Saturday, January 23, 2016

اپنا قبلہ درست کریں

مسلمان کیا ہے ؟
اس سوال کی بہت ہی آسان تعریف کی جاتی ہے کہ اﷲ تعالی کے فرائض کو پورا کرنے اورحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والا ہی مسلمان ہے۔ اگر کچھ تفصیل سے تعریف کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کے فرائض کو پوری ایمانداری سے ادا کرنے والا اور ساتھ میں محمد کریم ﷺ کی دی ہوئی شریعت پر مکمل عمل پیرا ہی مسلمان ہے۔ ہم میں سے ہر شخص مسلمان ہے اوراگر وہ نہیں بھی تو خود کو مسلمان ضرور سمجھتا ہے۔

کچھ لمحوں کے لئے اگر حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے تو ہمارے سامنے جو حقیقت آشکارہ ہوتی ہے اس میں آج کا مسلمان اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو مانتا تاہم ان اپنی خواہشات کو اولین ترجیح دیتا ہے۔ آج ہر شخص ایک الگ تھلگ مسلمان بنا پھرتا ہے اور اس کے مطابق صرف وہ ہی مسلمان ہے۔ اپنے اپنے الگ اسلام کو لے کر چلنے والوں نے اسلام کے نظریات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے تمام مسلمانوں کو ایک جز قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ مسلمان ایک جسم کی ماند ہوتے ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد کو محسوس کرتا ہے‘‘۔ مگر اس وقت ہمارے اسلام اور مسلمان ہونے پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

جن مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کا قرآن ’’ایک اﷲ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹو‘‘ کی تلقین کر رہا آج وہ مسلمان فرقہ واریت میں بٹ چکے ہیں۔ فرقہ واریت میں بھی یہ نہیں کہ وہ جس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس فرقہ کی تقلید میں عبادت بھی کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت بھی بس اس حد تک محدود ہوگئی ہے کہ کسی دوسرے فرقہ کا اگر کوئی انسان کسی اور فرقہ پر سوال اٹھادے تو اس سے لڑ جھگڑ لیتے ہیں اور بس... جو انسان جس فرقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ یہی سوچتا ہے کے اس کا فرقہ درست ہے اور میں ہی سچا مسلمان ہوں ، لیکن اسے خود کو بھی صحیح سے معلوم نہیں ہوتا ہے کہ آیا وہ جس فرقہ کو درست قرار دے رہا وہ ہے بھی یا نہیں، بس بزرگوں نے فرمادیا ، ان کے قائد نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہوگا۔

کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس فرقہ کے بارے میں بتا یا کہ وہ ٹھیک ہے اور فلاں ٹھیک نہیں ہے۔ ان فرقوں میں سے کونسے فرقے اﷲ کے نزدیک ہیں اور کونسے نہیں نا ۔ عہدنبوت میں کوئی بھی ایسے فرقہ واریت نہیں ہوا کرتی تھی، تب تو صرف سب مسلمان ہوا کرتے تھے۔ اس وقت اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا تو تھا وہ یہ نہیں پوچھتا تھا کہ اب مجھے یہ بھی بتائیں کہ میں کس فرقے کو جوائن کروں۔ مگر آج تو خود ایک مسلمان جب کچھ اسلام کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کہا جاتا کہ ہے یہ ٹھیک ہے ،وہ غلط ، یہ کافر وہ مسلمان ہے جس کی وجہ سے وہ بد ظن ہوکر سوچتا ہے کہ پہلے والی زندگی ہی ٹھیک ہے۔

ہم فرقہ واریت میں بری طرح پھنس کر رہے چکے ہیں۔ اتنا کہ ہم ایک دوسرے کے عبادت کے طریقوں پر نقص نکالنے سے بعض نہیں رہتے۔ کوئی بدعت تو کوئی شرک جیسی لت میں پڑا ہوا ہے تاہم وہ یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا کہ درست کر رہا ہوں یہ غلط، بلکہ اپنی اصلاح کی بجائے وہ دوسرے پر تنقید کرتا نظر آتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف وہ مسلمان ہیں کہ جس کو رسول اکرم ﷺ آسمانوں سے لے کر آئے تھے ۔ صرف ایک قران اور سنت نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عبادت کرتے رہنا ہی اسلام ہے، ناکہ دوسروں کے طریقوں پرتنقید کرنا یا ان کا مذاق اڑانا عبادت میں شامل ہے۔ سب عبادت اﷲ کے لئے کرتے ہیں اس لئے قبولیت کا ذمہ بھی اﷲ تعالیٰ ہے۔ وہ ذات سب کے دلوں کے حال کو اچھے سے جانتی ہے۔

جب ہم خود کو فرقوں میں بانٹ کر خانہ جنگی میں پڑ گئے تو عالم کفر کو ہمارے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جرات ہوئی۔ ورنہ اگر مسلم ایک جت ہوتے تو کبھی بھی کسی کافر کو رسولﷺ کی ناموس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی ہمت نہ ہوتی۔ ہمارے علماء کرام کو اﷲ سے ڈرنا چاہئے کہ انہوں نے قوم کی اصلاح کی بجائے قوم کو فرقوں میں، نفرتوں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ یاد رکھیں جب کوئی کافر اسلام کے خلاف سازش کرتاہے تو ان کے لئے سنی ،شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث سب برابر ہوتے ہیں۔ جب وہ ہمیں مارتے ہیں تو ایک مسلمان سمجھ کر مگر ہم خود کو نہ جانے کیوں ایک مسلمان سمجھ نہیں سمجھتے۔ اتنا جان لیں جب محشر کے روز ہم سے سوال ہوگا تو ہم سے فرقوں کے بارے میں نہیں بلکہ صرف عبادت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کیا آج ہم اپنی تیاری کر رہے ہیں ، اگر نہیں تو آج سے اپنا قبلہ درست کرلیں، شاید اﷲ تعالیٰ ہمیں معاف کر کے ہمارے اسلام کو پسند کر لے۔

تحریر علیشبہ احمد


Wednesday, January 6, 2016

منافقین کی اَقسام

پہلی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔

دوسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔

تیسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن مخالفینِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسبِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں۔

چوتھی قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنی سابقہ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔

پانچویں قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا۔

چھٹی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔

اسلام اپنے پیروکاروں کو تمام منافقین کی پہچان کروانا چاہتا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود رہ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ اس لئے سورہ بقرہ نے اس سلسلے میں اہم اشارات فراہم کئے تاکہ حق و باطل میں امتیاز کا صحیح شعور پیدا ہو سکے۔ اس کا دوسرا رکوع اس ضمن میں بطورِ خاص نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔

ارشاد ہوتا ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُولُ آمَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّهُ مَرَضاً وَلَهُم عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِيـْنِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ اللّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لاَّ يُبْصِرُونَ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْاْ فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُواْ وَلَوْ شَاء اللّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

البقرة، 2: 8.20
اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو)اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بیوقوف ایمان لے آئے، جان لو بیوقوف (درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیں اور جب وہ (منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقینا تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سرکشی میں بھٹک رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھے ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا اب وہ کچھ نہیں دیکھتے یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے