Tuesday, November 10, 2015

علم کی تعریف (حقیقی علم کس کو کہتے ہیں؟)

:فنی اعتبار سے علم کا مادہ ’’ع ل م،، ہے جس کے معنی ’’جاننا،، کے ہیں گویا

اَلْعِلْمُ اِدْرَاکُ الشَّيئِ بِحَقِيْقَتِه
’’علم کسی شے کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینے کا نام ہے۔،،

یعنی علم ایک ایسا ذہنی قضیہ اور تصور ہے جو عالم خارج میں موجود کسی حقیقت کو جان لینے سے عبارت ہے۔ علم کا اطلاق ایسے قضیے پر ہوتا ہے جو محکوم اور محکوم بہ پر مشتمل ہو اور جس کے متوازی خارج میں ایسی ہی حقیقت موجود ہو جیسی قضیے میں بیان ہوئی ہو، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر قضیہ علم نہیں ہو سکتا، وہی قضیہ علم کہلائے گا جو کلی اور وجوبی ہو اور موجود خارج کے حوالے سے صحت کا مصداق ہو۔

ارکان علم

مندرجہ بالا تعریف کے مطابق علم کے ارکان کی تعداد چار ہے۔

:ناظر

جو شخص علم کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ناظر کہلاتا ہے۔ یہ امتیاز اور درجہ اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان کو حاصل ہے۔ اسے معروف اصطلاح میں طالب علم بھی کہتے ہیں، یعنی کچھ جاننے کی جستجو میں رہنے والا طالب علم کہلاتا ہے۔ علم ایک بحر بیکراں ہے۔ کوئی شخص کلی علم حاصل کر لینے کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ علم کا طالب جب کچھ نہ کچھ جان لے تو اسے عالم کہا جا سکتا ہے۔

: منظور

منظور وہ شے ہے جسے جانا جا رہا ہو۔ اس سے مراد کوئی حقیقت ہوسکتی ہے، خواہ یہ عقلی وجود رکھتی ہو یا حسی۔ یہ کائنات رنگ و بو اور اس کے مادی اور غیر مادی موجودات و حقائق منظور کا درجہ رکھتے ہیں۔

:استعداد نظر 

اس سے مراد یہ ہے کہ ناظر جو مشاہدہ کر رہا ہے اس میں کسی چیز کو جاننے کی صلاحیت اور اور استعداد کس قدر موجود ہے۔ علم کا یہ تیسرا رکن ہے۔ اگر منظور (وہ حقیقت جس کے بارے میں جانا جا رہا ہو) حسی نوعیت کی ہو تو ناظر کو حواس خمسہ کی استعداد حاصل ہونی چاہئے تاکہ وہ حواس خمسہ سے اس چیز کو اپنے حیطہ ادراک میں لے سکے۔ اس کے برعکس اگر منظورعقلی نوعیت کا ہو تو ناظر میں استعداد عقلی کا ہونا ضروری ہے۔ اس استعداد کے بغیر عقلی نوعیت کے کا حیطہ ادراک میں آنا ممکن نہیں۔ اگر منظورایسا ہو کہ اس کے لئے وجدان ضروری ہے تو ناظر کو بھی ایسی ہی وجدانی استعداد کا حامل ہونا چاہئے۔ ان صلاحیتوں سے بالاتر بھی ایک استعداد وحی کی ہے جو صرف اور صرف انبیاء کا خاصہ ہے۔ عام آدمی کا اس استعداد سے بہرہ ور ہونا ممکن ہی نہیں یہ صلاحیت کلی طور پر عطائی ہے جو اللہ رب العزت کے انبیاء اور رسولوں سے مختص ہے۔

: منظوریت 

علم کے ارکان میں چوتھا اور آخری رکن منظوریت ہے۔ اس سے مراد وہ اصلیت اور مقصدیت ہے جسے جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کے لئے لازم ہے کہ وہ اس قابل ہو کہ ناظر کی کسی بھی مخصوص استعداد سے معلوم ہو سکے۔

  تصور علم سورہ علق کی روشنی میں 

علم کی تعریف اور اس کے ارکان کی تشریح و توضیح کے بعد اب ہم سورہ علق کی پہلی پانچ آیات کی تفہیم کی روشنی میں اسلام کے تصور علم کو واضح کرتے ہیں۔ 

١٧ مضان المبارک کو غار حرا کی خلوتوں میں جب جبرئیل امین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو وحی کے ذریعہ اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان الفاظ میں ہمکلام ہوا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ- خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ- اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ- عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
اے حبیب! اپنے رب کے نام سے آغاز کرتے ہوئے پڑھئے جس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اس نے انسان کو رحمِ مادر میں جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے لکھنے پڑھنے کا علم سکھایا جس نے انسان کو اس کے علاوہ بھی وہ کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ یا:- جس نے سب سے بلند رتبہ انسان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بغیر ذریعہ قلم کے وہ سارا علم عطا فرما دیا جو وہ پہلے نہ جانتے تھے
 (العلق، 96 : 1 - 5)

یہ وہ پانچ آیات مقدسہ ہیں جن میں علم کا پیغام دے کر نازل کیا گیا۔ گویا انسان کچھ نہیں جانتا تھا اسے علم عطا کیا گیا، وہ جاننے لگا، اسے اندھیروں سے اجالوں کے دامن میں لایا گیا۔ اسے روشنی عطا کی گئی، علم و آگہی روشنی کے سفر کا نام ہے۔ مذکورہ بالا آیات کے ذریعہ رب کائنات نے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے نسل آدم کو باقاعدہ ایک سلسلہ تعلیم سے منسلک کر دیا۔ ذہن انسانی میں شعور و آگہی کے ان گنت چراغ روشن کئے۔ گویا تاریخ اسلام میں سب سے پہلا سکول غار حرا کی خلوتوں میں قائم ہوا۔ اس سکول کے واحد طالب علم ہونے کا شرف سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیب ہوا اور استاد و مربی خود خالق کائنات ٹھہرے۔
 
 

2 comments: