Wednesday, June 11, 2014

الله پاک سے عہد شکنی کا نتیجہ : ثعلبہ بن حاطب کا واقعہ

ثعلبہ بن حاطب نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی اس کے لئے مالدار ہونے کی دعا فرمائیں ، حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے اس بہت سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کر سکے ، دوبارہ پھر ثعلبہ نے حاضر ہو کر یہی درخواست کی اور کہا اسی کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا کہ اگر وہ مجھے مال دے گا تو میں ہر حق والے کا حق ادا کروں گا ۔ 
 حضورصلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اللّٰہ تعالٰی نے اس کی بکریوں میں برکت فرمائی اور اتنی بڑھیں کہ مدینہ میں ان کی گنجائش نہ ہوئی تو ثعلبہ ان کو لے کر جنگل میں چلا گیا اور جمعہ و جماعت کی حاضری سے بھی محروم ہوگیا ۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا حال دریافت فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا کہ اس کا مال بہت کثیر ہوگیا ہے اور اب جنگل میں بھی اس کے مال کی گنجائش نہ رہی ۔ 
حضورصلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ثعلبہ پر افسوس پھر جب حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ کے تحصیل کرنے والے بھیجے ، لوگوں نے انہیں اپنے اپنے صدقات دیے جب ثعلبہ سے جا کر انہوں نے صدقہ مانگا اس نے کہا یہ تو ٹیکس ہوگیا ، جاؤ میں سوچ لوں جب یہ لوگ رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کچھ عرض کرنے سے قبل دو مرتبہ فرمایا '' ثعلبہ پر افسوس '' تو سورۂ توبہ کی یہ آیت نازِل ہوئی 

اور ان میں کوئی وہ ہیں جنہوں نے اللّٰہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دےگا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ہم ضرور بھلے آدمی ہوجائیں گے
 
پھر ثعلبہ صدَقہ لے کر حاضر ہوا تو سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے مجھے اس کے قبول فرمانے کی ممانعت فرما دی ۔ وہ اپنے سر پر خاک ڈال کر واپس ہوا پھر اس صدَقہ کو خلافتِ صدیقی میں حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی اسے قبول نہ فرمایا پھر خلافتِ فاروقی میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے پاس لایا انہوں نے بھی قبول نہ فرمایا اور خلافتِ عثمانی میں یہ شخص ہلاک ہوگیا ----   مدارک

امام فخر الدّین رازی نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نِفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے ۔ 

حدیث شریف میں ہے منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے خلاف کرے ، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔

پاکستان بھی الله پاک سے ایک عہد کر کے مانگا گیا تھا کہ ہم یہاں الله کا قانون نافذ کریں گے اور جب الله پاک نے ہم کو اس عظیم نعمت سے نواز دیا، تو ہم نے اپنے عہد کو پورا نہیں کیا -- نتیجہ آپ کے سامنے ہے 

Sunday, June 8, 2014

اے راہ حق کے شہیدو تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں

١٩٦٥ء کی جنگ ختم ہونے کے چند ماہ بعد مدینہ منورہ میں ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاموش بیٹھا آنسو بہاتے ہوئے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ یہ پاکستانی بزرگ 11 ستمبر 1965ء کو سیالکوٹ پھلورا محاذ پر شہید ہونے والے کوئٹہ انفنٹری سکول کے انسٹرکٹر میجر ضیاء الدین عباسی (ستارہ جراُت) کے والد گرامی تھے۔
میجر ضیاء الدین عباسی کے ٹینک کو دشمن کی توپ کا گولہ لگا جس سے وہ شہید ہوگئے۔ جب صدر ایوب خان کی طرف سے میجر عباسی شہید کے والد اپنے شہید بیٹے کو بعد از شہادت ملنے والا ستارہ جرات وصول کر رہے تھے تو ایوب خان نے ان سے ان کی کوئی خواہش پوچھی، تو انہوں نے عمرہ کی خواہش کا اظہار کیا جسے ایوب خان نے فورا” قبول کر لیا۔ شہید میجر ضیاء الدین عباسی ستارہ جرات کے والد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیٹھے آنسو بہا رہے تھے تو خادم مسجد نبوی وہاں آئے اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ آپ میں سے کوئی پاکستان سے تعلق رکھتا ہے؟
 
 میجر عباسی شہید کے والد نے خادم مسجد نبوی کے استفسار ہر کہا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں۔ خدام مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ پاکستانی فوج کے میجر ضیاء الدین عباسی شہید کا نام آپ نے سنا ہے؟ یا آپ جانتے ہیں؟ اس پر شہید کے والد نے حیرت سے کہا کہ وہ ہی اس شہید عباسی کے والد ہیں۔
یہ سنتے ہی خوشی اور مسرت سے لبریز خادم خاص نے آگے بڑھ کر زور سے انہیں گلے لگا لیا اور ان کے بوسے لیتے ہوئے کہا کہ آپ یہیں رکیں، میں کچھ دیر بعد آتا ہوں۔
 
 وہ میجر عباسی کے والد کو اپنے گھر لے گئے جہاں انہیں بڑی عزت اور احترام کے ساتھ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھانا کھلایا۔ سب گھر والے ان کے ساتھ بڑی عزت اور احترام سے پیش آرہے تھے۔ میجر عباسی شہید کے والد بہت حیران تھے کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟ میں تو انہیں جانتا تک نہیں بلکہ زندگی میں پہلی بار میرا سعودی عرب آنا ہوا ہے۔ اسی شش و پنج میں تھے کہ خادم خاص روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے ہاتھوں کے ایک بار پھر بوسے لیے اور شہید عباسی کے والد کی حیرانگی دور کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جب پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہو رہی تھی تو 11 ستمبر کی رات میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ وہ اپنے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔
 
 کچھ لمحوں بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے ہاتھوں میں ایک لاشہ اٹھائے وہاں تشریف لاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ شہید عباسی اسی طرح بہادری سے کفار کے خلاف جنگ لڑے ہیں جیسے آپ میرے ساتھ غزوات میں کفار کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ خادم مسجد نبوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سمیت سب نے ان کی نماز جنازہ ادا کی اور حکم دیا کہ انہیں جنت بقیع میں دفن کر دیا جائے۔

 عین اسی دن ریڈیو پاکستان پر ایک نیا جنگی ترانہ گونج رہا تھا ۔ ۔ ۔
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم ۔ ۔ ۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے بانہوں میں لے لیا ہوگا ۔ ۔ ۔
علی تمہاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے ۔ ۔ ۔ حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا ۔ ۔ ۔
اے راہ حق کے شہیدو تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں۔


 (منیر احمد بلوچ کے کالم سے اقتباس)

1965, a few months after the war ended in Medina, an aging silent tears Pakistani shrine by the Holy Prophet was seen. It's great Sept 11, 1965, Sialkot, Quetta killed on the front phlura infantry school instructor Major Ziauddin Abbasi, SJ, was the father.
Major Ziauddin Abbasi enemy mortar shell hit the tank from which they were martyred. President Ayub Khan Abbasi Shaheed Major by his father killed his son after receiving evidence were missing, SJ Ayub Khan asked him his wish, he desired one of the Job Khan immediately "accepted. Major Ziauddin Abbasi Shaheed SJ, the shrine of the father sitting in front of the Holy Prophet were tears and there servant Mosque asked people sitting there one belongs to Pakistan?
Major Abbasi Shaheed Mosque query each servant's father said he came from Pakistan. Mosque servants of Allah be upon him, asked the Pakistani Army Major Ziauddin Abbasi Shaheed name you've heard? Did You Know? The martyr's father, said he wondered if his father Shaheed Muhammad.
Full of happiness and joy to hear certain forward thrust servant hugged and kissed him and said do you stay here, I'll be back later.
Major Muhammad's father took him to his home where his family with great honor and respect with food. All home with great honor and respect those who were coming. Abbasi Shaheed Major's father was very surprised or divine what is the matter? I do not know him, but for the first time in my life I have come to Saudi Arabia. Similar disputes that were in the shrine Messenger servant upon his hands and kisses again Abbasi Shaheed said that while the father's surprise when Pakistan and Indian War was the 11 In late September the Prophet, peace be upon the visions that he saw Rizwan Glorious Companions synonymous with al-sitting.
After a few moments of Hazrat Ali (RH) raised his hands in which Imam Zainulabideen bring navigate there. Prophet Muhammad peace be upon him said to his disciples, Abbasi Shaheed fought so bravely against them with me as battles are fought against the infidels. Mosque servant says Allah upon everyone, including his funeral and ordered that he be buried in Paradise belief.
Radio Pakistan on the same day a new war anthem was filled. . .
Evidence which would leave you a drink. . . The arms have taken on him. . .
Ali will be swinging on your finger. . . What is the meaning of Hussein. . .
A martyr for truth. . . God rzayyn salute you. . . !
(Excerpt from the Munir Ahmed Baloch column

