مسلمان کیا ہے ؟
اس سوال کی بہت ہی آسان تعریف کی جاتی ہے کہ اﷲ تعالی کے
فرائض کو پورا کرنے اورحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والا ہی
مسلمان ہے۔ اگر کچھ تفصیل سے تعریف کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کے فرائض کو پوری
ایمانداری سے ادا کرنے والا اور ساتھ میں محمد کریم ﷺ کی دی ہوئی شریعت پر
مکمل عمل پیرا ہی مسلمان ہے۔ ہم میں سے ہر شخص مسلمان ہے اوراگر وہ نہیں
بھی تو خود کو مسلمان ضرور سمجھتا ہے۔
کچھ لمحوں کے لئے اگر حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے تو ہمارے سامنے جو حقیقت آشکارہ ہوتی ہے اس میں آج کا مسلمان اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو مانتا تاہم ان اپنی خواہشات کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ آج ہر شخص ایک الگ تھلگ مسلمان بنا پھرتا ہے اور اس کے مطابق صرف وہ ہی مسلمان ہے۔ اپنے اپنے الگ اسلام کو لے کر چلنے والوں نے اسلام کے نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے تمام مسلمانوں کو ایک جز قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ مسلمان ایک جسم کی ماند ہوتے ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد کو محسوس کرتا ہے‘‘۔ مگر اس وقت ہمارے اسلام اور مسلمان ہونے پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جن مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کا قرآن ’’ایک اﷲ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو‘‘ کی تلقین کر رہا آج وہ مسلمان فرقہ واریت میں بٹ چکے ہیں۔ فرقہ واریت میں بھی یہ نہیں کہ وہ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس فرقہ کی تقلید میں عبادت بھی کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت بھی بس اس حد تک محدود ہوگئی ہے کہ کسی دوسرے فرقہ کا اگر کوئی انسان کسی اور فرقہ پر سوال اٹھادے تو اس سے لڑ جھگڑ لیتے ہیں اور بس... جو انسان جس فرقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ یہی سوچتا ہے کے اس کا فرقہ درست ہے اور میں ہی سچا مسلمان ہوں ، لیکن اسے خود کو بھی صحیح سے معلوم نہیں ہوتا ہے کہ آیا وہ جس فرقہ کو درست قرار دے رہا وہ ہے بھی یا نہیں، بس بزرگوں نے فرمادیا ، ان کے قائد نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔
کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس فرقہ کے بارے میں بتا یا کہ وہ ٹھیک ہے اور فلاں ٹھیک نہیں ہے۔ ان فرقوں میں سے کونسے فرقے اﷲ کے نزدیک ہیں اور کونسے نہیں نا ۔ عہدنبوت میں کوئی بھی ایسے فرقہ واریت نہیں ہوا کرتی تھی، تب تو صرف سب مسلمان ہوا کرتے تھے۔ اس وقت اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا تو تھا وہ یہ نہیں پوچھتا تھا کہ اب مجھے یہ بھی بتائیں کہ میں کس فرقے کو جوائن کروں۔ مگر آج تو خود ایک مسلمان جب کچھ اسلام کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کہا جاتا کہ ہے یہ ٹھیک ہے ،وہ غلط ، یہ کافر وہ مسلمان ہے جس کی وجہ سے وہ بد ظن ہوکر سوچتا ہے کہ پہلے والی زندگی ہی ٹھیک ہے۔
ہم فرقہ واریت میں بری طرح پھنس کر رہے چکے ہیں۔ اتنا کہ ہم ایک دوسرے کے عبادت کے طریقوں پر نقص نکالنے سے بعض نہیں رہتے۔ کوئی بدعت تو کوئی شرک جیسی لت میں پڑا ہوا ہے تاہم وہ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا کہ درست کر رہا ہوں یہ غلط، بلکہ اپنی اصلاح کی بجائے وہ دوسرے پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف وہ مسلمان ہیں کہ جس کو رسول اکرم ﷺ آسمانوں سے لے کر آئے تھے ۔ صرف ایک قران اور سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عبادت کرتے رہنا ہی اسلام ہے، ناکہ دوسروں کے طریقوں پرتنقید کرنا یا ان کا مذاق اڑانا عبادت میں شامل ہے۔ سب عبادت اﷲ کے لئے کرتے ہیں اس لئے قبولیت کا ذمہ بھی اﷲ تعالیٰ ہے۔ وہ ذات سب کے دلوں کے حال کو اچھے سے جانتی ہے۔
جب ہم خود کو فرقوں میں بانٹ کر خانہ جنگی میں پڑ گئے تو عالم کفر کو ہمارے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جرات ہوئی۔ ورنہ اگر مسلم ایک جت ہوتے تو کبھی بھی کسی کافر کو رسولﷺ کی ناموس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوتی۔ ہمارے علماء کرام کو اﷲ سے ڈرنا چاہئے کہ انہوں نے قوم کی اصلاح کی بجائے قوم کو فرقوں میں، نفرتوں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ یاد رکھیں جب کوئی کافر اسلام کے خلاف سازش کرتاہے تو ان کے لئے سنی ،شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث سب برابر ہوتے ہیں۔ جب وہ ہمیں مارتے ہیں تو ایک مسلمان سمجھ کر مگر ہم خود کو نہ جانے کیوں ایک مسلمان سمجھ نہیں سمجھتے۔ اتنا جان لیں جب محشر کے روز ہم سے سوال ہوگا تو ہم سے فرقوں کے بارے میں نہیں بلکہ صرف عبادت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کیا آج ہم اپنی تیاری کر رہے ہیں ، اگر نہیں تو آج سے اپنا قبلہ درست کرلیں، شاید اﷲ تعالیٰ ہمیں معاف کر کے ہمارے اسلام کو پسند کر لے۔
کچھ لمحوں کے لئے اگر حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے تو ہمارے سامنے جو حقیقت آشکارہ ہوتی ہے اس میں آج کا مسلمان اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو مانتا تاہم ان اپنی خواہشات کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ آج ہر شخص ایک الگ تھلگ مسلمان بنا پھرتا ہے اور اس کے مطابق صرف وہ ہی مسلمان ہے۔ اپنے اپنے الگ اسلام کو لے کر چلنے والوں نے اسلام کے نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے تمام مسلمانوں کو ایک جز قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ مسلمان ایک جسم کی ماند ہوتے ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد کو محسوس کرتا ہے‘‘۔ مگر اس وقت ہمارے اسلام اور مسلمان ہونے پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جن مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کا قرآن ’’ایک اﷲ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو‘‘ کی تلقین کر رہا آج وہ مسلمان فرقہ واریت میں بٹ چکے ہیں۔ فرقہ واریت میں بھی یہ نہیں کہ وہ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس فرقہ کی تقلید میں عبادت بھی کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت بھی بس اس حد تک محدود ہوگئی ہے کہ کسی دوسرے فرقہ کا اگر کوئی انسان کسی اور فرقہ پر سوال اٹھادے تو اس سے لڑ جھگڑ لیتے ہیں اور بس... جو انسان جس فرقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ یہی سوچتا ہے کے اس کا فرقہ درست ہے اور میں ہی سچا مسلمان ہوں ، لیکن اسے خود کو بھی صحیح سے معلوم نہیں ہوتا ہے کہ آیا وہ جس فرقہ کو درست قرار دے رہا وہ ہے بھی یا نہیں، بس بزرگوں نے فرمادیا ، ان کے قائد نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔
کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس فرقہ کے بارے میں بتا یا کہ وہ ٹھیک ہے اور فلاں ٹھیک نہیں ہے۔ ان فرقوں میں سے کونسے فرقے اﷲ کے نزدیک ہیں اور کونسے نہیں نا ۔ عہدنبوت میں کوئی بھی ایسے فرقہ واریت نہیں ہوا کرتی تھی، تب تو صرف سب مسلمان ہوا کرتے تھے۔ اس وقت اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا تو تھا وہ یہ نہیں پوچھتا تھا کہ اب مجھے یہ بھی بتائیں کہ میں کس فرقے کو جوائن کروں۔ مگر آج تو خود ایک مسلمان جب کچھ اسلام کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کہا جاتا کہ ہے یہ ٹھیک ہے ،وہ غلط ، یہ کافر وہ مسلمان ہے جس کی وجہ سے وہ بد ظن ہوکر سوچتا ہے کہ پہلے والی زندگی ہی ٹھیک ہے۔
ہم فرقہ واریت میں بری طرح پھنس کر رہے چکے ہیں۔ اتنا کہ ہم ایک دوسرے کے عبادت کے طریقوں پر نقص نکالنے سے بعض نہیں رہتے۔ کوئی بدعت تو کوئی شرک جیسی لت میں پڑا ہوا ہے تاہم وہ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا کہ درست کر رہا ہوں یہ غلط، بلکہ اپنی اصلاح کی بجائے وہ دوسرے پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف وہ مسلمان ہیں کہ جس کو رسول اکرم ﷺ آسمانوں سے لے کر آئے تھے ۔ صرف ایک قران اور سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عبادت کرتے رہنا ہی اسلام ہے، ناکہ دوسروں کے طریقوں پرتنقید کرنا یا ان کا مذاق اڑانا عبادت میں شامل ہے۔ سب عبادت اﷲ کے لئے کرتے ہیں اس لئے قبولیت کا ذمہ بھی اﷲ تعالیٰ ہے۔ وہ ذات سب کے دلوں کے حال کو اچھے سے جانتی ہے۔
جب ہم خود کو فرقوں میں بانٹ کر خانہ جنگی میں پڑ گئے تو عالم کفر کو ہمارے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جرات ہوئی۔ ورنہ اگر مسلم ایک جت ہوتے تو کبھی بھی کسی کافر کو رسولﷺ کی ناموس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوتی۔ ہمارے علماء کرام کو اﷲ سے ڈرنا چاہئے کہ انہوں نے قوم کی اصلاح کی بجائے قوم کو فرقوں میں، نفرتوں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ یاد رکھیں جب کوئی کافر اسلام کے خلاف سازش کرتاہے تو ان کے لئے سنی ،شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث سب برابر ہوتے ہیں۔ جب وہ ہمیں مارتے ہیں تو ایک مسلمان سمجھ کر مگر ہم خود کو نہ جانے کیوں ایک مسلمان سمجھ نہیں سمجھتے۔ اتنا جان لیں جب محشر کے روز ہم سے سوال ہوگا تو ہم سے فرقوں کے بارے میں نہیں بلکہ صرف عبادت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کیا آج ہم اپنی تیاری کر رہے ہیں ، اگر نہیں تو آج سے اپنا قبلہ درست کرلیں، شاید اﷲ تعالیٰ ہمیں معاف کر کے ہمارے اسلام کو پسند کر لے۔
تحریر علیشبہ احمد