Saturday, June 7, 2014

لفظ "رب" کی علمی تحقیق

یہ لفظ سورہ فاتحہ میں ذات باری تعالیٰ کی پہلی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے معنی مربی اور مالک کے ہیں۔ فاتحۃ الکتاب میں باری تعالیٰ کی شان الوہیت پر دلالت کرنے والے پہلے صفاتی نام کی حیثیت سے اس کے معنی و مفہوم کو مختلف جہتوں سے سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر مضمر اعلان ربوبیت درحقیقت توحید الٰہی کا سب سے کامل اور بین ثبوت ہے۔ کیونکہ دور جاہلیت کے کفار و مشرکین کی طرح انسانی زندگی میں شرک، تصور خالقیت کی راہ سے کم اور تصورِ ربوبیت کی راہ سے زیادہ داخل ہوا ہے۔

یہ امر ثابت اور مسلّم ہے کہ کفار و مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو نام خواہ کچھ بھی دیتے ہوں، اسے رب الارباب ضرور مانتے تھے۔ کائنات میں اس کی مطلق بڑائی سے کسی کو انکار نہ تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ اس بالادست ہستی کے نیچے کئی رب اور بھی مانتے تھے اور اسی عقیدے نے ان کی جبینوں کو متعدد خداؤں کی پرستش کے لیے جھکا دیا تھا۔ ربوبیت میں اس تصور شراکت نے عقیدہ توحید کے خالص اور نکھرے ہوئے چہرے کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ بنا بریں ہم لفظ رب کے معنی کا جائزہ علمی و عملی ہر دوگوشوں سے لینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے حقیقی مفہوم اور تصور کی معرفت حاصل ہوسکے۔ اس کی مختصر تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ تربیت کے معنی میں اصلاً مصدر ہے مگر اس کا اطلاق و صفاً فائل کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے عادل کے لیے مبالغۃ عدل کا اور صائم کے لیے صوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ فی الحقیقت رب صرف مربی کو نہیں بلکہ نہایت ہی کامل مربی کو کہا جاسکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو خود ہر جہت سے کامل ہو وہی دوسرے کی کامل تربیت کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔ اس لیے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے
التربية هی تبليغ الشئي الي کماله شيا فشيا.
تربیت سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ اس کے کمال تک پہنچانا ہے۔
(تفسيرأبی السعود، 1 : 13)

بعض اہل علم کے نزدیک لفظ رب، مربی کے معنی میں خود نعت ہے۔ (جیسے نعمَّ۔ ینمّ۔ فھونمٌّ، ربّ، یربّ، فھو ربٌّ) لیکن دونوں صورتوں میں اصل مفہوم اور اس کی دلالت ایک ہی رہتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں یہ لفظ راب تھا جس کی درمیانی الف حذف کردی گئی اور رجل بار سے رجل بر کی طرح راب سے لفظ رب رہ گیا۔ جیسا کہ ابوحیان کا قول ہے۔ بعض نے اسے مبالغہ پر اسم فاعل بھی قرار دیا ہے اور بعض نے صفت مشبہ کیونکہ وہ بسا اوقات فاعل کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً الخالق، المنعم اور الصاحب وغیرہ ہیں۔

تربیت اور ملکیت

ائمہ تفسیر نے بالعموم رب کے معنی میں دو صفات کو شامل کیا ہے۔ ان دونوں کی اپنی اپنی جگہ معنوی حکمت و افادیت معلوم ہونی چاہئیے۔
تربیت : اس کی تعریف سے واضح ہے کہ یہ دو شرائط کا تقاضا کرتی ہے 
i۔ تکمیل
ii۔ تدریج

 تربیت کی مختصر تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے 
هوالتبليغ الي الکمال تدريجاً.
یہ کسی شے کو تدریجا کمال تک پہنچانے کا نام ہے۔

 امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مفہوم کو نہایت بلیغ انداز میں واضح کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں 
الرب في الاصل التربيه و هو انشاء الشيء حالا فحالًا اليٰ حد التمام.
لفظ رب اصلاً تربیت کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ مختلف احوال میں سے گزارتے ہوئے آخری کمال کی حد تک پہنچا دینا ہے۔
(المفردات : 184)

کمال سے یہاں مراد ہے ما یتم بہ الشیء فی صفاتہ یعنی یہ کسی چیز کی وہ حالت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انتہا کو پہنچ جائے۔ ان توضیحات سے معلوم ہوا کہ اگر تربیت پانے والا اپنے کمال یعنی صفاتی انتہا کو نہ پہنچے، تب بھی تربیت نامکمل رہی، اور اگر اس نے جملہ تدریجی اور ارتقائی مراحل طے نہ کیے ہوں تب بھی تربیت کامل نہ ہوئی۔ لہذا نظام تربیت کا کمال یہ ہے کہ مربوب (تربیت پانے والا) تدریجی اور ارتقائی منزلوں میں سے گزرتا ہوا اپنی صفات کی آخری حد کو پالے۔ اس تصور تربیت سے مزید دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے :
1۔ حفاظت و کفالت اور ملکیت و قدرت
2۔ ارتقاء میں تسلسل اور استمرار