Bismillah Al Rahman Al Rahim بسم الله الرحمن الرحيم

Bismillah (h)ir-Rahman (n)ir-Raheem. بسم الله الرحمن الرحيم
In The Name Of ALLAH, The (Most) Gracious, The (Most) Merciful.

Saturday, June 7, 2014

لفظ "رب" کی علمی تحقیق

یہ لفظ سورہ فاتحہ میں ذات باری تعالیٰ کی پہلی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے معنی مربی اور مالک کے ہیں۔ فاتحۃ الکتاب میں باری تعالیٰ کی شان الوہیت پر دلالت کرنے والے پہلے صفاتی نام کی حیثیت سے اس کے معنی و مفہوم کو مختلف جہتوں سے سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر مضمر اعلان ربوبیت درحقیقت توحید الٰہی کا سب سے کامل اور بین ثبوت ہے۔ کیونکہ دور جاہلیت کے کفار و مشرکین کی طرح انسانی زندگی میں شرک، تصور خالقیت کی راہ سے کم اور تصورِ ربوبیت کی راہ سے زیادہ داخل ہوا ہے۔

یہ امر ثابت اور مسلّم ہے کہ کفار و مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو نام خواہ کچھ بھی دیتے ہوں، اسے رب الارباب ضرور مانتے تھے۔ کائنات میں اس کی مطلق بڑائی سے کسی کو انکار نہ تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ اس بالادست ہستی کے نیچے کئی رب اور بھی مانتے تھے اور اسی عقیدے نے ان کی جبینوں کو متعدد خداؤں کی پرستش کے لیے جھکا دیا تھا۔ ربوبیت میں اس تصور شراکت نے عقیدہ توحید کے خالص اور نکھرے ہوئے چہرے کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ بنا بریں ہم لفظ رب کے معنی کا جائزہ علمی و عملی ہر دوگوشوں سے لینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے حقیقی مفہوم اور تصور کی معرفت حاصل ہوسکے۔ اس کی مختصر تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ تربیت کے معنی میں اصلاً مصدر ہے مگر اس کا اطلاق و صفاً فائل کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے عادل کے لیے مبالغۃ عدل کا اور صائم کے لیے صوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ فی الحقیقت رب صرف مربی کو نہیں بلکہ نہایت ہی کامل مربی کو کہا جاسکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو خود ہر جہت سے کامل ہو وہی دوسرے کی کامل تربیت کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔ اس لیے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے
التربية هی تبليغ الشئي الي کماله شيا فشيا.
تربیت سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ اس کے کمال تک پہنچانا ہے۔
(تفسيرأبی السعود، 1 : 13)

