس ’’جانور‘‘ کو دیکھنے کے قابل ہو گیا تھا۔ مجھے کبھی کسی کے ساتھ گیدڑ نظر آتا تو کبھی کسی کے پہلو میں بیل ۔ اور یہ چاچا ککڑ کا نام بھی اسی زمرے کی چیز تھا، یہ جانور اس کی اصل شخصیت کی نشان دہی کرتا ہے اور جانوروں کی خاصیت بھی وہ نہیں ہوتی جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ اب ’’کاگا‘‘ ہی کو لے لو ۔۔۔ کاگا، کوا نہیں ہو سکتا اور کوا، کاگا نہیں ۔۔۔ کوا تو لالچی ہے، بھوکا ہے، بھوک کے لیے منڈیر منڈیر، منڈلاتا ہے لیکن کاگا، وہ تو’’ کیا؟ کیا ؟؟‘‘کرتا ہے، پوچھتا رہتا ہے، گویا آدھے علم کا مالک ہوتا ہے، بتانے والا ’’جانو‘‘ ہو تو خود بھی ’’جانو‘‘ ہو جاتا ہے‘‘۔
ہمیں یہ تو معلوم تھا ہی کہ بابا جی صوفی بھی ہیں اور بہت نامی گرامی مصنف بھی لیکن یہ ان کی باتوں سے معلوم ہوا کہ اُنہوں نے دُنیا کا ہر فن سیکھا اور برتا۔ شوبز سے لے کر کیمیاگری تک ۔۔۔ ہر وادی قطع کی لیکن ہمارے خیال میں انہیں بطور مصنف سب سے زیادہ پذیرائی ملی، اسی لیے پوچھا کہ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟
جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ انہیں اشفاق احمد نے پاکستان بلایا اور کہا کہ لکھو، چھاپنے والے تمہارے پاس خود آئیں گے اور پھر یہی ہوا۔ میری ان کتا بوں کی پسندیدگی کا یہ عالم ہوا کہ ان کو انسانوں ہی نے نہیں جنات نے بھی پڑھا ۔۔۔ ہم نے حیرت سے دیکھا تو اُنھوں نے ممتاز مفتی کے بیٹے عکسی مفتی سے ملاقات کا قصہ سُنایا۔ کہنے لگے: میں اپنی کتاب لے کر اس کے پاس پہنچا۔ اسے ایک انوکھی فرمایش کر ڈ الی، اس کے بعد کیا ہوا، ممتاز مفتی ’’ سپیشلسٹ‘‘ ابدال بیلا کے الفاظ میں سُنیے:
’’اِس کتاب پر ممتاز مُفتی سے کچھ سطریں لکھوا دیں‘‘۔ عکسی مُفتی، بابا محمد یحییٰ خان کی بات سُن کر مسکراتا مسکراتا رُک گیا۔ حیرت سے آنکھیں پھیلائے بابا محمد یحییٰ خان کو دیکھتے ہوئے زیرِلب بولا:محمد یحییٰ خان! ممتاز مُفتی کو گئے تو بارہ سال ہو گئے ہیں، تم اب اُن سے کچھ لکھوانے آئے ہو!‘‘
بابا محمد یحییٰ خان، عکسی مُفتی کی حیرت زدہ آنکھوں میں اپنی بے نیازی کی پچکاری مارتے ہوئے مسکرا کر بولا: عکسی جی! یہاں جسموں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں ممتاز مُفتی کے قلم سے کچھ لکھوانے آیا ہوں۔ میں جانتا ہوں بندے کا جسم مرتا ہے، اِس کا قلم نہیں۔ خُدا سے عطا ہوئے قلم کو موت نہیں آتی۔ وہ زندہ اور قائم رہتا ہے۔ اِس لیے کہ اِس قلم نے خُدا کی عظمت اور اُس کے رسولؐ کی بڑائی بیان کی ہوئی ہوتی ہے۔ اِس نے اپنے قلم سے اپنی ’’میں‘‘ میں ہوا نہیں بھری ہوتی۔ اپنی ’’میں‘‘ کے غبارے میں سُوئیاں ماری ہوتی ہیں۔ دیکھنے میں وہ چُڑمُڑ ہوا، چھیچھڑا بنا، بے ہوا کا غبارہ ہوتا ہے مگر ہوتا وہی قائم اور زمین سے بندھا ہوا ہے۔ اِسے اندر یا باہر کی کوئی بھی آندھی بے وزن بنا کر اُڑا نہیں سکتی۔ آپ مجھے اُن کے بارہ سال پہلے چلے جانے کی خبر نہ سُنائیں، اِس کا پتا بتائیں جس کے ہاتھ میں وہ اپنا قلم دے کر گئے ہیں۔ عکسی مُفتی کچھ دیر کھڑا بابا محمد یحییٰ خان کو ایسے دیکھتا رہا، جیسے اِس کے سامنے بندہ نہیں کوئی جن کھڑا ہو۔ عکسی مُفتی سمجھ گیا جو اِس کے رُوبُرو کھڑا ہے، اُسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ اُس نے جیب سے اپنا موبائل فون نکالا اور مجھے ڈائل کر کے کہنے لگا: ابدال! تیرے بابے کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا ایک بابا آیا ہے ۔۔۔ اِسے آتے آتے کچھ دیر ہو گئی ہے۔ بارہ سال بعد آ کے اُس نے اِدھر دستک دی ہے۔ اب تُو دروازہ کھول ۔۔۔ ’’پِیا رنگ کالا‘‘ تجھے بھیج رہا ہوں، تُو اِسے اپنے بابے کو پڑھا اور اُن سے کچھ سطریں لکھوا کے مجھے فیکس کر دے۔‘‘
میرا فیوز اُڑ گیا ۔۔۔ یہ کون میرے بابے کو نیند سے جھنجھوڑنے آگیا ہے۔ بارہ سال بعد اُن کی وفات کے اُنہیں اپنی کتاب پڑھانے، اُن کے تاثّرات لکھوانے کی ضِد پال لی ہے۔
کتاب مجھے مل گئی۔ میں اپنے بابے کو اَوڑھ کے اِسے پڑھنے بیٹھ گیا۔ چند صفحے پڑھے ہوں گے کہ میں زمین اور آسمان کے درمیان کہیں معلّق ہو گیا۔ اپنے بابے ممتاز مُفتی سے کہنے لگا: شکر کریں آپ رُخصت ہو چکے ہیں ۔۔۔ ورنہ آج رُخصتی ہو گئی ہوتی۔ اِدھر میرے ساتھ زمین پر بیٹھے ہوتے تو میری طرح ہوا میں ناچتے۔
وہ مسکرا کر بولے: ’’کملے! یہ کتاب لکھے جانے کا مقصد سمجھ۔ یہ لکھی گئی ہی پَر بانٹنے کے لیے ہیں اور پَر تو صرف بے وزن، لطیف رُوحوں کے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ رُوحیں اپنے اپنے جسم کے اندر ہوں یا باہر۔ رُوح کہانی ہر زندہ رُوح کے پڑھنے کی چیز ہے‘‘۔ دیکھ! اِس کی داستان طرازی، کہانی کے اندر رکھی کہانیاں، سفر پہ نکلے مسافر کی مسافتوں کے سارے سفر ۔۔۔ وہ سفر بھی جو ابھی طے نہ ہوئے ہوں۔ وہ مسافتیں بھی جن پہ ابھی نکلنا ہو۔ زندگی کی کھٹی میٹھی سَت رنگی اَن کہیاں، انوکھے قِصّے، بیتیوں کی بِپتا، کچھ آپ بیتیاں کچھ جگ کی، پُراسرار دُنیا، تَصوّف کے بھید، طلسمات، مکاشفات اور کرامات کی نان سٹاپ چاند ماری۔ طِلسمِ ہوش ربا کا دَرویش ایڈیشن۔۔۔!‘‘
_MG_6702
سچی بات تو یہ ہے کہ بابا یحییٰ کی کتابوں پر اس سے زیادہ اچھا تبصرہ نہیں ہو سکتا۔ اور اس قصے کو جاننے کے بعد ہمارے اندر یہ پوچھنے کی بھی ہمت نہ رہی کہ ابابا جی آپ کی کتابیں جنات کیسے پڑھتے ہیں ،کیا وہ اسے خرید کر پڑھتے ہیں یا آپ انہیں تحفے میں دیتے ہیں یا آپ کی کتابوں کے کوئی سپیشل ’’ جنات ایڈیشن ‘‘ بھی کوہ قاف سے شائع ہوتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں خود یہ سارے سوال سطحی اور عامیانہ لگے ۔ کیونکہ جنات پر حیران ہونا چھوٹاپڑ گیا تھا کیونکہ بابا جی نے تو ’’آنجہانی ‘‘ ہو جانے والوں کو بھی اپنی کتاب پڑھا ڈالی تھی ، جنات کس کھیت کی مولی ہیں! اس موقع پر ہم نے اپنے سوالوں کی ’’عامیانہ ‘‘ فہرست کو ایک طرف رکھا ۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ ہم کتاب نہیں بلکہ صاحب کتاب سے ملنے آئے تھے۔ اس لیے کچھ نئے سوال کیے جن کا یہاں بیان کیا جانا قطعی مناسب نہیں ۔ تاہم ایک سوال آپ سے ضرور ’’شیئر ‘‘ کیا جا سکتا ہے ۔ ہم نے پوچھا تھا :
’’بابا جی، جب آپ کعبہ کا دیدار کرنے گئے تھے تو وہاں کیا پڑھا تھا؟‘‘( بابا جی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ قریباً ساری دنیاگھوم چکے ہیں اورگھومتے رہتے ہیں ، ابھی پچھلے دنوں وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ گئے تھے۔)
بولے: ’’مجھ سے لوگ اکثر کوئی وظیفہ پوچھتے ہیں، پر میں نے آج تک کسی کو کوئی وظیفہ نہیں بتایا لیکن جب میں کعبہ گیا تو نہ جانے کیوں میں نے وہاں سوائے تیسرے کلمے کے کچھ اور نہیں پڑھا ۔۔۔ اور ایسا شعوری طور پر نہیں ہوا، بس میں نے اپنے آپ کو یہی کلمہ پڑھتے ہوئے پایا ۔۔۔ اب یہ نہ پوچھنا کہ تیسرا کلمہ کیا ہے‘‘۔
آپ بھی نہ پوچھیں کہ تیسرا کلمہ کیا ہوتا ہے، بس یاد کیجیے اور پڑھیے، سمجھ کر پڑھیے، آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ تیسرا کلمہ ہی کیوں؟ رہے بابا یحییٰ اور ان کی مزید باتیں تو بہتر تو یہی ہے کہ پہلے ’’پیا رنگ کالا‘‘ پڑھیں، یقیناًجی نہیں بھرے گا تو ’’کالا کوٹھا‘‘ بھی چاٹ جائیں ۔۔۔ ہمیں یقین ہے کہ تجسس کے مارے اور پُراسراریت کی تلاش میں ان کی تیسری، چوتھی اور پانچویں کتاب بھی پڑھنا پڑے گی!

Saturday, April 11, 2015

حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا

حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یا سر کی والدہ اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں۔ یہ اور ان کا خاندان اولین اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہے جن کا مرتبہ نہایت بلند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر ہے۔ کافروں نے آپ رضی اللہ عنہا کے خاندان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر اور آپ کو اسلام ترک کرنے کے لئے کہا جاتا، ایسا نہ کرنے پر ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں۔ان کو مکہ میں جلتی اور تپتی ریت پر لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا خاندان خاندانِ مغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار تھا۔
 
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے پرستاروں کو اس حال میں دیکھتے تو ان کو صبر کی تلقین فرماتے اور کہتے کہ اس کے عوض تمہارے لئے جنت ہے۔ تکالیف کے دن اسی طرح چلتے رہے، راتوں کو بھی کافر اذیت دینے سے نہ چوکتے ۔ ایک دن ابو جہل نے ظلم وستم کی انتہا کر دی اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا ار ان کے شوہر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو بے رحمی سے شہید کر دیا ۔ ابوجہل نے ان کو نیزہ مار کر شہید کیا۔آپ رضی اللہ عنہا اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں۔
 
حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر کو اپنی والدہ کی شہادت کا بہت رنج ہوا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عماررضی اللہ عنہ کو صبر کی تلقین فرمائی اور دعا کی کہ اے اللہ ! آلِ یاسر کو روزخ کی آگ سے بچا۔
غزوہ بدر میں ابو جہل ہلاک ہوا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔”دیکھو تمہاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کر دیا۔“
 
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا اولین مسلمانوں میں تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے بے شمار تکالیف برداشت کیں لیکن اپنا مذہب نہ چھوڑا۔ آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے مذہب کی حقانیت پر کامل یقین تھا۔ اسلام ایسی ہی قربانیوں سے پھلا پھولا ۔

 

Saturday, April 4, 2015

کلونجی کے فوائد اورشفائی تاثیر

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ کلونجی میں موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے ۔  سنن ابن ماجہ 3884

کلونجی ایک قسم کی گھاس کابیج ہے۔اس کا پودا سونف سے مشابہ، خودرو اور چالیس سینٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔ پھول زردی مائل،بیجوں کا رنگ سیاہ اور شکل پیاز کے بیجوں سے ملتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ انہیں پیاز کا ہی بیج سمجھتے ہیں۔ کلونجی کے بیجوں کی شفائی تاثیر سات سال تک قائم رہتی ہے۔صحیح کلونجی کی پہچان یہ ہے کہ اگر اسے سفید کاغذ میں لپیٹ کر رکھیں تو اس پر چکنائی کے داغ دھبے لگ جاتے ہیں۔کلونجی کے بیج خوشبو دار اور ذائقے کے لئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اچار اور چٹنی میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے تکونے سیاہ بیج کلونجی ہی کے ہوتے ہیں جو اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتے ہیں۔یہ سریع الاثر یعنی بہت جلد اثر کرنے والے ہوتے ہیں۔

اطبائے قدیم کلونجی اور اس کے بیجوں کے استعمال سے خوف واقف تھے۔ تاریخ میں رومی ان کا استعمال کرتے تھے۔قدیم یونانی اور عرب حکماء نے کلونجی کو روم ہی سے حاصل کیا اور پھر یہ پوری دنیا میں کاشت اور استعمال ہونے لگی ۔ کلونجی گرم اور سرد دونوں طرح کے امراض میں مفید ہے۔کلونجی نظام ہضم کی اصلاح کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ لوگ جن کو کھانے کے بعد پیٹ میں بھاری پن، گیس یا ریاح سے بھر جانے اور اپھارے کی شکایت محسوس ہوتی ہے وہ کلونجی کا سفوف تین گرام کھانے کے بعد استعمال کریں تو نہ صرف یہ شکایت جاتی رہے گی بلکہ معدے کی اصلاح بھی ہوگی۔

کلونجی کو سر کے کے ساتھ ملا کرکھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں ۔ سردیوں کے موسم میں جب تھوڑی سی سردی لگنے سے زکام ہونے لگتا ہے تو ایسی صورت میں کلونجی کو بھون کر باریک پیس لیں اور کپڑے کی پوٹلی بنا کر بار بار سونگھیں اس سے زکام دور ہو جاتا ہے۔اگر چھینکیں آرہی ہوں تو کلونجی بھون کر باریک پیس کر روغن زیتون میں ملا کر اس کے تین چار قطرے ناک میں ٹپکانے سے چھینکیں جاتی رہیں گی۔کلونجی پیشاب آور بھی ہے۔ اس کا جوشاندہ شہد میں ملا کر پینے سے گردے اور مثانے کی پتھری بھی خارج ہوجاتی ہے۔
اگر دانتوں میں ٹھنڈا پانی لگنے کی شکایت ہو تو کلونجی کو سرکے میں جوش دے کر کلیاں کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔چہرے کی رنگت میں نکھار اور جلد صاف کرنے کے لئے کلونجی کو باریک پیس کر گھی میں ملا کر چہرے پر لیپ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ ا گر روغن زیتون میں ملا کراستعمال کیا جائے تو او ر زیادہ فائدہ ہوتا ہے ۔ آج کل نوجوان لڑکیوں میں کیل، دانوں اور مہاسوں کی شکایت عام ہیں۔ اس کے لئے کلونجی باریک پیس کر، سرکے میں ملا کر سونے سے پہلے چہرے پر لیپ کریں اور صبح دھولیا کریں۔ چند دنوں میں بڑے اچھے اثرات سامنے آئیں گے اس طرح لیپ کرنے سے نہ صرف چہرے کی رنگت صاف و شفاف ہوگی اور مہاسے ختم ہوں گی بلکہ جلد میں نکھار بھی آجائے گا۔

جلدی امراض میں کلونجی کا استعمال عام ہے۔ جلد پر زخم ہونے کی صورت میں کلونجی کو توے پر بھون کر روغن مہندی میں ملا کر لگانے سے نہ صرف زخم مندمل ہو جاتے ہیں بلکہ نشان دھبے بھی چلے جاتے ہیں۔ جن خواتین کو دودھ کم آنے کی شکایت ہو اور ان کا بچہ بھوکا رہ جاتا ہو وہ کلونجی کے چھ سات دانے صبح نہار منہ اور رات سونے سے قبل دودھ کے ساتھ استعمال کرلیا کریں ۔ اس سے ان کے دودھ کی مقدارمیں اضافہ ہو جائے گا البتہ حاملہ خواتین کو کلونجی کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