حقیقی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مربوب کی تمام ضرورتوں کی صحیح کفالت اور اس کے جملہ مفادات کی صحیح حفاظت نہ ہو۔ اگر کسی بھی جہت سے مربوب کی کفالت یا حفاظت میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کی تکمیل نا ممکن ہوجاتی ہے۔ اور کفالت و حفاظت کی جملہ شرائط اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتیں جب تک وہ شے کاملا ً مربی کے قبضہ و تصرف میں نہ ہو۔ اگر مربی بلا شرکت غیرے اپنے مربوب کا مالک ہو اور بحیثیت مالک اسے اپنے مربوب کے تمام معاملات میں مکمل تصرف اور قدرت حاصل ہو تو تبھی وہ بتمام و کمال کفالت و حفاظت کی ذمہ داری پوری کرسکتا ہے، جس کے نتیجے میں ا س کا کامل مربی ہونا واقعہ بن سکے گا اور اس کی تربیت حقیقی تربیت قرار پائے گی۔ اس لیے لفظ رب اس الوہی شان کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ کامل مربی و مالک ہے۔ وہی قادر اور جمیع امور میں حقیقی متصرف ہے۔ اس کی شان ربوبیت میں کوئی شریک ہے نہ دخیل۔ اس لیے اس کا رب ہونا علی الاطلاق ہے جبکہ اس عالم اسباب میں کئی افراد جو ایک دوسرے کے مربی ہوتے ہیں، انہیں جب مجازا رب کہا جاتا ہے تو ہمیشہ اضافت کی شرط کے ساتھ کہا جاتا ہے۔ مثلاً گھر اور گھوڑے کے مالک کو مجازا ً رب الدار او ر رب الفرس کہا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام قید خانے میں ایک شخص سے بادشاہ مصر کے بارے میں فرماتے ہیں
اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ.
اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کردینا (شاہد اسے یاد آجائے) کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا۔
(يوسف، 12 : 42)

 اسی طرح آپ ایلچی کو فرماتے ہیں
ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ.
اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔
(يوسف، 12 : 50)

 اسی طرح والدین کی نسبت بارگاہ ایزدی میں اس دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے 
وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب ! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
(بني اسرائيل، 17 : 24)

یہاں بھی رَبَّیٰنِی کا فعل رب مصدر سے والدین کے حق میں مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔ الغرض جہاں بھی رب بطور مصدر یا کسی فرد کے لیے مجازاً استعمال ہوگا کسی نہ کسی اضافت کے ساتھ ہوگا۔ مطلقاً اس کا استعمال صرف اللہ تعالی کے لیے ہے کیونکہ حقیقی مربی اور مالک مطلق وہی ذات ہے اور اسی کی ملکیت و پرورش ساری کائنات کے لیے علی الاطلاق ہے۔ اس لیے وہی اکیلا قادر مطلق اور مسبب الاسباب ہے۔ اگر اس کی اس شان ربوبیت میں کوئی اور شریک ہوتا تو نظام کائنات اس حسن تدبیر کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ جیسا کہ خود قرآن اعلان فرماتا ہے
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا.
اگران دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا اور (بھی) معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے۔
(الانبياء، 21 : 22)

بنا بریں بعض مفسرین نے رب کا اطلاق مالک، نگران، مربی، مدبر، منعم، مصلح اور معبود کے معانی پر کیا ہے۔ اور بطور خاص حفظ اور ملک کو معنی ربوبیت کا لازمی حصہ تصور کیا ہے۔
دوسری بات جو معنی تربیت میں شامل ہے وہ تکمیل کے سلسلے میں تدریج و ارتقاء کا تسلسل اور استمرار ہے۔ تدریج باب تفعیل کے خواص میں سے ہے اور تدریج و ارتقاء کی صحت اس کے تسلسل اور استمرار پر منحصر ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کمال کی طرف بڑھنے کا سلسلہ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ کسی مرحلے پر رکے بغیر جاری رہے تو تدریج کی صحت اور فوائد برقرار رہتے ہیں اور اگر درمیان میں انقطاع اور عدم تسلسل آجائے تو تکمیل متاثر ہوجاتی ہے۔ نظام ربوبیت اور تصور ارتقاء پر باقاعدہ گفتگو تو ذرا آگے چل کر ہوگی لیکن یہاں اسی قدر سمجھ لینا ضروری ہے کہ رب کے نظام پرورش میں تدریج و ارتقاء بھی ہے اور تسلسل و استمرار بھی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں واضح فرمایا گیا ہے 
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِO الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَO فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَO
اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا؟ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا جس صورت میں بھی چاہا اس نے تجھے ترکیب دے دیا۔
(الانفطار، 82 : 6، 7، 8)

اس آیت میں باری تعالیٰ نے اپنا ذکر شان ربوبیت سے فرمایا ہے اورساتھ ہی انسانی شخصیت کی جسمانی تکمیل کے سلسلے میں تدریج اور تسلسل کو بیان کیا ہے جس سے مذکورہ بالا تصور کو اجمالی تائید میسر آجاتی ہے اور لفظ رب کی اس معنوی خصوصیت کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔

واللہ علم

No comments:

Post a Comment