Tuesday, March 24, 2015

ذبح ہو کر زندہ ہو جانے والے پرندے

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک مرتبہ خداوند قدس کے دربار میں یہ عرض کیا کہ یا اللہ! تو مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ فرمائے گا! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم! کیا اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ تو آپ نے عرض کیا کہ کیوں نہیں؟ میں اس پر ایمان تو رکھتا ہوں لیکن میری تمنا یہ ہے کہ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تا کہ میرے دل کو قرار آجائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم چار پرندوں کو پا لو اور ان کو خوب کھلا پلا کر اچھی طرح ہلا ملا لو۔ پھر تم انہیں ذبح کر کے اور ان کا قیمہ بنا کر اپنے گردونواح کے چند پہاڑوں پر تھوڑا تھوڑا گوشت رکھ دو پھر اْن پرندوں کو پکارو تو وہ پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آجائیں گے اور تم مردوں کے زندہ ہونے کا منظر آپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مرغ، ایک کبوتر، ایک گدھ، ایک مور ان چار پرندوں کو پالا اور ایک مدت تک ان چاروں پرندوں کو کھلا پلا کر خوب ہلا ملا لیا۔ پھر ان چاروں پرندوں کو ذبح کر کے ان کے سروں کو اپنے پاس رکھ لیا اور ان چاروں کا قیمہ بنا کر تھوڑا تھوڑا گوشت اطراف و جوانب کے پہاڑوں پر رکھ دیا اور دور سے کھڑے ہو کر ان پرندوں کا نام لے کر پکارا کہ یَا ایْھالدیکْ (اے مرغ) یا ایھا الحمامتہْ (اے کبوتر) یا ایھالنسر (اے گدھ) یا ایھالطاؤسْ (اے مور) آپ کی پکار پر ایک دم پہاڑوں سے گوشت کا قیمہ اْڑنا شروع ہو گیا اور ہر پرند کا گوشت پوست، ہڈی پر الگ ہو کر چار پرند تیار ہو گئے اور وہ چاروں پرند بلا سروں کے دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آگئے اور اپنے سروں سے جڑ کر دانہ چگنے لگے اور اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے مردوں کے زندہ ہونے کا منظر دیکھ لیا اور ان کے دل کو اطمنیان و قرار مل گیا۔
اس واقعہ کا ذکر خداوند کریم نے قرآن مجید کی سورہ البقرہ میں ان لفظوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
ترجمہ:
”اور جب حضرت ابراہیم نے کہا کہ اے میرے رب مجھے دکھا دے کہ تو کیونکر مردہ کو زندہ کرے گا فرمایا کیا تجھے یقین نہیں؟ عرض کی کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے فرمایا تو اچھا چار پرندے لے کر اپنے ساتھ ہلا لو پھر ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ تو وہ آپ کے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے اور یہ یقین رکھو کہ اللہ بڑا غالب، بڑی حکمت والا ہے۔“

 
تصوف کا ایک نکتہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن چار پرندوں کو ذبح کیا ان میں سے ہر پرند ایک بُری خصلت میں مشہور ہے مثلا مور کو اپنی شکل و صورت کی خوبصورتی پر گھمنڈ ہوتا ہے اور مرغ میں کثرت شہوت کی بُری خصلت ہے اور گدھ میں حرص اور لالچ کی بری عادت ہے اور کبوتر کو اپنی بلند پروازی اور اونچی اُڑان پر نخوت و غرور ہوتا ہے تو ان چاروں پرندوں کے ذبح کرنے سے ان چاروں خصلتوں کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہے چاروں پرند ذبح کئے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے زندہ ہونے کا منظر نظر آیا اور ان کے دل میں نور اطمینان کی تجلی ہوئی جس کی بدولت انہیں نفس مطمئنہ کی دولت مل گئی تو جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا دل زندہ ہو جائے اور اس کو نفس مطمئنہ کی دولت نصیب ہو جائے اس کو چاہیے کہ مرغ ذبح کرے یعنی اپنی شہوت پر چھری پھیر دے اور مور کو ذبح کرے یعنی اپنی شکل و صورت اور لباس کے گھمنڈ کو ذبح کر ڈالے اور گدھ کو ذبح کرے یعنی حرص اور لالچ کا گلا کاٹ ڈالے اور کبوتر کو ذبح کرے یعنی اپنی بلند پروازی اور اونچے مرتبوں کے غرور و نخوت پر چھری چلا دے اگر کوئی ان چاروں بُری خصلتوں کو ذبح کر ڈالے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے دل کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور اس کو نفس مطمئنہ کی سرفرازی کا شرف حاصل ہو جائے گا۔
 

Saturday, March 21, 2015

عظمت انبیاء علیہ السلام قرآن حکیم کی روشنی میں

عصمت انبیاء کامسئلہ ہمیشہ ہی بہت اہمیت کاحامل رہاہے۔آج بھی یہ مسئلہ پوری شد و مد کے ساتھ موجودہے۔ انبیاء پرطعن وتشنیع ‘ان کی شخصیات کو،ان کی عزت ووقار کو مجروح کرنا ،اس حوالے سے اللہ کے دین کونشانہ بنانا‘عام لوگوں کودین سے برگشتہ کرنا‘قرآن مجیدکے بارے میں شکوک وشبہات پیداکرنا ، قرآن کی بے حرمتی ‘رسول ﷺ کی بے حرمتی اور ان کی عزت وناموس پہ حملے یہ مسئلہ دن بدن سنجیدگی اختیارکرتاجارہاہے۔اس اعتبارسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی عزت وناموس کی حفاظت کوبہت اہمیت دی ہے۔
انبیاء کی عصمت کا مسئلہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے‘ اس کااندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کواللہ نے قرآن مجید میں بہت سی جگہوں پرباربارواضح کیااورانبیاء علیہ السلام کی عصمت کاخصوصی دفاع کیا ہے۔اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
یوسف علیہ السلام پرتہمت لگ گئی۔ عزیزِ مصرکی بیوی نے آپ سے اپنی ناپاک خواہش پوری کرناچاہی تویوسف علیہ السلام نے کہا:
”معاذاللہ‘ “میں اللہ کی پناہ مانگتاہوں۔“ میں ایسی قبیح حرکت کے قریب نہیں جاوٴں گا۔
یوسف علیہ السلام اپنی عصمت وعزت بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ دروازے بندہی نہیں بلکہ تالے لگے ہوئے ہیں۔ یوسف علیہ السلام کااللہ پرتوکل ہے کہ وہ گناہ سے بچنے کی پوری تدبیر کرتے ہوئے دروازوں کی طرف بھاگتے ہیں۔عزیز مصر کی بیوی نے بری نیت سے یوسف علیہ السلام کی پیچھے سے قمیص پکڑلی تو قمیص وہاں سے پھٹ گئی۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے مددکی ،تالے ٹوٹ گئے اور دروازے کھل گئے۔
 جب دونوں آخری دروازے سے باہر پہنچے توسامنے اس عورت کاخاوند عزیزِمصر کھڑا تھا۔ اس عورت نے اپنے خاوند کودیکھاتوکہنے لگی:
 دیکھ۔۔۔۔۔! یہ شخص کتنا بڑامجرم ہے کہ اس نے تیری عزت پرہاتھ ڈالاہے۔عزیز مصر کی بیوی کا الزام درحقیقت یوسف علیہ السلام کی ناموس اور منصب نبوت پر حملہ تھا لہٰذا یوسف علیہ السلام کی ناموس کی حفاظت کے لئے فورا ً ہی اللہ تعالیٰ کی مدد آگئی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر چلائی۔عزیزِ مصر کی بیوی کے رشتہ داروں میں سے ایک بول اٹھا(کہاجاتاہے کہ وہ بچہ تھا بعض جگہ بڑی عمرکالکھاہے)
اس نے کہا۔”اے عزیزمصر! اس شخص کے اخلاق کریمہ کو ہم جانتے ہیں۔یہ ایسانہیں ہوسکتا۔اگر فیصلہ کرنا ہے تو پھر دیکھ : یوسف علیہ السلام کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تویہ عورت سچی۔اگرقمیص پیچھے سے پھٹی ہے توپھریہ عورت جھوٹی اوریوسف علیہ السلام سچے ہیں۔
جب قمیص کودیکھاگیاتووہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔حاکم مصر سارا معاملہ سمجھ گیا۔کہنے لگا:
” اے یوسف !میری عزت کاسوال ہے۔ توکسی سے بات نہ کرنا۔ساری شرارت میری بیوی کی ہے۔ تیرا کوئی گناہ نہیں ہے۔ پہلے یہ بات چندلوگوں تک محدود رہی ‘کسی کوکچھ پتہ نہ تھالیکن پھر آہستہ آہستہ بات پھیلنے لگی۔
مصرکی عورتیںآ پس میں کہنے لگیں‘یہ کیسی عورت ہے۔عزیزمصرکی بیوی ہوکراپنے ہی غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے۔ اس کادماغ خراب ہے۔ اس کو مرتبے کاہی پتہ نہیں ہے۔ مختصراً یہ کہ یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈال دیا گیا خواب کی تعبیر بتانے کیلئے جب حاکم مصر کی طرف سے یوسف علیہ السلام کو قیدخانہ سے رہائی کا حکم پہنچاتوانہوں نے فرمایامیں ایسے باہرنہیں آوٴں گا۔پہلے میرے اوپر لگائے گئے الزام کافیصلہ کرو۔جنہوں نے مجھ پرالزام تراشیاں کیں‘پروپیگنڈے کیے‘مصرکے شہر میں میری عزت کواچھالاگیا‘پہلے اس معاملے کی تحقیق کرو۔جب میرے دامنِ عزت پر لگاداغ دھلے گا‘تب میں رہائی قبو ل کروں گا۔
 عزیز مصر نے عورتوں کو جمع کرکے معاملہ پوچھا۔ساری عورتوں نے گواہی دی کہ یوسف سچاہے۔اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ آخرمیں عزیز مصر کی بیوی کہنے لگی‘ حقیقت یہ ہے کہ حق واضح ہوچکاہے۔ میں نے ہی اسے پھسلانا چاہا،میں ہی اسے اندرلے کے گئی۔ یہ ساراجرم وگناہ میراہے۔یوسف سچاہے۔ اس کاکوئی گناہ نہیں۔یوسف علیہ السلام جب زندان سے باہر آئے تو عزیز مصر کہتا ہے۔
 یوسف تْوہمارا مقرب ہے‘تیرے جیسے صادق وامین ‘بلند اخلاق اور عزت وناموس کے محافظ شخص کی بڑی قدرافزائی ہونی چاہیے۔ہم تجھے بڑی وزارت اورمقام ومرتبہ دیں گے۔ یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں‘معیشت کا شعبہ مجھے دے دیں۔اللہ نے مجھے صلاحیت دی ہے۔ اس کی حفاظت کاسلیقہ دیا اور علم بھی عطاکیاہے۔ میں یہ کام اللہ کی مدد سے کرکے دکھاوٴں گا۔
اس واقعہ سے اللہ نے یہ نکتہ بھی سمجھایا ہے کہ معاشروں اور حکومتوں کی اصلاح وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے کردار محفوظ ہوں ‘جواپنی عزتوں کومحفوظ رکھیں‘کردار کوپختہ رکھیں‘جب اس طرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں امورِ حکومت ہوں تو پھراللہ تعالیٰ ان کے ذریعے قوموں‘ ملکوں اور معاشروں کی اصلاح کرتے ہیں۔
اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر لگنے والے الزامات کوبھی صاف کیااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت وشخصیت کوبھی واضح کردیا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہ السلام کے نام پر قرآن مجید میں پوری سورت نازل فرمائی۔ یہ ہے قرآن مجیدکا عصمت انبیاء اور ناموس انبیاء کی حفاظت کاانداز۔ سبحان اللہ!کس قدر عظیم کتاب ہے قرآن مجید جس میں سابقہ انبیاء کی عزت، عصمت اور ناموس کا جگہ جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید عصمتِ انبیاء علیہ السلام کاسب سے بڑامحافظ ہے۔اسی طرح محمدرسول اللہ علیہ السلام پرجب الزامات لگے تو اللہ تعالیٰ نے اسی قرآن مجید کے ذریعے دفاع کیا۔ اس لیے کہ اللہ انبیاء علیہ السلام کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔ جب اللہ تعالیٰ توہین انبیاء برداشت نہیں کرتے تو مسلمان کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ مسلمان صرف اپنے نبی محمدﷺ کی حرمت وناموس کے محافظ ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء کی عصمت کے محافظ ہیں۔یہ اْمّتِ محمدﷺ کااعزازہے جوکسی اورکے پاس نہیں۔مسلمان انشاء اللہ نبی آخرالزماں محمد مصطفی ﷺ سمیت تمام انبیاء علیہ السلام کی ناموس کادفاع کرتے رہیں گے۔ چنانچہ یقین سے کہاجاسکتاہے کہ جب ہمارے حکمران امور مملکت پر دلجمعی سے توجہ دیں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ہمارے شامل حال ہوجائے گی۔
(پروفیسرحافظ محمدسعید)
 