Wednesday, April 1, 2015

حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا

”اے میرے مالک اگر میں دوزخ کے ڈر سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے دوذخ میں پھینک دے۔ اگر میں جنت کی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے جنت سے محروم کر دے لیکن اگر میں صرف تیر ی ہی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھ کو تو اپنے دیدارسے محروم نہ کرے۔“
 
مندرجہ بالا بیان کردہ دعا سے آپ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کی اپنے رب سے محبت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔عالم اسلام کی اس نامور خاتون کو اپنے اور اپنے خالق کے درمیان کسی قسم کے لالچ یا خوف کی موجودگی گوارانہ تھی۔ اس سے آپ ان کی عظمت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کا شمار دوسری صدی ہجری کی شہرہ آفاق عارفات میں ہوتا ہے۔ آپ دو روایات کے مطابق 95 ہجری یا 99 ہجری میں عراق کے شہر بصرہ کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئیں۔آپ کے والد کا نام اسماعیل تھا۔ آپ اپنے والد کی چوتھی بیٹی تھیں۔ اسی لئے ان کا نام رابعہ مشہور ہو گیا۔ ابھی وہ لم سنی میں تھیں کہ کسی بردہ فروش نے ان کو اغوا کرکے غلامو ں کی منڈی میں فروخت کر دیا۔ غلامی کی حالت میں ہی آپ پلی بڑھیں۔ اپنے مالک کے گھر کام کرنے کے بعد باقی وقت میں وہ اپنے اللہ کی عبادت کرتیں۔ ان کے مالک نے ان کے عبادت و ریاضت میں شغف دیکھ کر ان کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کر یا۔

غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آپ نے صحرا میں قیام کیا اور اپنی عبادت کا سلسلہ جاری رکھا۔یہیں پر آپ نے معرفت کی وہ منزلیں طے کیں کہ جن کے بعد ان کا نام رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ آپ نے صحرا میں کافی عرصہ تک رہائش رکھی اور پھر اس کے بعد آپ بصرہ آگئیں۔
تاریخ میں اگرچہ ان کے علم وفضل کے بارے میں بے شمار روایات ہیں۔ مختلف مورخین اور دیگر افراد نے ان کے حالات زندگی تفصیل سے تحریر کئے ہیں لیکن ان میں تضادات ہیں۔بہر حال یہ بات تاریخ سے معلوم نہیں ہوتی کہ ان کی تعلیم و تریبت کہاں ہوئی ؟ کیا ان کو دورِ غلامی میں تعلیم کے مواقع ملے تھے یا انہوں نے صحرا میں قیام کے دوران علم وفضل سے فیض حاصل کیا ؟ ان کا استاد کون تھا؟ انہوں نے پردہ بڑھاپے میںآ کر ترک کیا یا وہ جوانی میں ہی پردہ میں رہ کر مردوں کے سے کام کیا کرتی تھیں؟
آپ نے صحرا سے بصرہ آنے کے بعد تمام عمر وہیں گزاری۔ بصرہ میں بھی آپ نے اپنی عبادت و ریاضت نہ چھوڑی اور جلد ہی ان کے علم وفضل کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اس وقت بصرہ میں اس دور کے ہر لحاظ سے بڑے عالم قیام کرتے ہیں ۔ بصرہ ایک تجارتی بندرگاہ بھی تھااور صوبائی دارالحکومت بھی ۔ اس لئے یہاں پر معززین قیام کرتے تھے۔ بہرحال جب ان کے زہد وتقویٰ اور علم و فضل کی دھوم مچی تو ان سے فیض اٹھانے کے لئے لوگ جوق درجوق ان کے پاس حاضری دینے لگے۔ ان کے پاس آنے والے افراد میں عام افراد سے لے کر بڑے بڑے نامور عالم بھی تھے جس میں امام سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔

کچھ افراد کاکہنا ہے کہ آپ کے پاس خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ بھی تشریف لایا کرتے تھے لیکن حضرت خواجہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کہ وقت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔
حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کے حوالے سے بے شمار روایات موجود ہیں۔آپ سید امیر علی کے مطابق 135 ہجری میں خالق حقیقی سے جاملیں۔ آپ جبل الطہر جو کہ بیت المقدس کے مشرق میں واقع ہے ، وہاں دفن ہوئیں۔ دوسری طرف ایک اور روایت کے مطابق 185 ہجری میں فوت ہوئیں اور بصرہ میں دفن ہوئیں۔

Tuesday, March 24, 2015

ذبح ہو کر زندہ ہو جانے والے پرندے

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک مرتبہ خداوند قدس کے دربار میں یہ عرض کیا کہ یا اللہ! تو مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم! کیا اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ تو آپ نے عرض کیا کہ کیوں نہیں؟ میں اس پر ایمان تو رکھتا ہوں لیکن میری تمنا یہ ہے کہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تا کہ میرے دل کو قرار آجائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم چار پرندوں کو پا لو اور ان کو خوب کھلا پلا کر اچھی طرح ہلا ملا لو۔ پھر تم انہیں ذبح کر کے اور ان کا قیمہ بنا کر اپنے گردونواح کے چند پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا گوشت رکھ دو پھر اْن پرندوں کو پکارو تو وہ پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آجائیں گے اور تم مردوں کے زندہ ہونے کا منظر آپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مرغ، ایک کبوتر، ایک گدھ، ایک مور ان چار پرندوں کو پالا اور ایک مدت تک ان چاروں پرندوں کو کھلا پلا کر خوب ہلا ملا لیا۔ پھر ان چاروں پرندوں کو ذبح کر کے ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا اور ان چاروں کا قیمہ بنا کر تھوڑا تھوڑا گوشت اطراف و جوانب کے پہاڑوں پر رکھ دیا اور دور سے کھڑے ہو کر ان پرندوں کا نام لے کر پکارا کہ یَا ایْھالدیکْ (اے مرغ) یا ایھا الحمامتہْ (اے کبوتر) یا ایھالنسر (اے گدھ) یا ایھالطاؤسْ (اے مور) آپ کی پکار پر ایک دم پہاڑوں سے گوشت کا قیمہ اْڑنا شروع ہو گیا اور ہر پرند کا گوشت پوست، ہڈی پر الگ ہو کر چار پرند تیار ہو گئے اور وہ چاروں پرند بلا سروں کے دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آگئے اور اپنے سروں سے جڑ کر دانہ چگنے لگے اور اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے مردوں کے زندہ ہونے کا منظر دیکھ لیا اور ان کے دل کو اطمنیان و قرار مل گیا۔
اس واقعہ کا ذکر خداوند کریم نے قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں ان لفظوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
ترجمہ:
”اور جب حضرت ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب مجھے دکھا دے کہ تو کیونکر مردہ کو زندہ کرے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں؟ عرض کی کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے فرمایا تو اچھا چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلا لو پھر ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ تو وہ آپ کے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ بڑا غالب، بڑی حکمت والا ہے۔“

 
تصوف کا ایک نکتہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن چار پرندوں کو ذبح کیا ان میں سے ہر پرند ایک بُری خصلت میں مشہور ہے مثلا مور کو اپنی شکل و صورت کی خوبصورتی پر گھمنڈ ہوتا ہے اور مرغ میں کثرت شہوت کی بُری خصلت ہے اور گدھ میں حرص اور لالچ کی بری عادت ہے اور کبوتر کو اپنی بلند پروازی اور اونچی اُڑان پر نخوت و غرور ہوتا ہے تو ان چاروں پرندوں کے ذبح کرنے سے ان چاروں خصلتوں کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہے چاروں پرند ذبح کئے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے زندہ ہونے کا منظر نظر آیا اور ان کے دل میں نور اطمینان کی تجلی ہوئی جس کی بدولت انہیں نفس مطمئنہ کی دولت مل گئی تو جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا دل زندہ ہو جائے اور اس کو نفس مطمئنہ کی دولت نصیب ہو جائے اس کو چاہیے کہ مرغ ذبح کرے یعنی اپنی شہوت پر چھری پھیر دے اور مور کو ذبح کرے یعنی اپنی شکل و صورت اور لباس کے گھمنڈ کو ذبح کر ڈالے اور گدھ کو ذبح کرے یعنی حرص اور لالچ کا گلا کاٹ ڈالے اور کبوتر کو ذبح کرے یعنی اپنی بلند پروازی اور اونچے مرتبوں کے غرور و نخوت پر چھری چلا دے اگر کوئی ان چاروں بُری خصلتوں کو ذبح کر ڈالے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے دل کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور اس کو نفس مطمئنہ کی سرفرازی کا شرف حاصل ہو جائے گا۔