Wednesday, July 22, 2015

حضرت علیؓ کی شاعری


اکثر اسلامی تاریخی روایات کے مطابق حضرت علیؓ کو فن شاعری سے بھی رغبت تھی۔ 1928ء میں آپ ؓ کا دیوان ہندوستان میں، عربی متن اور اردو ترجمہ کے ساتھ پہلی بار شائع ہوا، مترجم مولی سعید احمد اعظم گڑھی تھے۔ "یہ اس عظیم شخصیت کا مجموعہ کلام ہے جسے زبان نبویؐ نے علم کا دروازہ کہا کہا۔ لہٰذا ایسی شخصیت کے کلام کے متعلق کسی رائے کا اظہار سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔" ان الفاظ میں رائے دینے سے اپنی بے کسی کا اظہار ہی وہ عقیدت مندانہ رائے ہے جو قابل تقلید بھی ہے اور ناقابل تردید بھی۔ ذیل میں ہم کلام علیؓ سے منتخب اشعار کا اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

قاضی الحاجات کی درگاہ میں دعا و مناجات
حاضر ہوں حاضر ہوں، توہی میرا مالک ہے ٭ اپنے ناچیز بندہ پر رحم فرما، تو ہی اس کی جائے پناہ ہے اے صاحب بزرگی و بلندی تجھی پر میرا بھروسا ہے٭ اس کی خوش خبری، جس کا تو مالک ہو۔
اس شخص کو خوشخبری جو شرمندہ اور بیدار ہو٭ اپنی مصیبت کی خدا کی درگاہ میں شکایت پیش کرے اس کو کوئی شکایت، کوئی بیماری٭ اپنے مالک کی محبت سے زیاد نہیں۔
جب رات کی تاریکی میں تنہا گڑگڑاتا ہے٭ تو خدا پاک اسکی دعا قبول کرتا، اور اسے لبیک کہتا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے بندے تو نے مجھ سے سوال کیا اور تو میری پناہ میں ہے ٭ اور جو کچھ تونے کہا میں نے سنا۔
تیری آواز کے میرے فرشتے مشتاق ہیں٭ پس اس وقت میں نے تیرے گناہ کو بخش دیا۔
بہشت میں اسکی تمام آرزوئیں پوری ہوں گی٭ اس کے لئے خوشخبری اور خوشخبری پر خوشخبری ہے مجھ سے بلاشرم اور خوف کے مانگ٭ اور مجھ سے ڈر! کہ میں تیرا معبود ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرثیہ
کیا پیغمبر خدا صلعم کی تجہیز و تکفین اور کپڑوں میں دفن ہوجانے کے بعد ٭ کسی مرنے والے پر میں غم کرو گا۔
ہم اپنے پیغمبر خدا کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کئے گئے ۔ پس جب تک زندہ رہیں گے اس کے برابر کوئی موت نہیں دیکھ سکتے۔
اور وہ ہمارے یعنی اپنے گھر والوں کے لئے بمنزلہ قلعہ کے تھے ٭ اور ان کے لئے جائے پناہ اور دشمنوں سے جائے حفاظت تھے۔
اور ہم ان کے سامنے رہ کر نور اور ہدایت دیکھتے تھے٭ آپ صبح و شام ہم میں آتے جاتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد ہم کو تاریکی نے گھیر لیا٭ دن ہی میں، جو ظلمت شب سے بھی زیادہ ہے پس اے وہ شخص جو تمام ان لوگوں سے بہتر ہے جو پہلو اور دل رکھتے ہیں ٭ ان تمام مردوں سے بہتر جنگجو خاک اور مٹی نے اپنے نیچے رکھ لیا۔
گویا کہ لوگوں کے کام آپ کے بعد٭ ایسی کشتی میں رکھے گئے ہیں جو دریا کی بلند موجوں میں ہے۔ پس فضائے ارض باوجود کشادہ ہونے کے ان کے لئے تنگ ہوگئی ہے٭ رسول خدا کو گم کرنے کرنے کی وجہ سے جب کہا گیا کہ آپ گذر گئے
تو مسلمانوں پر ایسی مصیبت نازل ہوئی٭ جو مثل پتھر کے شگاف کے ہے اور پتھر کے شگاف کا جڑنا ممکن نہیں
اس مصیبت کے لوگ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے٭ اور جو ہڈی ان کی کمزور ہوگئی ہے ہرگز جوڑی نہیں جاسکتی
اور نماز کے ہر وقت بلال ان کو اٹھاتے ہیں٭ اور جب پکارتے ہیں ان کا نام لے کر پکارتے ہیں۔
لوگ مردہ کی وراثت چاہتے ہیں٭ اور ہم میں نبوت اور ہدایت کی وراثت ہے۔

نورچشم امام حسین ؓ کونصیحت
اے حسینؓ، میں تم کو نصیحت کرتا ہوں اور ادب سکھاتا ہوں٭ پس سمجھو، اس لئے کہ عقلمند وہی شخص ہے جو ادب پذیر ہو۔
اور مہربان باپ کی نصیحت یاد رکھو٭ جو تمہاری آداب سے پرورش کرتا ہے تاکہ تم ہلاک نہ ہوجاؤ اے بچے! روزی کی کفالت کرلی گئی ہے٭ پس جو کچھ طلب کرو، حسن و خوبی سے طلب کرو اپنی کمائی صرف مال نہ قرار دو٭ بلکہ اپنی کمائی خدا کا خوف ٹھہراؤ
خدا ہر مخلوق کی روزی کا ضامن ہے٭ اور مال عاریت ہے اور آنے جانے والی چیز ہے
روزی بلحاظ سبب جس وقت پیدا کی جاتی ہے٭پلکارے سے پہلے انسان کے پاس پہنچ جاتی ہے
اور سیلاب سے اپنے ٹھہرنے کی جگہ پر پہنچنے٭ اور چڑیوں کے گھونسلوں کی طرف اترنے سے، جس وقت اترتی ہیں، پہلے پہنچ جاتی ہیں۔
اے بیٹے! بیشک قرآن میں نصیحتیں ہیں٭ پس کون اس کی نصیحتوں کو اختیار کرے گا
پوری کوشش سے اللہ کی کتاب کو پڑھو اور تلاوت کرو٭ ان لوگوں میں ہوکر جو اس کو اپنے ذمہ لئے ہوئے ہیں اور کوشش کرتے ہیں
غور و فکر سے، فروتنی کے ساتھ اور حصول تقرب کے خیال سے ٭ اس لئے کہ مقرب وہی شخص ہے جو تقرب حاصل کرتا ہے۔
اخلاص کے ساتھ اپنے اس معبود کی عبادت کرو جو بزرگی والا ہے ٭ جو مثلیں بیان کی جائیں ان کو کان لگا کر سنو!
جب تم اس ڈراؤنی نشانی کے پاس سے گزرو٭ جو عذاب کو ظاہر کرتی ہو تو ٹھہر جاؤ اور آنسو جاری ہوں اے وہ ذات جو اپنے عدل سے جس کو چاہتی ہے عذاب دیتی ہے٭ مجھ کو ان لوگوں میں نہ کر جن کو عذاب دے گا۔
میں اپنی لغزش اور قصور کا اعتراب کرتا ہوں٭ بھاگ کر، اور تیرے ہی پاس بھاگنے کی جگہ ہے جب تم ایسی نشانی سے گزرو جس کے بیان میں ٭ وسیلہ جو بلند تر درجہ جنت ہے اور خوش کن نعمت کا ذکر کرو۔
اپنے معبود سے اخلاص اور توجہ کے ساتھ ٭ جنت کی دعا اس کی طرح مانگو جو تقرب چاہتا ہے
کوشش کرتے رہو شاید تم کو اس زمین پر نزول کا موقع مل جائے ٭ اور ان مقامات کی مسرت حاصل ہو جو ویران نہ ہوں گے
اور ایسی زندگی پا جاؤ جس کے وقت کے لئے انقطاع نہیں ہے٭ اورہمیشہ باقی رہنے والی کرامت کا ملک پاجاؤ
جب نیک کام کا قصد کرو تو اپنی خواہش نفسانی پر سبقت لے جاؤ٭ وسوسوں کے خوف سے، اس لئے کہ وہ آنے جانے والے ہیں
جب برائی کا خیال آئے تو اس سے اپنی آنکھ بند کرلو٭ اور اس کام سے بچو جس سے بچنا چاہیے
اپنے دوست کے لئے منکسر مزا ہوجاؤ اور اس کے لئے٭ اس باپ کے مثل ہوجاؤ جو اپنی اولاد پر مہربان ہے
مہمان کی اس وقت تک تعظیم کرو جب تک اس کا ساتھ رہے٭ یہاں تک کہ وہ تم کو اپنا نسبی وارث خیال کرنے لگے
اس شخص کو اپنا دوست بناؤ جس سے اگر تم بھائی چارہ کرو٭ تو وہ اس مواخاۃ کی حفاظت کرے اور تمہارے لئے لڑائی کرے
اور ان سے چاہ کرو، جس طرح بیمار شفا چاہتا ہے٭ جھوٹے کو چھوڑ دو اس لئے کہ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی صحبت اختیار کی جائے
ہر موقع پر اپنے دوست کی حفاظت کرو٭ اور اس شخص کی صحبت اختیار کرو جو جھوٹا نہ ہو
جھوٹے سے دشمنی کرو اور اس کے قریب و پڑوس سے بچو ٭ اس لئے کہ کاذب اپنے ہم نشین کو آلودہ کر دیتا ہے
زبانی تم سے امیدوں سے بڑھ کر وعدے کرتا ہے ٭ مگر لومڑی کی طرح تم سے کتراتا ہے
اور چاپلوس لوگوں سے بچو اس لئے کہ وہ ٭ مصائب کے وقت تم پر ایندھن لگائیں گے
وہ انسان کے اردگرد لگے رہتے ہیں، جب تک ان سے امید ہوتی ہے٭ جب زمانہ اس کے ناموافق ہوا ، لاپروائی کی اور چل دیئے
میں نے تم کو نصیحت کی، اگر تم میری نصیحت کو قبول کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے٭ اور نصیحت تمام بیع اور ہبہ کی چیزوں سے ارزداں ہے۔

