Sunday, October 26, 2014

نماز کے طبی فوائد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دور حاضر کا انسان بے عمل زندگی گزار ر ہا ہے۔ پیدل چلنے کے بجائے ہر جگہ سواری میں سفر کرتا ہے۔ کھڑا رہنے کے بجائے بیٹھا رہتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں میں خود حصہ لینے کے بجائے محض تماشائی بننا ہی کافی سمجھتا ہے۔
سائنسی ترقی کی بنا پر جلد ہی خود کار قوتیں انسان کا بہت سا کام کرنے لگیں گی جس سے انسان اور زیادہ بے عملی کا شکار ہو جائے گا۔ زمانہ قدیم کی کئی تہذیبیں جسمانی اور ذہنی انحطاط کی بنا پر تباہ ہوئیں۔ کیونکہ وہ بے عملی کا شکار ہو گئی تھیں۔ آج کا انسان پہلے سے کہیں زیادہ بے عملی کا شکار ہے۔
جس کی بنا پر جسمانی کمزوری، اعصابی تناؤ، ذہنی دباؤ مختلف قسم کی بیماریوں میں اضافہ اور دل کی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
فالج ۔ ذیابطیس ۔ معدہ کا ناسور۔ گردے کی بیماریاں۔ تپ دق اور دمہ کے امراض پٹھوں اور جوڑوں کے درد۔ فشار خون۔ ایڈز ۔ ذہنی اور اعصابی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
دور جدید کا انسان گردو پیش کے حالات سے نفرت پریشانی اور خوف میں مبتلا ہے۔ جس سے اس کی ذہنی۔ جسمانی۔ اعصابی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور انسانی ذہن تخریبی اور پریشان کن تفکرات اور دیگر دنیاوی مسائل کا شکار ہے۔
بیشتر ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ جب تک جدید بودوباش میں ذہنی دباؤ نا آسودگی اور تناؤ کم نہیں ہوتا زندگی دو بھر رہے گی۔ لہذا ضروری ہے کہ متوازن اور موزوں منصوبہ بندی کے تحت ذہنی اور جسمانی تندرستی کا لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔
کام کرنے اور پیدل چلنے سے جسم کے چھوٹے اور بڑے عضلات میں حرکت اور ان سے متعلقہ رد عمل کی بنا پر جسم انسانی میں طاقت۔ قوت برداشت۔ مہارت۔ اور تیزگامی کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
حرکت کے قوانین جسمانی اعضاء کے افعال اور ان کے رد عمل کے اثرات اور حرکات کا ماہرانہ عمل انسانوں کو معیاری قامت۔ حسین اعضاء اور جسم کے تیز تر افعال عطا کرتا ہے۔
بیماریوں سے بچاتا۔ ذہنی ۔ جسمانی اور اعصابی نظام میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے جس سے جسمانی و ذہنی سکون اور نیند کا عمل ترقی پاتا ہے اور خوشی و فرحت حاصل ہوتی ہے۔
اب یہ حقیقت سب جان چکے ہیں کہ جسم اور ذہن کی درست نشوونما سے صحت مند، طاقتور، خوبصورت، حاضر دماغ اور ذمہ دار انسان وجود میں آتے ہیں جب کہ انسانی نشوونما چار سمت میں ہوتی ہے۔
١۔ مناسب جسمانی ترقی سے عضلات اور اعصاب میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور نامیاتی نظام ترقی کرتے ہیں۔
٢۔ نظام دوران خون، نظام تنفس، نظام انہضام، نظام اخراج فضلات انتہائی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
٣۔ مسلسل ایک جیسی حرکات سے جسم موزوں اور اعصاب و عضلات میں ربط بڑھتا ہے اور اس حرکاتی ترقی سے جسم بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔
٤۔ جسم اور ذہن کی متوازن نشوو نما سے شخصیت کا ارتقاء ہوتا ہے بہتر میل جول، قیادت ، جرات، خود اعتمادی، تحفظ، خدمت، منصفانہ برتاؤ اور راست بازی جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ اختراع، خوش تدبیری، رہنمائی اور حاضر دماغی پیدا ہوتی ہے،
عمدہ قامت، خوبصورت جسم، چست حرکات، سریع رد عمل اور ذہنی سکون کا دارومدار بہت حد تک مضبوط اور لچک دار جسم پر ہوتا ہے۔ اگر عضلات اور پٹھے کمزور ہوں تو جسم متوازن اور سڈول ہونے کے بجائے بے ڈول اور بے ہنگم ہو جاتا ہے۔
عضلات پٹھے اور ہڈیاں پورے ارتقاء کو نہیں پہنچتے جس سے حسن رعنائی اور مضبوطی جو کہ مکمل ارتقاء کا خاصہ ہیں حاصل نہیں ہوتے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی صحت کے انحطاط کو روکا جائے۔ تاکہ ایک صحت مند خوبصورت، مضبوط اور مطمئن انسانی جسم اور ذہن تشکیل پا سکے جو کہ اکیسویں صدی کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے ۔
مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبیؐ رحمت کے ذریعہ ایک بہت ہی عظیم تحفہ نماز کی شکل میں بھیجا جو کہ تمام اعلیٰ معیار کی عضلاتی، اعصابی ، ذہنی اور روحانی کسرتوں حرکات اور عملیات پر مشتمل ہے ۔ جو کہ انسان کی جسمانی، ذہنی اور روحانی ارتقاء اور نشوونما کے لئے موزوں اور نہایت ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اس اکثیر اعظم کی برکات و فوائد اور چاشنی سے یکسر نا بلد ہیں۔ ۔ کیونکہ ہم واجبات نماز میں چوری کرتے ہیں جس کی بنا پر برکات و فوائد کے بجائے جسمانی ذہنی اور روحانی نقصانات اٹھاتے ہیں۔ نماز کو پوری توجہ اور ادائیگی کے نبوی طریقہ سے اپنا کر ہم مندرجہ ذیل خصوصیات اور فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
بالخصوص دفتروں میں کام کرنے والے نوجوان ادیھڑ عمر مرد اور عورتیں جو گھنٹوں کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں نماز کی درست ادائیگی کے ذریعے حملہ قلب، ذیابطیس، تپ دق، جوڑوں کے درد، معدے کے ناسور، ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ جسمانی کھنچاؤ، فکر، پریشانی، حتیٰ کے ایڈز اور خود کشی (مرکزی اعصابی نظام کے عارضے) جیسے امراض سے نجات حاصل کر کے مکمل سکون قلب اور اطمینان سے مذین صحت مند اور خوشگوار زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
نماز کے فوائد اور برکات
١۔ نماز کی کسرتیں جسم کے بالائی اور نچلے حصوں میں توانائی بڑھاتی ہیں۔ اور عضلات اور پٹھوں کو مضبوط و توانا کرتی ہیں۔
٢۔ جسمانی حرکات میں ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں اور جسم میں جازبیت اور لچک پیدا کرتی ہیں۔
٣۔ فطری صلاحیتیں اجاگر کرتی ہیں۔
٤۔ بغیر ورزشی آلات کے متوازن طور پر جسم کی ارتقاء کا عمل جاری رکھتی ہیں جس سے جسم میں حسن و توانائی کا اضافہ ہوتا ہے۔
٥۔ نماز زہنی دباؤ، اعصابی تناؤ، فکر اور پریشانی کو دور کرتی ہے۔ طمانیت خود اعتمادی اور تسکین قلب بہم پہنچاتی ہے۔
٦۔ اپنے آپ پر قابو پانے کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔
٧۔ اگر صلاحیت کم اور جسم کمزور ہو تو نماز سے بتدریج اس کمی کو دورکیا جا سکتا ہے۔
٨۔ قوت، سکت، برداشت، پھرتی اور توانائی بڑھاتی ہے۔ اور جسم میں نیا ولولہ پیدا کرتی ہے۔
٩۔ شرمیلا پن زیادہ ہو تو مسجد میں نماز سے خود اعتمادی حاصل ہوجاتی ہے۔
١٠۔ نماز انسان کو چوکس رکھنے اور توازن کو برقرار رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
١١۔ ہڈیوں کو نماز کا عمل لچکدار اور مضبوط رکھتا ہے۔ نماز حادثات کی شکل میں بہت سی چوٹوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
١٢۔ نماز کا ماہرانہ عمل جسم کے دفاعی نظام کو بتدریج ترقی دیتا ہے اور کئی خطرناک بیماریوں اور ایڈز سے بچاتا ہے ۔ جس پر تمام صحت کا دارومدار ہے۔
١٣۔ نماز دوران خون کو بار بار کے سجدہ اور رکوع سے تیز کرتی ہے۔ خون کا دباؤ بڑھاتی ہے اور پھر کم کرتی ہے ۔ جس سے خون کی رگیں ، شریانیں اور وریدیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔
١٤۔ دوران خون میں یکسانیت پیدا کرتی ہے جس سے دماغی ہیمرج، فالج، لقوہ جیسی مہلک بیماریوں سے نمازی محفوظ رہتا ہے۔
١٥۔ گھٹنوں کے بل جھکنے ، سیدھے بیٹھنے، سیدھے کھڑے ہونے اور کمر کو پوری طرح جھکانے اور سجدے کی حالت میں بازوؤں کو کہنی پر سے موڑنے اور باہر کی طرف پھیلانے سے ٹانگوں، بازؤں، ہاتھ پاؤں ، گردن ، کمر اور پیٹ کی نہ صرف ورزش ہوتی ہے بلکہ اعضاء رئیسہ یعنی دل، جگر ، پھیپھڑوں، معدہ ، انتڑیوں کی بھی ورزش ہوتی ہے اور ان کی کارکردگی کو بڑھاتی ہے۔ اس کے علاوہ دوران خون زیادہ ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی آمد بڑھ جاتی ہے جو کہ صحت کے لئے انتہائی اہم ہے ۔
١٦۔ ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ، جسمانی کھنچاؤ اور مضحمل طبیعت کو مکمل طور پر بحال کرتی ہے۔ نہایت اعلیٰ قسم کی دافع درد ہے انجائنا کے درد کو مکمل دور کر دیتی ہے۔
١٧۔ دل کی بیماریوں سے مکمل طور پر محفوظ رکھتی ہے۔ اور جسمانی قوت اور زندگی کو بڑھاتی ہے۔ اگر خون کی نالیاں سکڑ گئی ہوں یا ان میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہو تو متوازن نالیاں بنانے میں زبردست مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
١٨۔ اگر نماز درست طریقہ پر ادا کی جائے تو عارضہ قلب اور حملہ قلب سے مکمل طور پر بچاتی ہے۔ دل کے پٹھوں اور بافتوں کو وقتی ضرورتوں کے مطابق خون کی فراہمی کے عمل کو تقویت پہنچاتی ہے۔ کورونری رگوں کو سکڑنے سے روکتی ہے۔ رکاوٹوں کو دور کرتی ہے۔
١٩۔ دل کے بڑھنے کو روکتی ہے اور اگر دل بڑھ گیا ہو تو اسے اصل حالت میں لانے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے، کیلسٹرول، چربی اور شکر کو ایندھن کے طور پر جلا دیتی ہے۔ کھانے کے بعد نماز کا عمل فالتو چربی اور شکر کو ختم کر دیتا ہے اور موٹاپے کو روکتا ہے۔ اعلیٰ قسم کی مصفا خون ہے۔
٢٠۔ نماز کی صحیح حرکات وقت کی پابندی کے ساتھ سکون قلب، طمانیت، جسمانی قوت، راحت، خود اعتمادی، ہم آہنگی، سبک رفتاری، توانائی ، سریع رد عمل اور جرأٔت پیدا کرتی ہے۔جسم اور چہرے کو خوبصورت بناتی ہے۔ اور انسانی شخصیت کو پر وقار بناتی ہے ۔
٢١۔ حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش کے عمل میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ نماز کا عمل انہیں سیزیرین برتھ سے بچاتا ہے ۔ چھاتی اور رحم کے کینسر سے نماز کا عمل محفوظ رکھتا ہے۔خواتین نوافل کی کثرت سے اپنے جسم کو مزید خوبصورت اور توانا بنا سکتی ہیں۔ نماز دافع امراض بھی ہے ۔ خواتین کی بیماریوں کا علاج اس میں موجود ہے ۔لہذا احادیث کے مطابق نماز کی ادائیگی بیماریوں کے خلاف مکمل مدافعت پیدا کرتی ہے۔ اور صحت مند اور توانا جسم کی ضمانت ہے ۔
٢٢۔ تنفس اور دوران خون کے نظام کو جوش اور تیزی سے ہمکنار کرتی ہے اور ذیق نفس کو روکتی ہے۔ جس سے پھیپھڑوں اور دل کی حرکات میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جس سے سانس کا عمل بہتر ہوتا ہے۔ اور مکمل تسکین حاصل ہوتی ہے۔
فارغ اوقات میں نوافل کی ادائیگی مزید قوت توانائی حسن اور رعنائی سکون و طمانیت کا باعث بنتی ہے۔ جس سے انسان میں اس کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔
نماز مسجد میں ادا کرنے کے لئے پیدل چلنے کے عمل سے ٹانگوں اور بازؤں کے عضلات میں حرکت اور ان کے رد عمل کی بنا پر تیزگامی اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور دل کے کام کرنے کی استعداد بڑھتی ہے۔
نماز میں قرات اورسانس روک کر آیات کی ادائیگی سے تنفس کے عمل میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ اور ذیق نفس کی بیماری سے نجات ملتی ہے۔ پھیپھڑوں میں ہوا روکنے سے سوراخ اور نالیاں صاف رہتی ہیں۔ اور نمازی دمہ، تپ دق اور پھیپھڑوں کے کینسر جیسے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔
اگر رکوع اور سجدہ درست ادا کیا جائے تو ریڑھ کی ہڈیوں کے جوڑوں اور گردن کی ہڈیوں کی خرابیاں اور دماغی امراض سے مکمل نجات ملتی ہے۔
نماز میں اگر تسبیحات پوری ١٠ یا ١٣ ادا کی جائیں تو فشار خون میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دماغی امراض سے نجات ملتی ہے ۔ قوت یاداشت تیز ہوتی ہے اور پرسکون اور گہری نیند آتی ہے۔ گردے، معدہ، دل ، پھیپھڑوں اور جگر کے عمل کی اصلاح ہوتی ہے۔ پٹھے ہڈیاں جوڑ مضبوط ہوتے ہیں۔ اور پورا جسم اپنی قدرتی ارتقائی منازل طے کرتا ہے۔ جس سے جسم کی ساخت بہتر اور بناوٹ عمدہ ہو جاتی ہے اور شخصیت میں حسن اور رعنائی تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
نماز میں بعض پٹھوں کو کسنے یعنی دباؤ میں رکھنے اور پھر ڈھیلا کرنے کے مسلسل عمل سے پٹھے اور جوڑ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہاتھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ اور دوران خون میں وقتی تیزی اور پھر میانہ روی آتی ہے جس سے جسم میں قوت مدافعت بڑھتی ہے۔ اور اچانک حادثہ، دھماکہ، ڈرنے، خوف زدہ ہو جانے کی صورت میں دل قابو میں رہتا ہے۔ اور حملہ قلب سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
مزید یہ کہ تمباکو نوشی، بسیار خوری، غیر معیاری خوراک، گھی، مکھن، گوشت ، چرب دار اور نشاستہ والی اشیا کا بے جا استعمال ، بے وقت سونا، کم سونا، نیند کا پورا نہ ہونا اور لمبے عرصے تک کاہلی کی زندگی گزارنا، بے عملی اور ہاتھوں سے کام کاج نہ کرنا۔ پیدل چلنے سے اجتناب ، جھوٹ ، دھوکا، فریب، ظلم، جنسی بے راہ روی، زنا، رشوت ستانی، ناکامی، مالی نقصانات وغیرہ کے رد عمل کی بنا پر غصہ، متشدد رویہ، پریشانی، ناخوشگواری، نا امیدی، بے عزتی، چھوٹا پن، شدید تنہائی کا احساس، مایوسی، افسوس، گناہ کا احساس، کشیدگی، گراوٹ کا احساس، ندامت، تھکاوٹ کااحساس، اعصابی تناؤ، جذباتی کھنچاؤ اور طبیعت کا مضمحل ہونا لازمی اور قدرتی عمل ہے۔ جس کے رد عمل کی بناء پر نظام تنفس، نظام انہضام، نظام دوران خون اور نظام اخراج فضلات شدید متاثر ہوتے ہیں۔ جس کا اثر انسان کے جسمانی، اعصابی اور روحانی عضلات پر پڑتا ہے۔ جس سے انسانی اعضائے رئیسہ بلخصوص دل ، دماغ، پھیپھڑے ، جگر ، معدہ اور اعصابی نظام کی کارکردگی میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ جس سے انسانی جسم اور شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔
نماز کا ماہرانہ عمل اور معیاری حرکات اس ٹوٹ پھوٹ کو روکتے ہیں۔ اور نہ صرف نقصانات کا ازالہ کرتے ہیں بلکہ اسے دوبارہ اپنے قدرتی راستہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔ نوافل کی کثرت اسے مزید قوت بخشتی ہے۔ اور ایک مکمل طور پر صحت مند، حسین ، خوش مزاج اور مطمئن انسان وجود میں آتا ہے۔ جو آج کی دنیا کی انتہائی ضرورت ہے۔
یہ تمام خصائص اور برکات صرف اس صورت میں حاصل ہوتی ہیں اگر نماز پوری توجہ اور احادیث نبویۖ میں بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ادا کی جائے ورنہ طریقہ نبویۖ سے انحراف کی صورت میں ٦٠ سالہ نماز کی ادائیگی بھی شفا، برکات و فوائد کے حصول کے بجائے جسمانی، ذہنی اور روحانی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ جس سے ایک کمزور، بے ہنگم، ناہموار، حسن اور جاز بیت سے عاری جسمانی اور ذہنی طور پر پسماندہ منتشر اور مضمحل انسان وجود میں آتا ہے۔جیسا کہ آج مسلمانوں کا حال ہے۔یاد رکھیئے روایتی نماز وقت کا ضیاع ہے ۔ اور تباہی اور بربادی کے سوا نمازی کو کچھ نہیں ملتا ۔ اور یہ تکذیب دین کے زمرے میں آتی ہے ۔ اللہ ہمیں ایسی نماز سے بچائے ۔
نماز سے انتہائی فوائد اور برکات حاصل کر کے ہم ایک خوشگوار صحت مند، طویل ، معیاری اور اعلیٰ زندگی گزارنے کے اہل بن سکتے ہیں۔
آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ آپ یہ اعلیٰ معیار کیوں کر حاصل کر سکتے ہیں۔ ان تمام نبوی طریقوں سے استفادہ کرنے کے لئے احادیث نبوی کے مطابق نماز کی ادائیگی کا عمل سیکھئے اور نماز کی برکات ثمرات اور فوائد حاصل کیجئے۔جان لیں ، روایتی نماز سے آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔صحیح نماز میں اللہ تعالی نے شفا رکھی ہے۔ جس سے آپ ابھی تلک محروم ہیں۔نماز دل کی تمام بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے ۔ ذیابطیس (شوگر)، فشار خون ( ہائپر ٹنشن )، اور ذہنی بیماریوں سے مکمل طور پر صحت یاب کرتی ہے ۔
اسلئے اس مؤثر ترین ہتھیار کا استعمال سیکھنے کے لئے بیت المعمور کے ممبر بنیئے۔ایک اعلیٰ معیار کی بیماریوں سے پاک زندگی گزارئیے ۔
عارضہ قلب اور حملہ قلب سے بچنے کا طریقہ سیکھنے کے لئے تربیتی پروگرام کے لئے مندرجہ ذیل پتہ پر رابطہ کیجئے ۔ کوئی فیس نہیں تربیت بلا معاوضہ ہے ۔باقاعدہ استاد کا انتظام ہے جو آپ کو صحیح نماز سکھانے کے لئے ہما وقت موجود رہتے ہیں۔

Wednesday, October 15, 2014

خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی

آپ کا نام عثمان کنیت ابوعبداللہ، ابو عمر ، لقب ذو النورین، والد کا نا م عفان اورو الدہ کا نام ارویٰ ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب پا نچویں پشت میں عبد مناف پر رسول کریم ﷺسے مل جا تا ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نا نی صاحبہ بیضا ام الحکیم حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کی سگی بہن اور آپﷺ کی پھو پھی تھیں۔اس لئے وہ ماں کی طرف سے آپﷺ کے قریشی رشتے دار ہیں ۔حضرت عثمان نے مکہ میں توحید کی صدا سنی تو یہ آواز تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان کے لئے نا مانوس تھی تا ہم وہ اپنی فطری عفت،پارسائی، دیا نتداری اور راست بازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کے لئے با لکل تیار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ایمان لا ئے تو انہوں نے دین متین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اپنے حلقہ احباب میں تلقین وہدا یت کا کام شروع کر دیا۔ ایام جاہلیت میں ان کا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ربط وضبط رہتا تھا اور اکثر مخلصانہ صحبت رہتی تھی ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے توآپ نے اسلام کے متعلق گفتگو شروع کر دی۔ حضرت ابوبکر صدیق کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ با رگاہ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کر نے پر آمادہ ہو گئے ابھی دو نوں بزرگ جا نے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ خود سرور کا ئناتﷺ تشریف لے آئے اور حضرت عثمان غنی کو دیکھ کر فر ما یا عثمان خدا کی جنت قبول کر میں تیری اور تمام خلق کی ہدا یت کے لئے معبوث ہوا ہوں ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ و صاف جملوں میں خدا جا نے کیا تاثیر تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہا دت پڑھنے لگا اور دست مبار ک میں ہاتھ دیکر حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں آپﷺ کی دو بیٹیاں حضرت ر قیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں اس وجہ سے آپ کو ذو النورین کہا جا تا ہے مکہ میں اسلام کی روز افزوں تر قی سے مشرکین قریش کے غضب کی آگ روز بروز زیا دہ مشتعل ہو تی جا تی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنی وجا ہت اور خاندانی عزت کے باجود جفاکا روں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ، ان کو خودا ن کے چچا نے باندھ کر مارا اور اعزہ واقارب نے طعنے دینے شروع کر دیئے رفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اور جفا کاری یہاں تک بڑی کہ وہ خود ان کی برداشت سے باہر ہو گئی اور با لا آخر رسول کریم ﷺکے حکم پر آپ اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ساتھ لیکر ملک حبشہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ چنا نچہ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق وصداقت اور ایمان کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلا وطن ہوگیا ۔حضور پاکﷺ نے فرمایا حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی زوجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی۔
ہجرت کے بعد آپ کو ان کا حال کچھ معلوم نہ ہو سکا اس لئے آپﷺ پریشان تھے کہ ایک عورت نے خبر دی کہ اس نے ان دونوں کو حبشہ میں دیکھا تھا۔ حضرت عثمان غنی حبشہ چند سال رہے اس کے بعد جب بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریش کے قبولِ اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان بھی آگئے یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے اس بنا پر بعض صحابہ پھر ملک حبشہ کی طرف لوٹ گئے مگر حضرت عثمان پھر واپس نہ گئے۔ اس اثناء میں مدینہ منورہ کی ہجرت کا سا مان پیدا ہو گیا اور رسول اللہﷺ نے اپنے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم فر ما یا تو حضرت عثمان بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے گئے جہاں آپ حضرت اوس بن ثابت کے مہمان ہوئے اور آپﷺ نے ان میں اور حضرت اوس بن ثابت میں بھائی چارہ قائم کر دیا۔ اس مواخات سے دو نوں خاندانوں میں جس قدر محبت اور یگا نگت پیدا ہو گئی تھی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مدینہ منورہ آنے کے بعد مہاجرین کو پانی کی سخت تکلیف تھی تمام شہر میں صرف بئیر رومہ ایک کنواں تھا جس کا پانی پینے کے لائق تھا مگر اس کا مالک ایک یہودی تھا اور اس نے اسے ذریعہ معاش بنا رکھا تھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مصیبت کو دور کر نے کے لیئے اس کنویں کو خرید کر اللہ تعالی کی راہ میں وقف کر دیا لیکن یہودی صرف نصف حق پر فروخت کر نے پر راضی ہوا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارہ ہزار درہم میں نصف کنواں خرید لیا اور شرط یہ قرار پائی کہ ایک دن حضرت عثمان کی باری ہو گی اور دوسرے دن اس یہودی کے لئے کنواں مخصوص ہو گا جس روز حضرت عثمان کی باری ہوتی تھی اس روز مسلمان اس قدر پانی بھر لیتے تھے کہ وہ پانی دو دن کے لئے کافی ہو تا تھا یہودی نے دیکھا کہ اسے اب کچھ نفع نہیں ہو سکتا تو وہ بقیہ نصف حصہ بھی فروخت کر نے پر راضی ہو گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آٹھ ہزار درہم میں بقیہ حقوق خرید کر اسے مکمل وقف کر دیا اس طرح اسلام میں حضرت عثمان کے فیض کرم کا یہ پہلا منظر تھا جس نے تو حید کے تشنہ لبوں کو سیراب کر دیا۔
  •  حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرض وفات میں خلافت کے لیئے چھ آدمیوں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعد بن وقاص، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نا م پیش کیا گیا کہ ان میں سے کسی کو منتخب کر لیا جا ئے اور تا کید کی گئی کہ تین دن کے اندر انتخا ب کا فیصلہ کیا جا ئے حضرت عمر فارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تجہیز وتکفین کے بعد انتخاب کا فیصلہ پیش ہوا اور دودن تک اس پر بحث ہو تی رہی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا آخر تیسرے دن حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا کہ وصیت کے مطابق خلافت چھ آدمیوں پر دائر ہے لیکن اس کو تین شخصوں تک محدودکر دینا چاہئے اور جو اپنے خیال میں جس کو مستحق سمجھتا ہو اس کا نام لے حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اپنے حق سے باز آتا ہوں اس لئے اب یہ معا ملہ صرف دو آدمیوں پر منحصر ہے اور ان دو نوں میں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سنت شیخین کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جا ئے گی اس کے بعد علیحدہ علیحدہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ دو نوں اس کا فیصلہ میرے ہاتھ میں دیدیں۔ ان دونوں حضرات کی رضا مندی لینے کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور باقی تمام صحابہ کرام مسجد میں جمع ہوئے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مختصر لیکن موٴثر تقریر کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کے لئے ہاتھ بڑھا دیا چنا نچہ تمام حاضرین بیعت کے لئے لپک پڑے اور یوں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ سوم قرار پائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں تاریخی کارنامے سرانجام دیئے آپ کا سب سے اہم کارنامہ امت کو قرآن مجید کی ایک متفقہ قرآن پر جمع کر نا تھا چنانچہ آپ بجا طور پر ناشر قرآن کریم کہلائے آپ کے دور کی فتوحات اسلام مخالفین کو برداشت نہ ہو سکیں چنانچہ آپ کے خلاف بڑی گہری سازشیں کی گئیں آپ کے گھر کا دانہ پانی بند کیا گیا۔ یہ ظلم چالس روز تک روا رکھا گیا جس وقت آپ پر حملہ کیا گیا آپ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے وہ قرآن مجید آج بھی استنبول میں آپ کے خون کا گواہ بن کے محفوظ ہے۔ حضرت عثمان کی زندگی مسلمانوں کو یہ درس دیتی ہے کہ قر آن مجید کو کسی حال میں نہیں چھوڑنا اور دین اسلام کے لئے مال و دولت قربان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے اور صلح جوئی کو فروغ دینا چاہیے۔ شہا دت کے وقت آپ روزے سے تھے۔ شہادت سے ایک روز پہلے خواب میں آقا ئے دوجہاںﷺ کی زیارت ہو ئی آپﷺ نے افطاری اپنے ساتھ کر نے کافر ما یا چنانچہ اسی روز شہا دت کا تاج اپنے سر سجا کر اللہ کو پیارے ہو گئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اشاعت اسلام کے لئے خدمات تاریخ اسلام کا لازمی حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ و دیگر خلفائے راشدین و صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

Saturday, October 11, 2014

ابليس کي مجلس شوري

يہ عناصر کا پرانا کھيل، يہ دنيائے دوں
ساکنان عرش اعظم کي تمناؤں کا خوں!
اس کي بربادي پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں
ميں نے دکھلايا فرنگي کو ملوکيت کا خواب
ميں نے توڑا مسجد و دير و کليسا کا فسوں
ميں نے ناداروں کو سکھلايا سبق تقدير کا
ميں نے منعم کو ديا سرمايہ داري کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کي آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں ميں ہو ابليس کا سوز دروں
جس کي شاخيں ہوں ہماري آبياري سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!


پہلا مشير
اس ميں کيا شک ہے کہ محکم ہے يہ ابليسي نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامي ميں عوام
ہے ازل سے ان غريبوں کے مقدر ميں سجود
ان کي فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قيام
آرزو اول تو پيدا ہو نہيں سکتي کہيں
ہو کہيں پيدا تو مر جاتي ہے يا رہتي ہے خام
يہ ہماري سعي پيہم کي کرامت ہے کہ آج
صوفي و ملا ملوکيت کے بندے ہيں تمام
طبع مشرق کے ليے موزوں يہي افيون تھي
ورنہ 'قوالي' سے کچھ کم تر نہيں 'علم کلام'!
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقي تو کيا
کند ہو کر رہ گئي مومن کي تيغ بے نيام
کس کي نوميدي پہ حجت ہے يہ فرمان جديد؟
'ہے جہاد اس دور ميں مرد مسلماں پر حرام!

دوسرا مشير
خير ہے سلطاني جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہيں ہے با خبر!

پہلا مشير
ہوں، مگر ميري جہاں بيني بتاتي ہے مجھے
جو ملوکيت کا اک پردہ ہو، کيا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہي کو پہنايا ہے جمہوري لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہرياري کي حقيقت اور ہے
يہ وجود مير و سلطاں پر نہيں ہے منحصر
مجلس ملت ہو يا پرويز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غير کي کھيتي پہ ہو جس کي نظر
تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوري نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!

تيسرا مشير
روح سلطاني رہے باقي تو پھر کيا اضطراب
ہے مگر کيا اس يہودي کي شرارت کا جواب؟
وہ کليم بے تجلي، وہ مسيح بے صليب
نيست پيغمبر و ليکن در بغل دارد کتاب
کيا بتاؤں کيا ہے کافر کي نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کي قوموں کے ليے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کيا ہوگا طبيعت کا فساد
توڑ دي بندوں نے آقاؤں کے خيموں کي طناب!

چوتھا مشير
توڑ اس کا رومہ الکبرے کے ايوانوں ميں ديکھ
آل سيزر کو دکھايا ہم نے پھر سيزر کا خواب
کون بحر روم کي موجوں سے ہے لپٹا ہوا
'گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،

تيسرا مشير
ميں تو اس کي عاقبت بيني کا کچھ قائل نہيں
جس نے افرنگي سياست کو کيا يوں بے حجاب

پانچواں مشير (ابليس کو مخاطب کرکے
اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!
تو نے جب چاہا، کيا ہر پردگي کو آشکار
آب و گل تيري حرارت سے جہان سوز و ساز
ابلہ جنت تري تعليم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہيں
سادہ دل بندوں ميں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقديس و تسبيح و طواف
تيري غيرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار
گرچہ ہيں تيرے مريد افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کي فراست پر نہيں ہے اعتبار
وہ يہودي فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتي ہو رہا ہے ہمسر شاہين و چرغ
کتني سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئي آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو ناداني سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
فتنہء فردا کي ہيبت کا يہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہيں کوہسار و مرغزار و جوئبار
ميرے آقا! وہ جہاں زير و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تيري سيادت پر مدار


ابليس ( اپنے مشيروں سے

ہے مرے دست تصرف ميں جہان رنگ و بو
کيا زميں، کيا مہر و مہ، کيا آسمان تو بتو
ديکھ ليں گے اپني آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
ميں نے جب گرما ديا اقوام يورپ کا لہو
کيا امامان سياست، کيا کليسا کے شيوخ
سب کو ديوانہ بنا سکتي ہے ميري ايک ہو
کارگاہ شيشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر ديکھے تو اس تہذيب کے جام و سبو!
دست فطرت نے کيا ہے جن گريبانوں کو چاک
مزدکي منطق کي سوزن سے نہيں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہيں مجھ کو اشتراکي کوچہ گرد
يہ پريشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئي تو اس امت سے ہے
جس کي خاکستر ميں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم ميں اب تک نظر آتے ہيں وہ
کرتے ہيں اشک سحر گاہي سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ايام ہے
مزدکيت فتنہ فردا نہيں، اسلام ہے!

جانتا ہوں ميں يہ امت حامل قرآں نہيں
ہے وہي سرمايہ داري بندہ مومن کا ديں
جانتا ہوں ميں کہ مشرق کي اندھيري رات ميں
بے يد بيضا ہے پيران حرم کي آستيں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے ليکن يہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پيغمبر کہيں
الحذر! آئين پيغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفريں
موت کا پيغام ہر نوع غلامي کے ليے
نے کوئي فغفور و خاقاں، نے فقير رہ نشيں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگي سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اميں
اس سے بڑھ کر اور کيا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کي نہيں، اللہ کي ہے يہ زميں!
چشم عالم سے رہے پوشيدہ يہ آئيں تو خوب
يہ غنيمت ہے کہ خود مومن ہے محروم يقيں
ہے يہي بہتر الہيات ميں الجھا رہے
يہ کتاب اللہ کي تاويلات ميں الجھا رہے

توڑ ڈاليں جس کي تکبيريں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا انديش کي تاريک رات
ابن مريم مر گيا يا زندہ جاويد ہے
ہيں صفات ذات حق، حق سے جدا يا عين ذات؟
آنے والے سے مسيح ناصري مقصود ہے
يا مجدد، جس ميں ہوں فرزند مريم کے صفات؟
ہيں کلام اللہ کے الفاظ حادث يا قديم
امت مرحوم کي ہے کس عقيدے ميں نجات؟
کيا مسلماں کے ليے کافي نہيں اس دور ميں
يہ الہيات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بيگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگي ميں اس کے سب مہرے ہوں مات
خير اسي ميں ہے، قيامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کي خاطر يہ جہان بے ثبات
ہے وہي شعر و تصوف اس کے حق ميں خوب تر
جو چھپا دے اس کي آنکھوں سے تماشائے حيات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کي بيداري سے ميں
ہے حقيقت جس کے ديں کي احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہي ميں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہي ميں اسے