بعض اہل علم کے نزدیک لفظ رب، مربی کے معنی میں خود نعت ہے۔ (جیسے نعمَّ۔ ینمّ۔ فھونمٌّ، ربّ، یربّ، فھو ربٌّ) لیکن دونوں صورتوں میں اصل مفہوم اور اس کی دلالت ایک ہی رہتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں یہ لفظ راب تھا جس کی درمیانی الف حذف کردی گئی اور رجل بار سے رجل بر کی طرح راب سے لفظ رب رہ گیا۔ جیسا کہ ابوحیان کا قول ہے۔ بعض نے اسے مبالغہ پر اسم فاعل بھی قرار دیا ہے اور بعض نے صفت مشبہ کیونکہ وہ بسا اوقات فاعل کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً الخالق، المنعم اور الصاحب وغیرہ ہیں۔

تربیت اور ملکیت

ائمہ تفسیر نے بالعموم رب کے معنی میں دو صفات کو شامل کیا ہے۔ ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ معنوی حکمت و افادیت معلوم ہونی چاہئیے۔
تربیت : اس کی تعریف سے واضح ہے کہ یہ دو شرائط کا تقاضا کرتی ہے 
i۔ تکمیل
ii۔ تدریج

 تربیت کی مختصر تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے 
هوالتبليغ الي الکمال تدريجاً.
یہ کسی شے کو تدریجا کمال تک پہنچانے کا نام ہے۔

 امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کو نہایت بلیغ انداز میں واضح کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں 
الرب في الاصل التربيه و هو انشاء الشيء حالا فحالًا اليٰ حد التمام.
لفظ رب اصلاً تربیت کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ مختلف احوال میں سے گزارتے ہوئے آخری کمال کی حد تک پہنچا دینا ہے۔
(المفردات : 184)

کمال سے یہاں مراد ہے ما یتم بہ الشیء فی صفاتہ یعنی یہ کسی چیز کی وہ حالت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انتہا کو پہنچ جائے۔ ان توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر تربیت پانے والا اپنے کمال یعنی صفاتی انتہا کو نہ پہنچے، تب بھی تربیت نامکمل رہی، اور اگر اس نے جملہ تدریجی اور ارتقائی مراحل طے نہ کیے ہوں تب بھی تربیت کامل نہ ہوئی۔ لہذا نظام تربیت کا کمال یہ ہے کہ مربوب (تربیت پانے والا) تدریجی اور ارتقائی منزلوں میں سے گزرتا ہوا اپنی صفات کی آخری حد کو پالے۔ اس تصور تربیت سے مزید دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے :
1۔ حفاظت و کفالت اور ملکیت و قدرت
2۔ ارتقاء میں تسلسل اور استمرار

حقیقی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مربوب کی تمام ضرورتوں کی صحیح کفالت اور اس کے جملہ مفادات کی صحیح حفاظت نہ ہو۔ اگر کسی بھی جہت سے مربوب کی کفالت یا حفاظت میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کی تکمیل نا ممکن ہوجاتی ہے۔ اور کفالت و حفاظت کی جملہ شرائط اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتیں جب تک وہ شے کاملا ً مربی کے قبضہ و تصرف میں نہ ہو۔ اگر مربی بلا شرکت غیرے اپنے مربوب کا مالک ہو اور بحیثیت مالک اسے اپنے مربوب کے تمام معاملات میں مکمل تصرف اور قدرت حاصل ہو تو تبھی وہ بتمام و کمال کفالت و حفاظت کی ذمہ داری پوری کرسکتا ہے، جس کے نتیجے میں ا س کا کامل مربی ہونا واقعہ بن سکے گا اور اس کی تربیت حقیقی تربیت قرار پائے گی۔ اس لیے لفظ رب اس الوہی شان کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کامل مربی و مالک ہے۔ وہی قادر اور جمیع امور میں حقیقی متصرف ہے۔ اس کی شان ربوبیت میں کوئی شریک ہے نہ دخیل۔ اس لیے اس کا رب ہونا علی الاطلاق ہے جبکہ اس عالم اسباب میں کئی افراد جو ایک دوسرے کے مربی ہوتے ہیں، انہیں جب مجازا رب کہا جاتا ہے تو ہمیشہ اضافت کی شرط کے ساتھ کہا جاتا ہے۔ مثلاً گھر اور گھوڑے کے مالک کو مجازا ً رب الدار او ر رب الفرس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں ایک شخص سے بادشاہ مصر کے بارے میں فرماتے ہیں
اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ.
اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کردینا (شاہد اسے یاد آجائے) کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا۔
(يوسف، 12 : 42)

 اسی طرح آپ ایلچی کو فرماتے ہیں
ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ.
اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔
(يوسف، 12 : 50)

 اسی طرح والدین کی نسبت بارگاہ ایزدی میں اس دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے 
وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
(بني اسرائيل، 17 : 24)

یہاں بھی رَبَّیٰنِی کا فعل رب مصدر سے والدین کے حق میں مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔ الغرض جہاں بھی رب بطور مصدر یا کسی فرد کے لیے مجازاً استعمال ہوگا کسی نہ کسی اضافت کے ساتھ ہوگا۔ مطلقاً اس کا استعمال صرف اللہ تعالی کے لیے ہے کیونکہ حقیقی مربی اور مالک مطلق وہی ذات ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات کے لیے علی الاطلاق ہے۔ اس لیے وہی اکیلا قادر مطلق اور مسبب الاسباب ہے۔ اگر اس کی اس شان ربوبیت میں کوئی اور شریک ہوتا تو نظام کائنات اس حسن تدبیر کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ جیسا کہ خود قرآن اعلان فرماتا ہے
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا.
اگران دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا اور (بھی) معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے۔
(الانبياء، 21 : 22)

بنا بریں بعض مفسرین نے رب کا اطلاق مالک، نگران، مربی، مدبر، منعم، مصلح اور معبود کے معانی پر کیا ہے۔ اور بطور خاص حفظ اور ملک کو معنی ربوبیت کا لازمی حصہ تصور کیا ہے۔
دوسری بات جو معنی تربیت میں شامل ہے وہ تکمیل کے سلسلے میں تدریج و ارتقاء کا تسلسل اور استمرار ہے۔ تدریج باب تفعیل کے خواص میں سے ہے اور تدریج و ارتقاء کی صحت اس کے تسلسل اور استمرار پر منحصر ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کمال کی طرف بڑھنے کا سلسلہ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ کسی مرحلے پر رکے بغیر جاری رہے تو تدریج کی صحت اور فوائد برقرار رہتے ہیں اور اگر درمیان میں انقطاع اور عدم تسلسل آجائے تو تکمیل متاثر ہوجاتی ہے۔ نظام ربوبیت اور تصور ارتقاء پر باقاعدہ گفتگو تو ذرا آگے چل کر ہوگی لیکن یہاں اسی قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ رب کے نظام پرورش میں تدریج و ارتقاء بھی ہے اور تسلسل و استمرار بھی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں واضح فرمایا گیا ہے 
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِO الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَO فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَO
اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا؟ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا جس صورت میں بھی چاہا اس نے تجھے ترکیب دے دیا۔
(الانفطار، 82 : 6، 7، 8)

اس آیت میں باری تعالیٰ نے اپنا ذکر شان ربوبیت سے فرمایا ہے اورساتھ ہی انسانی شخصیت کی جسمانی تکمیل کے سلسلے میں تدریج اور تسلسل کو بیان کیا ہے جس سے مذکورہ بالا تصور کو اجمالی تائید میسر آجاتی ہے اور لفظ رب کی اس معنوی خصوصیت کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔

واللہ علم

Thursday, June 5, 2014

تحمل - بدلا - معاف The Power of Forgiveness

تحمل - بدلا - معاف The Power of Forgiveness
تحمل - بدلا - معاف The Power of Forgiveness


تحمل" طاقت کی سب سے بڑی علامت ہے"
بدلا " لینے کی آرزو کمزوری کی نشانی ہے"

اور "معاف" کر دینا سب سے بڑا انتقام ہے