سیدنا امام حسن علیہ السلام کو نصیحت
مصیبت کے وقت غم کی چادر اوڑھ لو٭ تو اس صبر جمیل کی وجہ سے انجام خیر تک پہنچو گے
اور ہر موقع پر حلم اختیار کرو٭ اس لئے کہ حلم ہی بہترین دوست اور ساتھی ہے۔
دوست کے عہد و پیمان کی حفاظت اور رعایت کرو٭ توتم کمال نگہداشت کی وجہ سے صاف مشرب کا مزا چکھو گے۔
ہر نعمت کے موقع پر، خدا کے شکر گذار رہو٭ تو جزا میں ان پر اور زیادہ بخشش عنایت کرے گا۔
انسان کو وہی رتبہ حاصل ہوگا جس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے گا٭ تو تم اپنے متعلق اعلیٰ مرتبہ کے طالب ہو۔
اور حلال طریقہ پر روزی طلب کرو٭ تو ہر طرف سے روزی چند در چند ہوجائے گی۔
اپنی آبرو کی حفاظت کرو اس کو مبتذل نہ کرو٭ اور رذیلوں سے بچی ہوئی چیز کی طلب مت کرو، خواہ تمہیں کتنی ہی مرغوب کیوں نہ ہو۔
اور دوست کے حق کو واجبی قرار دو جب وہ تمہارے پاس آئے ٭ مخلصانہ احسان کے ساتھ جو تم پر واجب ہے۔
اور والدین کے حق کی محافظت کرو٭ اور پرہیزگار پڑوسی اور خویش و اقارب کی مدد کرو۔

بدر میں اپنی شجاعت اور جلیل القدر صحابہ کی تعریف
ہم نے گمراہ لوگوں سے پیغمبر خدا کو اپنی شرافت کی وجہ سے بچایا ٭ اور لوگوں نے سیدھا راستہ دیکھا تھا، نہ ہدایت۔
اور جب ہدایت لے کر آپ آئے تو ہم سب کے سب ٭ خدائے مہربان کی فرمانبردای، حق اور پرہیزگاری کے پابند تھے۔
جب اور لوگوں نے روگردانی کی تھی تو اس وقت ہم نے پیغمبرؐ خدا کی مددکی تھی٭ اور تمام عقلمند مسلمان آپؐ کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔

اصل خاکی کی مذمت اور علم دین کی تعریف
لوگ بلحاظ صورت یکساں٭ ان کے باپ آدمؑ اور ماں حوا ؑ ہیں۔
لوگوں کی مائیں صرف نطفہ کے ظروف٭ اور اس کی جائے ودیعت ہیں حسب کا اعتبار باپ سے ہوتا ہے اگر لوگوں کو قابل فخر عزت نسب سے حاصل ہے٭ تو یہ عزت بے حقیقت ہے، اس لئے کہ ان کی اصل، مٹی اور پانی ہے۔
اگر تم نسب والوں سے فخر کو بیان کرتے ٭ تو اس سے بڑا فخر ہم کو حاصل ہے کیونکہ ہمارا نسب سخاوت اور بلند رتبگی ہے۔
صرف اہل علم کو بزرگی حاصل ہے٭ اس لئے کہ وہی ہدایت پر ہیں اور طالب ہدایت کے رہنما ہیں۔
انسان کی قدر وہ کمال ہے جس کو وہ خوبی سے انجام دے ٭ اور جاہل علم کے دشمن ہیں علم کی خدمت کر اور اس کے عوض مال مت طلب کر٭ اس لئے کہ تمام لوگ مردہ اور صرف اہل علم زندہ ہیں۔

جاھلوں اور غافلوں کی موانست سے نفرت
جاہلوں کی صحبت مت اختیار کر ان سے بچ ٭ کیونکہ بہت سے جاہلوں نے اس حکیم کو تباہ کردیا جس نے ان سے دوستی کی۔
دو آدمی جب ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو ایک دوسرے پر قیاس کیا جاتا ہے ٭ چیزیں ایک دوسرے کے لئے قیاس اور مشابہ ہوتی ہیں۔

بے وفا زمانہ کی شکایت اور بے اعتبار دوستوں کا ذکر
دوستی اور بھائی چارہ میں انقلاب ہوگیا٭ سچائی نادر ہوگئی اور امید منقطع
زمانہ نے مجھ کو ایسے دوست کے حوالے کر دیا٭ جو بہت بے وفا ہے اور اس میں رعایت کا مادہ نہیں۔
امید ہے کہ عنقریب وہ ذات جس نے اس کو مجھ سے مستغنی کیا ہے مجھ کو بھی مستغنی کردے گی٭
کیونکہ ناداری ہمیشہ رہتی ہے نہ تو انگری۔
اور نعمت ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں ہے٭ اسی طرح مصیبت کو بھی دوام حاصل نہیں ہے۔
ہر وہ محبت جو خدا کے لئے ہوتی ہے پاک ہوتی ہے ٭ دوستی میں بدکرداری سے صفائی نہیں پیدا ہوتی۔
جس وقت تم اپنے عزیز کی محبت سے ناآشنا بن جاتے ہو٭ تو میں محبت کرتا ہوں اس لئے کہ میرے دل میں شرافت اور حیاء ہے۔
ہر زخم کے لئے دوا ہے ٭ صرف بداخلاقی کی دوا نہیں
بہت سے بھائی ہیں جن کے ساتھ میں نے وفاداری کی٭ لیکن ان کی وفاداری پائی نہیں ہوئی۔
جب تک وہ لوگ مجھ کو دیکھتے ہیں محبت کو باقی رکھتےہیں ٭ اور محبت اسی وقت تک باقی رہتی ہے جب تک ملاقات رہتی ہے۔
جب تک میں ان سے مستغنی رہتا ہوں تو دوست ہوتے ہیں ٭ جب مجھ پر مصیبت نازل ہوتی ہے تو دشمن ہوجاتے ہیں۔
اگر میں نظر سے ہٹ جاتا ہوں تو دشمنی کرنے لگتے ہیں٭ اور مجھے کافی طور پر تکلیف دیتے ہیں جب کسی گھر کا سردار اٹھ جاتا ہے ٭ تو اس کے گھر والوں پر لوگ زیادتی کرتے ہیں۔

وہ بے وفا عورتیں جن میں سچائی ہے نہ صفائی
انکا ذکر چھوڑ کیونکہ ان میں کچھ بھی وفا نہیں ہے ٭ باد صبا اور ان کے وعدے دونوں کی ایک سی حالت ہے۔
تمہارے دل کو توڑتی ہیں پھر اس کو جوڑتی نہیں ٭ اور ان کے قلوب وفاداری سے خالی ہیں۔

اس دنیا کو طلاق کا حکم جونالائق دلھن ہے۔
دنیا کو تین دفعہ طلاق دے دو اور اس کے علاوہ دوسری عورت تلاش کرو ٭ کیونکہ وہ ایسی بری عورت ہے کہ اس کو پرواہ نہیں کہ کون اس کے پاس آتا ہے یعنی ہرجائی ہے۔
جہاں مطلب بر آری ہوگئی، وہیں بیٹھ پھیر لی۔

ہفتہ کے دنوں کے پسندیدہ معمولات
یقینا شکار کے لئے ہفتہ کا دن اچھا ہے ٭ اگر تم چاہو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
یکشنبہ کے روز مکان بنانا بہتر ہے اس لئے کہ ٭ اسی دن خدا پاک نے آسمان بنانا شروع کیا تھا اور دوشنبہ کے دن اگر تم سفر کرو ٭ تو امید ہے کہ کامیابی اور دولت حاصل ہوگی۔
جو پچھنا لگانا چاہے تو منگل ہے٭ اس لئے کہ اس کی ساعتوں میں خون جاری ہوجانے کا اثر ہے اگر کوئی شخص دوا پیئے ٭ تو اسکے لئے بہترین دن چہار شنبہ کا ہے۔
جمعرات ضرورت کے پور کرنے کا دن ہے ٭ کینوکہ اس میں اللہ دعاؤں کی اجازت دیتا ہے جمعہ کے دن شادی، بیاہ ٭ اور مردوں کو عورتوں سے لطف اُٹھانا چاہیے۔

رنج کے بعد خوشی اور دقت کے بعد آسانی
جب دلوں کو مایوسی گھیر لیتی ہے٭ اور کشادہ سینہ اس کی وجہ سے تنگ ہوجاتا ہے۔
اور مصیبتیں وطن بنا کی مطمئن ہوجاتی ہیں ٭ اور ان کی جگہوں میں تکلیفیں لنگر انداز ہوجاتی ہیں اور اس تکلیف کے دور ہونے کی صورت نظر آتی ہے ٭ اور اپی تدبیر سے عقلمند کچھ نہ کر سکا۔
اس وقت اس نا امیدی کے بعد تمہارے پاس ایک فریاد رس آتا ہے ٭ جس کے واسطہ س مہربان دعا قبول کرینوالا خدا احسان کرتا ہے۔
تمام حوادث زمانہ جب انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ٭ تو اس کے بعد جلد کشادگی آتی ہے۔

علم و ادب کی تعریف، عقل و حسب کی ستائش
ہمارے زمانہ میں مصیبت تعجب انگیز نہی ہے ٭ بلکہ اس میں سلامتی ہی بہت زیادہ حیرت انگیز ہے زینت دینے والے کپڑوں کا جمال کچھ نہیں ہے٭ حقیقت میں جمال، علم و ادب کا جمال ہے۔
یتیم وہ نہیں ہے جس کا باپ مر گیا ٭ حقیقتا یتیم وہ ہے جو عقل و شرافت سے محروم ہے۔

منافقوں کی شکایت
جس طرح گذشتہ کل گیا وفاداری بھی گئی ٭ لوگ دغاباز اور مکار ہوگئے
آپس میں دوستی اور خلوص کی اشاعت کرتے ہیں ٭ اور ان کے دلوں میں بچھو چھپے ہوتے ہیں۔

حقیقت میں شیطان بصورت انسان ہیں
بہت سے لوگ گزرے ہوئے زمانہ کی شکایت کرتے ہیں ٭ حالانکہ گزشتہ زمانہ میں اب کوئی تغیر نہیں ہوسکتا۔
میں دیکھتا ہوں کہ رات اسی طرح گزر رہی ہے جیسا میں نے پہلے دیکھا تھا٭ اور دن بھی اسی طرح آتا جاتا ہے۔
اور آسمان نے ہم سے بارش نہیں رد کی٭ اور نہ آفتاب و مہتاب میں گرہن لگا۔
پس اس سے کہدے جو گردش زمانہ کی مذمت کرتا ہے٭ کہ تونے زمانہ پر ظلم کیا پس انسان کی مذمت کر۔

عار کے انواع و اقسام اور دشمنان و حشت شعار پر تعریض
آگ عار برداشت کرنے سے بہتر ہے ٭ اور عار اس کو آگ میں لے جاتی ہے۔
اس شخص کے لئے عار ہے جو رات گزارے اور اس کا پڑوسی ٭ بھوکا ہو اور اس کے پرانے کپڑے شکستہ ہوں۔
کمزور کی دل شکنی اور اس پر ظلم ٭ اور نیکوں کو بدوں کیساتھ کھڑے کرنا بھی ننگ ہے۔
ننگ یہ بھی ہے کہ کوئی تم کو ایسا نفع پہنچائے ٭ جو تمہارے نزیک کم ہو۔
اس شخص میں بھی ننگ ہے جو دشمنوں سے اعراض کرے ٭ اور قرابت مندوں کے لئے مشکل شکاری شیر کے ہو۔
یہ بھی ننگ ہے کہ تم لوگوںمیں پیش پیش ہو ٭ اور لڑائی میں بھاگنے والوں میں ہو۔
طلب حلال کے لئے کوشش کر اور اس کو ٭ اسراف اور فضول خرچی سے مت کھا
صرف اپنے گھر والوں پر خرچ کر، یامہمان پر یا اس شخص پر٭ جو تنگی کی تکلیف کی شکایت کرے۔

اس بات پر فخر کہ آپ کی خوشبو تلوار و خنجر ہے
تلوار و خنجر ہماری خوشبو ہیں٭ نرگس اور گل مورد پر تف ہے۔
ہماری شراب ہمارے دشمنوں کا خون اور ٭ ہمار جام دشمنوں کے سر کی کھوپڑی ہے۔

احسان کے مراسم اور لوازم کی ھدایت
احسان طبیعت کی شرافت کا نتیجہ ہے ٭ اور احسان جتانا نیکی برباد کرنے کا باعث ہے۔
اور بھلائی محفوظ پہاڑ کی چوٹ سے ٭ بھی زیادہ حفاظت کرتی ہے۔
برائی کا بہاؤ پانی کے تیز٭ بہاؤ سے بھی زیادہ تیز ہوتا ہے۔
دوست کے تعلق کو چھوڑ دینا ٭ بے تعلقی کا باعث ہوتا ہے۔
لوگوں کی عیب جوئی سے اپنے آپ کو آلودہ نہ کرو ٭ اس لئے کہ دوسروں کی عیب جوئی تم کو بھی آلودہ کردے گی۔
بہ تکلف کسی خلق کو اختیار کرنا اس بات سے ٭ رک نہیں سکتا کہ اپنی اصلی طبیعت کی طرف لوٹ آ مخلوق یعنی بندگان خدا فطرۃ ٭ بری اور بھلی خصلت والے پیدا کئے گئے ہیں۔

وہ نصیحتیں جو بہت سے فوائد اور مصالح پر مشتمل ہیں۔
اپنے لئے زندگی ہی میں زادراہ پہلے بھیج دے ٭ اس لئے کہ کل تو دنیا کو چھوڑ دے گا اور تجھ کو الوداع کہا جائے گا۔
اور قریبی سفر (موت) کااہتما م کر اس لئے ٭ کہ وہ دور والے سفر قیامت سے بہت دور ہے۔
اپنا زادراہ، خوف و تقویٰ بنا ٭ اور یہ کہ گویا تیری موت شام سے بھی جلدی آنیوالی ہے۔
اور بقدر ضرورت روزی پر قناعت کر اس لئے کہ قناعت ہی بے نیازی ہے ٭ اور فقر اس شخص کے لئے لازم ہے جو قانع نہیں ہے۔
اور کمینوں کی صحبت سے پرہیز کر اس لئے کہ وہ ٭ تجھ سے خالص محبت نہ کریں گے بلکہ تضع سے کام لیں گے۔
جب تک تو ان کو خوش رکھے گا وہ تجھ سے محبت کریں گے ٭ جب تو عطیہ روک دے گا تو ان کا زہر تیرے لئے تر کیا ہوا ہے۔
کسی بھید کو افشا جہاں تک ممکن ہو ٭ اس شخص سے نہ کر جو مخفی بھیدوں کو تجھ سے کہتا ہو۔
اس لئے کہ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ وہ دوسرے کے بھید کیساتھ کرتا ہے ٭ ایسا ہی یقینا تمہارے بھید کے ساتھ کرے گا۔۔
جب تم بھیدوں کے امین بنائے جاؤ تو ان کو پوشیدہ رکھو ٭ اور جب واقف ہو جاؤ تو اپنے بھائی کے عیب کو چھپاؤ۔
کسی محفل میں قبل سوال کے کوئی بات ٭ ظاہر نہ کرو، اس لئے کہ یہ بری بات ہے۔
اس لئے کہ سکوت جوان کیساتھ حسن ظن قائم کرتا ہے ٭ اور اگرچہ و بیوقوف، نادان اور احمق ہو اور مذاق ترک کر اس لئے کہ مذاق کرنے والے کے بہت سے الفاظ ٭ ناقابل دفعیہ مصائب کے باعث ہوتے ہیں۔
اور اپنے پڑوسی کے تحفظ کو ضایع نہ کر ٭ اس لئے کہ ضائع کرنیوالا اعلیٰ شرف کو نہیں پہنچ سکتا۔
اور مہمان کی تعظیم کر تو پائے گا کہ وہ ٭ ان لوگوں کے متعلق خبر دے گا جو سخاوت کرتے ہیں اور جو بخل اور منع کرتے ہیں۔
جب تم سے برائی کرنیوالا لغزش کی معافی چاہے٭ تو معاف کردے اس لئے کہ خدا کا ثواب اس سے زیادہ ہے۔
مصائب زمانہ سے نہ گھبرا اس لئے کہ ٭ حوادث سے گھبرانے والے نادان ہیں۔
اور اپنے پدر بزرگوار کی ہر بات میں صیحت قبول کر ٭ اس لئے کہ اپنے پدر بزرگوار کا مطیع کبھی ذلیل نہ ہوگا۔

دنیا عالم مثال میں
جس کو دیائے دنی نے دھوکا دیا وہ ٹوٹے میں رہا ٭ اگر اس نے بہتوں کو دھوکا دیا تو اس میں کچھ نفع نہیں ہے۔
ہمارے پاس شبینہ ایک معزز شخص کے لباس میں ٭ اپنی زینت کیساتھ اپنی ان اداؤں میں آئی
تو میں نے کہا اس سے کہا کہ کسی دوسرے کو دھوکا دو ٭ ا سلئے کہ میں دنیا میں خوب واقف ہوں اور اس سے جاہل نہیں۔
مجھ کو دنیا سے کیا واسطہ اس لئے کہ محمد ﷺ ٭ فقر پر وقف ہیں اس سنگستان کے درمیان۔
فرض کیا کہ وہ ہمارے پاس خزانے اور اس کے موتی ٭ قارون کی دولت اور تمام قبیلوں کی حکومت لے کر آئے۔
کیا سب کا انجام فنا نہیں ہے ٭ اور اس کے جمع کرنے والوں سے اس کے نفع کا مطالبہ ہوگا؟
پس کسی دوسرے کو دھوکا دے، اس لئے کہ مجھ کو کچھ رغبت نہیں ہے۔ ہ تیری عزت کی، نہ ملک کی نہ عطیہ کی۔
میرا نفس،جو کچھ بھی اسکو روزی میسر ہے اس پر قانع ہے ٭ پس اسے دنیا تو جان اور وہ جانیں جو اپنے ساتھ برائی کرتے ہیں۔
اس لئے کہ میں خدا سے ، اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن، اس سے ملنا ہے ٭ اور اس عتاب سے خوف کرتا ہوں جو دائمی اور غیر منقطع ہے۔

اہل حقائق و معرفتہ پر نجم کے تاثیر کی نفی۔
اس نے مجھے ڈرایا ستاروں سے ٭ اور اس شر سے جو پیدا ہونے والا ہے۔
میں صرف اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں، باقی رہے ستارے ٭ تو مجھے ان کے شر سے اطمینان ہے۔

خالق جز و کل پر بھروسا کرنے کی ھدایت
خدا کی کس قدر پوشیدہ مہربانیاں ہیں ٭ ان کی پوشیدگی ذہین کی فہم سے بھی باریک ہے۔
اور کس قدر آسانیاں سختی کے بعد آئیں ٭ اور غمگین دل کی تکلیف کو دور کیا۔
بہت کام ایسے ہیں جن کی وجہ سے صبح تم کو تکلیف ٭ اور شام کوتمہیں مسرت حاصل ہوتی ہے۔
جب کسی دن حالات تم کو تنگ کریں ٭ تو خدائے یکتا، واحد اور بلند پر اعتماد کرو
نبی ؐ کو وسیلہ ٹھہراؤ، اس لئے کہ ہر کام ٭ آسان ہوجاتا ہے جب پیغمبر کو وسیلہ ٹھہرایا جاتا ہے جب کوئی مصیبت پڑے تو نہ گھبراؤ ٭ اسلئے کہ خدا کی بہت سی پوشیدہ عنائیتں ہیں۔
٭٭٭

اقتباس سہ ماہی نگارشات رسالہ ۲۰۰۱
دیوان علی رضہ عربی
 

Thursday, July 9, 2015

سومناتھ مندر کی حقیقت

تاریخ کی اس حقیقت کو اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے کہ انڈین کانگریس کے لیڈر آزادی کی جدوجہد میں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کی تشکیل کے خلاف تھے اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کی حیثیت کو قائم رکھنا چاہتے تھے، انکے نزدیک بھارت کی تقسیم ’’گائو ماتا‘‘کی تقسیم تھی، چنانچہ انگریزی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے آل انڈیا کانگریس کے لیڈروں نے متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کو فروغ دیا جس کی نفی علامہ اقبال نے فکری سطح پر اور قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی سطح پر کی اور پھر حالات کو ایسی کروٹ ملی کہ پاکستان دو قومی نظریے کی اساس پر معرض وجود میں آ گیا اور گزشتہ 68 برس سے اسے ثبات وقیام حاصل ہے درآنحالیکہ اندرا گاندھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس کا ایک بازو توڑنے میں کامیاب ہو چکی ہیں اور اب وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش بنانے میں مکتی باہنی کے باغیوں کے ساتھ تھے۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت میں موجود مسلم اقلیت اور پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے اور انہیں قد آور فصل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور حد یہ ہے کہ اب نریندرمودی بھارت کی تواریخ کو مسخ کرنے اور اپنی مرضی کی تواریخ لکھوانے کے پراجیکٹ پر بھی کام کررہے ہیں، تاہم غنیمت ہے کہ بھارت میں رومیلا تھاپر جیسی تاریخ دان بھی موجود ہیں جو صداقت کو جرأت مندی سے پیش کرنے سے گریز نہیں کرتیں، واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے صوبہ گجرات کے ساحل پر واقع سومناتھ کے مندر پر محمود غزنوی کے حملوں، مندر کی لوٹ مار اور اسکی شکست وریخت اور بت شکنی کے واقعات کو اس طرح پیش کیا گیا کہ ہندو عوام کے دلوں میں مسلمانوں کیخلاف شدید نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور بابری مسجد کے شہادت کا واقعہ اس انتہا پسندی اور نریندر مودی کی سازش کا نتیجہ ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کا یہ مقصد ڈھکا چھپا نہیں کہ بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے جس میں صرف ہندو بستے ہوں، غیر ہندوئوں کیلئے ان کا ’’ارشاد‘‘ ہے کہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو بن جائو یا پھر اس ملک کی بودوباش ترک کردو۔
سومناتھ کے مندر اور محمود غزنوی کے محلوں میں لوٹ مار کے سلسلے میں اتنا جھوٹ بولا گیا کہ اب بھارت کے ہندو اسے تاریخ کا راسخ سچ گردانتے ہیں لیکن رومیلا تھاپر جیسی منصف مزاج تاریخ دان نے ترکی اور ایران کے قدیم مخطوطات کے مطالعے کے بعد اس جھوٹ کی قلعی کھول دی ہے۔ اس بت کو ساتویں صدی عیسوی میں سعودی عرب سے سومناتھ کے مقام پر لایا گیا تھا جو اس وقت چھوٹا سا گائوں تھا لیکن یہ تجارت کا ایک اہم مقام بھی تھا۔ رومیلا تھاپر نے ایک کتبے کے مطالعے کے بعد یہ واقعہ بیان کیا کہ اس علاقے کے برہمنوں نے ایک ایرانی بیوپاری کو سومناتھ کی حدود میں مسجد بنانے کی اجازت دی تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سومناتھ کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلافات کے برعکس یگانگت تھی، ہندوستان کی قدیم تاریخ میں 1857ء تک سومناتھ پر محمود غزنوی کے حملوں کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو اس ملک کے مشترکہ ہندو مسلم سماج میں نہیں ملتا لیکن 1857ء کے بعد انگریزی حکومت کے ایک وائسرائے نے اپنے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ محمود غزنوی نے بڑی بے رحمی سے سومناتھ مندر کو تباہ کر کے وہاں موجود بت توڑ ڈالے اور مندر کے قیمتی دروازے غزنی لے گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کے اس وائسرائے کے بیان کو سرکارِ برطانیہ نے درست تسلیم کرلیا اور مندر کے مبینہ زریں دروازوں کو غزنی سے واپس لانے کی کارروائی بھی شروع کردی۔ رومیلا تھاپر، نیل وار بھٹا چاریہ، سورپائی گوپال، اور کے ، این پانیکر جیسے آزاد اور منصف خیال تاریخ دانوں نے اس واقعے کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے من گھڑت قراردیا ہے لیکن انگریز حکمرانوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ ہندوستان پر حکومت کرنے کیلئے ہندوئوں اور مسلمانوں میں نفرت اور نفاق ضروری ہے اور محمودی غزنوی کو ہندو دشمن اور بت شکن قرار دینے سے حکمرانی کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے، چنانچہ ایلن بروجیسے حکمرانوں نے اس قصے کو خوب ہوا دی اور اسے تاریخ کی نصابی کتابوں میں شامل کر کے دونوں قوموں کے معصوم بچوں کے اذہان کو تعصب سے آلودہ کردیا۔
اوپر لکھا جا چکا ہے کہ آل انڈیا کانگریس کے سیاسی رہنما بھی تشکیل پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ پنڈت نہرو نے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن سے مل کر جو سازش کی اور لیڈی مائونٹ بیٹن سے تعلقات کی جو نوعیت پیدا کی اس کیلئے تاریخ اپنی شہادت دے چکی ہے، اہم بات یہ ہے کہ محمود غزنوی اور سومناتھ کے مندر کے بارے میں ایلن برو نے اضافہ افسانہ گھڑا تھا اور جس کا پروپیگنڈہ قریباً ایک صدی تک ہوتا رہا اس نے ہندوستانی سیاست کو خوب آلودہ کیا اور بھارت کی فرقہ پرست تنگ نظر جماعتوں نے جن میں بی جے پی شامل ہے، خوب فائدہ اٹھایا، اس ضمن میں ایک انتہائی متعصب سیاستدان کے ایم منشی کا ذکر ضروری ہے جس نے سومناتھ کے مندر کی مبینہ شکستگی اور لوٹ کھسوٹ کو افسانے کے انداز میں فروغ دیا اور سیاسی تعصب کو سومناتھ مندر کے اس من گھڑت واقعے کے ساتھ جوڑ دیا لیکن رومیلا تھاپر جیسی تاریخ دانوں نے سچ کو پردہ پوش رہنے نہیں دیا، رومیلا تھاپر کی کتاب ’’سوم ناتھ‘‘ ان کی تحقیق کا قیمتی ثمر ہے۔ بھارت کے ایک سیمینار میں انہیں اس موضوع پر مقالہ پڑھنے کی دعوت دی گئی تو جو حقائق انکے سامنے آئے وہ حیران کن تھے۔ مثلاً ایک یہ بات ہی دیکھئے کہ ترکی اور فارسی کے تاریخی بیانیوں میں تو سومناتھ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے لیکن اسی دور میں ہندوستان میں جو کتابیں اور کتبے سنسکرت میں لکھے گئے ان میں سومناتھ کا ذکر تک معدوم ہے۔ اس واقعے کو بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر ایلن برو کے ذہن نے اختراع کیا، آزادی کے بعد اسے کے ایم منشی جیسے متعصب سیاستدانوں نے ہوا دی اور اب بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی اس نوع کے غلط واقعات پر ہندو مسلم نفرت کو پھیلا کر اپنے مقاصد اور مطالب کی فصل کاٹنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن غنیمت ہے کہ بھارت میں ہی رومیلا تھاپر جیسے تاریخ دان موجود ہیں جو تاریخ کے سچ کو جھوٹ کے ٹھیس سے الگ کررہے ہیں اور اس حقیقت کو فروغ دے رہے ہیں کہ تاریخی واقعات کی نوعیت کتنی مختلف ہے اور غلط پروپیگنڈہ اسے کیا سے کیا بنا دیتا ہے۔

 کالم نگار  |  ڈاکٹر انور سدید

 

Monday, July 6, 2015

اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میں

قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا
 
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
(الکهف، 18 : 28)

اے میرے بندے! تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہے

اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ 

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے

ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔

غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ 

جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا

وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔

اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا

فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ
(انعام، 6 : 68)
پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کرو

اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ 

 بقولِ شاعر
صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالع تُرا طالع کند