Saturday, March 14, 2015

اُمّ الموٴمنین حضرت سیّدہ خدیجة الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہما


آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے۔ نبی کریمﷺ کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنت زاہدہ ہے۔ آپ کا سلسلہء نسب (حضرت) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بنت خویلد بن اسعد بن عبد العزی بن قصی۔ قصی پر پہنچ کر رسولِ کریمﷺ کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل اور مکہ کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب جوان ہوئیں تو اْن کے والدین نے اْن کی شادی ابو ھالہ بن زرارہ تمیمی سے کی۔ اِن سے اُن کے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہند تھا اور دوسرے کا نام حارث۔ کچھ عرصہ بعد ابو ھالہ بن زرارہ تمیمی کا اِنتقال ہو گیا۔ اِس کے اِنتقال کے کچھ عرصہ کے بعد سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما عتیق بن عابد مخزومی کے نکاح میں آئیں۔ اِن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اُس کا نام بھی ہند تھا۔ اِس لڑکی کے نام کی وجہ سے آپ اُمّ ہند کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ اُمّْ المومنین سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بیٹے ہند نے ابتدائی ایام میں ہی اِسلام قبول کر لیا۔ آپ نہایت فصیح و بلیغ شخصیت کے مالک تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جنگِ جمل میں شریک رہے اور شہید ہوئے۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں۔ مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحمِ دلی، غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں۔حضرت ابنِ اسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اُمّْ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مال دار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورِ مضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔ جتنا سامانِ تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اْتنا اکیلے سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ہوتا۔ آپ اپنے نمائندوں کو سامانِ تجارت دے کر روانہ فرماتیں، جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے اْ س کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے اُن کی اُجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو اُنہیں دی جاتی، نفع و نقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا یا نفع میں اُن کا کوئی حصّہ، نصف، تہائی یا چوتھائی مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے۔ بصورتِ نقصان ساری ذمہ داری سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر ہوتی۔
حضرت ابن اِسحاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو رسولِ کریمﷺ کی راست گوئی، اَمانت اور دیانت کا علم ہوا تو اُنہوں نے حضور ﷺ سے درخواست کہ آپﷺ میرا مالِ تجارت لے کر شام جایا کریں۔ میں اَب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اُس سے بہت زیادہ آپﷺ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کر دوں گی۔ آپﷺ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور اُن کا مال لے کر روانہ ہوئے۔حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا غلام بھی اُن کے ساتھ تھا۔ دونوں شام آئے‘ وہاں نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے۔ راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جو درخت کے نیچے آرام فرما رہی ہیں‘ یہ کون ہیں؟ اُس نے کہا‘ یہ اہلِ حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ اَمانت دار‘ اور سچے اِنسان ہیں۔ راہب نے کہا‘ اِن کی آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا ‘ہاں یہ سرخی کبھی اِن سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہا‘ یہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبرﷺ ہیں۔ (طبقات ابن سعد)
راہب نے کہا‘ اِس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسولِ کریمﷺ نے یہاں جومال لائے تھے بیچ دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ آپﷺ مکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہر اور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیا دیکھتا ہے کہ آپﷺ اُونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپﷺ کو تمازت ِآفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس کے دِل نشین ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اُس کے دِل میں نبی کریمﷺ کی اَیسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریمﷺ کا غلام بن گیا۔
جب قافلے نے اپناتجارتی سامان فروخت کر کے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ رسولِ کریم ﷺ واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے تو ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے۔حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بالاخانے پر بیٹھی ملاحظہ فرما رہی تھیں کہ رسولِ کریمﷺ اُونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر اُدھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اِس دِل کش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اُس نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے وہ باتیں بھی بیان کر دیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا۔ تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البد ایہ والنہایہ)
اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب اُن کے گھر میں اُتر آیا ہے اور اُس کا نور اُن کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کاکوئی گھر اَیسا نہیں تھا جو اُس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اْس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخر الزماں ﷺ تم سے نکاح کریں گے۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا دوسرا شوہر جب فوت ہو چکا تھا تو مکہ مکرمہ کے بہت سے شریف خاندانوں کے لوگ آپ سے شادی کے خواہشمند تھے اور سب نے مال و زر بھی پیش کئے مگر آپ نے کسی کی تجویز قبول نہ کی۔مگر رسولِ کریمﷺ کی شرافت، نسب، امانت، حسنِ اَخلاق اور راست بازی اور آپﷺ پر اللہ تعالیٰ کی عنایات کی وجہ سے اُمّْ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپﷺ سے نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی۔جب خود حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اِس پیشکش کا تذکرہ نبی کریمﷺ نے اپنے چچاوٴں سے کیا تو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رشتے کا پیغام لے کر خویلد ابن اسعد کے پاس گئے جسے اُنہوں نے قبول کیا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام جب پہلی وحی لے کر آئے او ر عر ض کیا اِقْرَاءْ بِاسْمِ َربِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍo اِقْرَاءْ وَرَبّْکَ الْاَکْرَمْo رسولِ کریمﷺ اِن آیاتِ مبارکہ کو لے کر لوٹے آپﷺ کا قلب مبارک مضطرب تھا۔ آپﷺ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے احوال بیان فرمایا اور ان سے چادر اوڑا دینے کی خواہش ظاہر کی۔ حتیٰ کہ آپﷺ کا اِضطراب جاتا رہا۔ آپﷺ نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرشتے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کسی جان لیوا خوف کا اظہار فرمایا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب میں عرض کیا: ”نہیں نہیں آپﷺ کوکس بات کا ڈر ہو سکتاہے۔ بخدا‘ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مشقت سے بچائے گا۔ بے شک آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں ،درماندوں کی دستگیری کرتے ہیں، تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ کی امداد فرماتے ہیں۔“ (بخاری حدیث نمبر 3)
آپﷺکی تمام اَولاد سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، رسولِ کریمﷺ کے پہلے فرزند اَرجمند حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو اعلانِ نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ رسولِ کریمﷺ اِنہی کے نام سے کنیت رکھتے تھے۔ یعنی ”ابوالقاسم“۔ اُن کے بعد حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہما پیدا ہوئیں۔ پھر حضرت سیّدہ بی بی رُقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پھر حضرت سیّدہ اُمّ کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہما پھر خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمة الزہرارضی اللہ تعالیٰ عنہما پیدا ہوئیں۔ اعلانِ نبوت کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے جن کا لقب طیب و طاہر تھا۔ (طبعات ابن سعد‘ تاریخ طبری‘ البدایہ والنہایہ)
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما وہ پہلی عظیم خاتونِ اوّل ہیں جن پر اِسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور اُنہوں نے حضور نبی کریمﷺ کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال رسولِ کریمﷺکی رضاکی خاطر خرچ کیا۔حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں: ”میں نے نبی کریمﷺ کی ازواجِ پاک میں سے کسی پر اِتنی غیرت نہ کی جتنی (حضرت سیّدہ) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر غیرت کی، حالانکہ میں نے اُنہیں نہ دیکھا تھا لیکن حضورﷺ اُن کا بہت ذکرِ خیر فرماتے تھے۔ بہت مرتبہ بکری ذبح فرماتے پھر اُس کے اَعضا کاٹتے پھر وہ (حضرت سیّدہ) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سہیلیوں کو بھیج دیتے تھے۔ تو میں کبھی آپﷺ سے عرض کر دیتی کہ گویا (حضرت سیّدہ) خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے سوا دُنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی۔ تو آپﷺ فرماتے وہ اَیسی تھی وہ اَیسی تھی اور اُن سے میری اَولاد ہوئی۔“ (بخاری حدیث نمبر 3818) شعب ابی طالب میں تین سال تک مسلمانوں پر جو عرصہ حیات تنگ رہا اس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ثابت قدمی کے ساتھ ان تکالیف کا مقابلہ کیا۔حضرت ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے تقریباً ایک ماہ بعد 10 رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما وصال فرما گئیں۔ آپﷺ کے دونوں مددگار اور غمگسار اْٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب پیارے نبیﷺنے ان صدمات کا بے حد اثر لیا اور اِس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار فرمایا۔ تدفین کے وقت حجون کے قبرستان میں آپ ﷺ خود لحد پاک میں تشریف لے گئے اورپھر اُس میں حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اللہ کے سپرد فرما دیا۔